سوال: کرسیوں پر نماز پڑھنے کا مسئلہ آج کل بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ بہت سے لوگ زندگی کے سارے کام چل پھر کر کرتے ہیں۔ ضرورت کے وقت زمین پربھی بیٹھتے ہیں، خاص طور پر دعوتیں کھانے کےلئے زمین پر ہی بیٹھتے ہیں مگر نماز کرسیوں پر پڑھتے ہیں، کیا ان کےلئے ایساکرنا درست ہے؟ اور بہت سارے لوگ واقعتاً ایسا کرنے پر مجبور ہیں کہ وہ کرسی پر نماز ادا کریں کیونکہ وہ زمین پر بیٹھے اور سجدہ کرنے میں سخت مشکلات محسوس کرتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کس صورت میں کرسی پر نماز درست ہے اور کس صورت میں نہیں اس کا واضح جواب عنائیت فرمائیں؟
ہلال احمد میر
لعل بازار سرینگر
کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنا۔۔۔۔۔۔ چند اہم مسائل
جواب:۔نماز میں جو اعمال فرض ہیں وہ دو قسم کے ارکان ہیں قولی اور فعلی۔ قولی ارکان وہ اعمال ہیں جو زبان سے ادا کئے جائیں۔ جیسے قرأت اور فعلی ارکان وہ اعمال ہیں جو جسمانی نقل و حرکت سے ادا کئے جاتے ہیں۔ نماز میں فعلی ارکان چار ہیں: قیام، رکوع، سجدہ اورقعود ۔نماز میں ان تمام ارکان کوادا کرنا لازم ہے۔ اگر کسی نے کوئی رکن بلا عذر ترک کر دیا تو اُس کی نماز درست نہ ہوگی۔اب سوال یہ کہ اگر کوئی شخص کسی جسمانی عذر کی بنا پر ان ارکان کو ادا نہ کر پائے تو اس کےلئے شریعت کی طرف سے کیا کیا رخصت ہے ؟یہ سوال عموماً اُس وقت بھی درپیش رہتا ہے جب کرسیوں پر نماز پڑھنے کے جواز یا عدم جواز کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے۔جب کوئی شخص قیام کرکے نماز نہ پڑھ سکے تو اُس کےلئے حضرت رسول اکرم ﷺ کا عمل مبارک نمونہ ہے۔ آپ کی ذات اقدس ﷺ کا دایاں پہلو زخمی ہوا اور آپ کھڑے ہو کر نما زنہیں پڑھ پاتے تھے تو اُن ایام میں آپ نے بیٹھ کر نمازا دا فرمائی۔( بخاری وغیرہ) لہٰذا اگر کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز نہ پڑھ سکے تو اُس کےلئے رخصت یہ ہے کہ وہ زمین پر بیٹھ کر نما زپڑھے۔ اس کو صرف قیام چھوڑ کر قعود میں بیٹھ کر نماز پڑھنی ہوگی۔ اس کا رکوع بھی درست طرح سے ادا ہو جائے گا اور سجدہ بھی اداہوگا۔ ایسا شخص زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کےبجائے کرسی پر ہر گز نما ز نہ پڑھے۔ یہ عمل نبویؐ کے خلاف ہے اور جو شخص سجدہ اور قعود نہ کرسکے اور زمین پر بیٹھ کر نما زپڑھنے سے عاجز ہو جائے وہ شخص اگر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھے گا تو اُس کی نماز درست ہوگی۔ جو شخص قیام کرنے سے عاجز ہو مگر زمین پر بیٹھ کر قعود بھی کرسکتا ہو اور زمین پر پیشانی ٹیک کر سجدہ بھی کرسکتا ہو ایسا شخص اگر کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھے تو اسکی نماز درست نہیں ہوگی۔ کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھنےکی اجازت صرف ایک شخص کو ہے اور وہ ایسا شخص ہے جو قیام قعود اور سجدہ تینوں عمل انجام دینے سے عاجز ہو۔لہٰذا جو شخص کرسی پر نماز پڑھنے کی ضرورت محسوس کرے وہ پہلے اچھی طرح معلوم کرے کہ کیا وہ عذر کی اس حد تک پہونچ گیا ہے جس میں کرسی پر بیٹھ کر اشاروں سے رکوع سجدہ کرکے نماز ادا کرنے سے نماز درست ہوجائے گی۔
جب پورے اطمینان سے یہ بات معلوم ہو جائے کہ وہ عذر کی اس حالت کو پہونچ چکا ہے جس میں رکوع سجدہ اور قعود اُس کےلئے سخت مشکل ہو اور کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھے بغیر کوئی چارہ نہیں تو ایسا شخص اس رخصت پر عمل کرسکتا ہے۔ ورنہ جو شخص دوسرے مختلف کاموں کےلئے زمین پر بیٹھ جاتا ہو اور اٹھنے، بیٹھنے ، کھڑے ہونے اور نیچے بیٹھ جانے کےلئے کوئی عذر محسوس نہیں کرتا وہ اگر صرف نماز کےلئے کرسیوں پر بیٹھے کا معمول بنائے تو یقیناً اس کا یہ طرزعمل منشاء شریعت اور روح صلوٰۃ کے خلاف ہے ۔
سوال:۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جس گھر میں کسی کی وفات ہو جاتی ہے انکے گھر والوں پر روزہ اسی طرح فرض نہیں ہے جس طرح دوسرے لوگوں پر فرض ہے اور کچھ لوگ یہ کہتے تھے کہ ان کا روز رکھنا گناہ ہے؟اب ہمارا سوال یہ کہ جس گھر میں کسی کی موت واقع ہوگئی ہو اس کے گھر والوں کو روزہ رکھنا چاہئے کہ نہیں؟
سوال:۔ اگر کوئی شخص بیمار ہو جائے اور روزہ نہ رکھ سکے تو کیا اسکو فدیہ دینے کی اجازت ہے ؟اگر اجازت ہے فدیہ کتنا ہوگا؟
مدثر گنائی کنی پورہ
بیمار شخص، روزہ اور فدیہ
جواب:۔ دونوں سوالوںکا جواب درج ذیل ہے۔
(۱) جس گھرمیں کسی کی وفات ہو جائے اُس گھر کے پسماندگان پر روزہ اسی طرح فرض ہے جیسے دوسرے ہر مسلمان پر فرض ہے۔ گھر میں وفات کا حادثہ پیش آنے پر نہ تو روزہ معاف ہوگا اور نہ ہی روزہ رکھنا کوئی منع ہے۔یہ خیال سراسر غلط اور جہالت پر مبنی ہے کہ وفات کے حادثہ کی وجہ سے روزہ کو ترک کر دیا جائےیا یہ سمجھا جائے کہ روزہ رکھنا ان کے لئے ناجائز ہے یا غم کا بہانہ بنا کر روزہ چھوڑ دیاجائے۔ حقیقی غم میں تو بھوک مٹ جاتی ہے اور نیند غائب ہو جاتی ہے نہ کہ غم کی وجہ سے اللہ کا لازم کردہ فرض چھوڑ دیا جائے۔ لہٰذا جس گھرمیں کسی کی وفات کا حادثہ پیش آئے اُس گھر کے تمام بالغ مردو عورت رمضان کے روزے چھوڑنے کا گناہ کبیرہ ہر گز نہ کریں۔
(۲) جس شخص کو کوئی ایسی بیماری ہو کہ وہ روزہ رکھ ہی نہ سکے تو اسے اجازت ہے کہ بیماری کی وجہ سے فی الحال روزہ ترک کردے اور آئندہ جب صحت یاب ہو جائے تو ان چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے۔ اگر کوئی بیماری ایسی ہو کہ وہ صحت یاب نہ ہو سکے تو اس کو شرعاً اجازت ہے کہ روزوں کا فد یہ ادا کرے۔ اور فدیہ کی مقدار یہ ہے کہ ہر روز کے بدلے میں ایک صدقہ فطر کی قیمت غرباء مستحقین زکوٰۃ میں تقسیم کی جائے۔ اگر کسی شخص نے آج فدیہ اد اکر دیا اور پھر وہ روزے رکھنے کے قابل ہو گیا تو اس پر اُن روزوں کی قضا لازم ہوگی ۔
سوال:۔ کیا اذان مسنون سے پہلے صلی اللہ علیک یا رسول اللہ کا چار مرتبہ اضافہ کرسکتے ہیں یا نہیں قرآن اور حدیث کی روشنی میں وضا حت فرما کر عند اللہ ماجو رہوں ؟جواب عنایت فرمائیں؟
منظور احمدخان،محمد قبال خان ، ارشاد احمد خان،عبدالحمید راتھروغیرہ
کنگن
اذان کے بعد درود شریف پڑھنا باعث شفاعت
جواب:۔ اذان کے کلمات حضرت جبرائیل علیہ السلام نے سکھائے اور اُن کلمات کے مطابق حضرت بلال ؓ اذان پڑھتے رہے اُس کے بعد تمام حدیث اور فقہ کی کتابوں میں جو اذان پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے نقل ہوتی آئی ہے اور اسی اذان پر تمام دنیا کے مسلمان ہمیشہ اور آج بھی پورے عالم میں عمل کرتے آئے ہیں اس میں درود شریف کا کوئی اضافہ نہیں ہے ۔ اس لئے جو لوگ اذان سے پہلے اپنی طرف سے درود شریف کا اضافہ کرتے ہیں وہ یقیناً اذان میں ایک ایسی چیز کا اضافہ کرتے ہیں جو حدیث کے بھی خلاف ہے۔۔ پورے امت کے اجتماعی عمل کے بھی خلاف ہے۔ ایسے لوگ اگر نمازمیں سورہ فاتحہ سے پہلے بھی درود شریف کا اضافہ کریں تو اسی اصول کی بنا پر منع کیا جائے گا۔ ظاہر ہے جیسے یہ غلط ہے ویسےوہ بھی غلط ہے۔ہاں دورد شریف اگر اذان کے بعد اورادائے اذان سے پہلے پڑھا جائے تو حدیث میں اسکی عظیم فضلیت ہے ترمذی شریف میں حدیث ہے کہ جو شخص اذان کے بعد درود شریف پڑھے پھر اذان کے بعد دُعا پڑھے تو اس پر شفاعت واجب ہوگئی۔ لہٰذا اذان سے پہلے اضافہ خود کی طر ف سے ایسا اضافہ ہے جو بدعت بنے گا اور اذان کے بعد ہر شخص درود بھی پڑھے اور دعا بھی پڑھے تو حدیث کی رو سے شفاعت کا مستحق ہوگا۔
سوال: ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ اپنی بیویوں کے مہرا دا کرنے میں بہت کوتاہیاں کرتے ہیں بلکہ بہت سارے لوگوں کا طرز عمل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو لازم سمجھتے ہی نہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مہر کی حیثیت کیا ہے اور اس کے ادا نہ کرنے کے متعلق کیا حکم ہے؟۔
بشارت ا حمد خان
مہر… تاخیر سے مکمل ادائیگی ممکن نہیں
جواب:۔ اسلامی اصولوں کے مطابق کسی مسلمان مرد و عورت کا جب نکاح ہوتا ہے تو اْس کے لئے مہر طے کرنا لازم ہے۔ چنانچہ حضرت نبی کریمٓ کی خدمت میں ایک نوجوان نے ایک خاتون سے رشتہ کرنے کی پیشکش کی۔ آپ ٓنے ارشاد فرمایا کہ مہر لائو چاہئے لوہے کی انگھوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ نوجوان دوسرے علاقہ کا پردیسی تھا اور مفلوک الحال بھی۔ اس نے عرض کیا کہ میرے پاس تو لوہے کی انگھوٹی کے بقد ر بھی کچھ نہیں ہے۔ تو آپ ٓ نے فرمایا بغیر مہر کے نکاح کیسے ہوگا( بخاری)
قرآن مجید میں ارشاد ہے اپنی عورتوں کو مہر خوشی و رضامندی سے ادا کرو۔ حضرت نبی کریم ٓ نے فرمایا کہ جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا ہو اور اس کو مہر ادا کرنے کا ارادہ نہیں ہو تو وہ زنا کاری کر رہا ہے۔
اس لئے قرآن،حدیث، فقہ، عقل و اخلاق ان تمام کاتقاضا یہ ہے کہ مہر خوش دلی سے اد اکیا جائے۔ اسلام نے یہ اجازت بھی دی ہے کہ اگر مہر ادا کردینا مشکل ہو تو مہر کو موٓجل ل(اْدھار )رکھا جائے۔ مگر اس کے معنی ہر گز یہ نہیں کہ مہر موٓجل کی ادائیگی کی فکر ہی نہ کی جائے۔ اگر خدانخواستہ مجلس نکاح میں، رخصتی کے وقت اور پھر سالہاسال تک مہر کو باقی رکھا گیا تو اس میں یہ بات یقینی ہے کہ اب تاخیر کے بعد جب یہ مہر ادا کر لیا جائے تو وہ مکمل طور پر ادا ہوہی نہیں سکتا۔ اس لئے کہ کرنسی کی گرتی ہوئی مالیت کی بنا پر یہ طے ہے کہ تعداد کے اعتبار سے گوکہ رقم مکمل ہوگی مگر اْس کی حیثیت اور مالیت بہت حد تک کم ہوچکی ہوگی مثلاً 1415ٓھ میں نکاح ہوا اور آج بیس سال کے بعد 1435ٓھ میں مہر ادا کیا جائے تو 1415ٓھ کے دس ہزار کی مالیت آج اتنی کم ہوگئی ہوگی جو 1415ٓھ کے پانچ ہزار کی تعدا د ہوگی۔
اس لئے جتنی جلد ہوسکے باقی ماندہ مہرا دا کرنے کی کوشش کی جائے، حضرت نبی کریم ٓ نے فرمایا سب سے زیادہ لازمی حق جس کی ادائیگی بہت ضروری ہے وہ حق ہے جس کی بنا پر تم نے کسی عورت کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔
مہر کی ادائیگی اس درجہ لازم حکم ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی مر د نے مہرادا نہ کیا ہوا ور وہ فوت ہو جائے تو اْس کے مال میں سب سے پہلے مہر وصول کرکے اْس کی بیوہ کو دیا جائے اس کے بعد اس کی میراث تقسیم کی جائے، اور اْس میراث میں اْس عورت کا بھی حق ہے جو یا تو کل جائیداد کا چوتھا حصہ ہوگا، یا کل جائیدا کا آٹھواں حصہ۔ بہر حال مہر بہت لازمی حکم ہے۔ اگر نکاح میںمہر کا تذکرہ بھی نہ ہوگا تو نکاح ایجاب و قبول کی بنا پر صحیح ہو جائے گامگر مہر خو بخود لازم ہوگا اور یہ مہر مثل ہوگا۔
سوال: عام طور پر سلام کرنے کا رواج ہے مگر کچھ لوگ ہاتھ کے یا سر کے اشارے سے سلام کرتے ہیں ، خاص کر فاصلے سے تاہم بعض لوگ عادت کی وجہ سے نزدیک ہونے کے باوجود جب سلام کاجواب دیتے ہیں تو صرف سرکی جنبش یا ہاتھ کے اشارے پر اکتفا کرتے ہیں۔کیا یہ طریقہ سلام کے لئے کافی ہے۔
عبد المجید
صرف اشار ے کو سلام سمجھنا درست نہیں
جواب: سلام درحقیقت محبت ،اپنائیت اور دعا کا وہ اظہارہے جو زبان سے ادا ہو تو سلام ہے۔اگر زبان سے کچھ نہیں بولا گیا اگرصرف سرسے یا ہاتھ سے اشارہ کیا گیا تو یہ ہرگز سلام نہیں اور اگر کسی کے سلام کا جواب صرف ہاتھ یا سر کے اشارے سے دیا گیا تو جواب ادا نہیں ہوتا اور سلام کا جواب دینا چونکہ واجب ہے اس لئے وہ واجب جواب دینے والے کے ذمہ باقی رہتاہے۔
درحقیقت سلام یا جواب سلام زبان کا عمل ہے نہ کہ اشارے کا۔ اس لئے زبان سے ہی سلام اور جواب کا ادا ہونا ضروری ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص دورفاصلہ پر ہو اور اْس تک سلام کی آواز نہ پہنچنے کا خدشہ ہو تو زبان سے سلام کے یا جواب کے کلمات کہہ کر ہاتھ سے اشارہ کرسکے ہیں۔ اس صورت میں سلام تووہی ہوگا جو زبان سے ادا ہوا۔البتہ اشارے سے دوسرے تک سلام پہنچائی گئی۔
صدر مفتی دارالافتاء
دارالعلوم رحیمہ بانڈی پورہ