راہِ عام پر قبضہ کرنا یا رُکاوٹیں ڈالنا شرعاً ممنوع
سوال نمبر۱:)کئی مقامات پر لوگوں نے بڑے بڑے راستوں پر قبضہ جما کر راستہ ہڑپ کیا ہے جس سے عبور و مرور مشکل بن گیا ہے۔ شریعت میں اس کے لئے کیا احکامات ہیں اور وعید کیا ہیں؟
سوال نمبر ۲:)شریعت نے مالدار پر حج فرض عین قرار دیا ہے۔ جس شخص پر حج فرض ہوا اور وہ ادا نہ کرے تو اس صورت میں اس کے لئے کیا احکامات ہیں۔ کیا اس شخص کی وفات کے بعد اس کے وارثوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کا حج بدل کرائیں۔ اس کے علاوہ اگر کسی شخص کے پاس اچھی خاصی جائداد ہے اور حج اس پر فرض عائد ہوتا ہے۔ نقدی موجود نہ ہونیکی صورت میں کیا وہ اس زمین و جائداد میں سے تھوڑی سی فروخت کر کے حج ادا کر سکتا ہے۔ کیا اس کے لئے اجازت ہے۔
محمد یوسف لون رحمت آباد رفیع آباد کشمیر
جواب نمبر:۱)راستوں کا مقصد عوام کے لئے گذر گاہ مہیا رکھنا ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: خبر دار! راستوں میں بیٹھنے سے پرہیز کرو۔ دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا: جب تم راستوں میں بیٹھو تو راستے کا حق ادا کرو ۔ عرض کیا گیا راستے کا حق کیا ہے۔ ارشاد فرمایا۔ گذرنے والوں کے لئے رکاوٹ نہ بنو۔
اسی لئے راستوںمیں گاڑیاں کھڑی کرنا، سامان رکھنا، فروخت کا سامان بیچنا، تعمیراتی سامان راستوں میں ڈالنا غرض کہ ہر وہ کام جو راستے کو بند کردے شریعت اسلامیہ میںمنع ہے۔
جب وقتی اور عارضی طور پر یہ سب منع ہے تو مستقل قبضہ کرنا اور ہمیشہ کے لئے راستہ بند کرنا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔
راستہ صرف چلنے کے لئے ہے اور ہر شخص کو حق ہے کہ وہ راستے پر چلے اور دوسرے کے لئے رکاوٹ نہ بنے۔ یہ مملوکہ چیز نہیں کہ اس پر قبضہ جما کر دوسروں کو اس سے فائدہ اٹھانے سے روک دیں۔ اس لئے راستوں پر مستقل یا عارضی طور پر قبضہ جمانا اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی ہے۔
حج فرض ہونے پر اداء نہ کرنا گناہِ کبیرہ
جواب:۲) جس شخص پر حج فرض ہوگیا ہو اس پر اس فریضہ کی ادائیگی لازم ہے اگر کوئی شخص بغیر کسی وجہ سے اس فریضہ کے ادا کرنے میں غفلت برتے تو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے ۔ اگر کوئی شخص کوشش اور ارادے کے باوجود حج نہ کر سکا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے ورثاء کو وصیت کرے کہ وہ اس کی طرف سے حج کا فرض ادا کریں اور جب وہ وصیت کرے تو اُن ورثاء کو یہ حجِ بدل کرنا ضروری ہوگا۔ حج جب فرض ہو جائے اور پھر بھی کوئی یہ فرض ادا نہ کرے تو اس کے لئے حدیث میں نہایت سخت وعید ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال نمبر۱ 🙂 آج کل عام کاروبار میں قرضے (Loan )استعمال ہوتے ہیں حتیٰ کہ مکان کی تعمیرات وغیرہ میں بھی، خصوصا ہماری میوہ صنعت اس سے برُی طرح متاثر ہے۔ بینک کو قرضہ واپس کرتے وقت حساب سے سود بھی دینا پڑتا ہے، کیا اس کاروبار سے حاصل شدہ پیسہ، جس میں سود کا لین دین ہو، خیراتی کاموں میں استعمال کر سکتے ہیں۔ خصوصا حج و عمرہ وغیرہ کے لئے۔
محمد یوسف لون رحمت آباد رفیع آباد
میوہ صنعت و تجارت کے لئے بنک قرضہ جات کے حصول پر شرعی حکم
جواب ۱:) بینک سے قرضہ لے کر جو بھی کام کیا جائے اس کام کو تو حرام نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے جس رقم سے وہ یہ کام کرتا ہے وہ رقم آئندہ اس کو واپس کرنی ہوتی ہے۔ البتہ رقم واپس کرتے ہوئے اسے مزید سود بھی دینا پڑتا ہے اور اس پر حدیث میں لعنت فرمائی گئی جیسے سود کھانا سخت ترین حرام ہے۔ اسی طرح سود دینا بھی سخت منع ہے۔ اسی وجہ سے اس کام میں بھی برکت اور سکون نہیں ہوتا جس میں سودی قرضہ لے کر استعمال کیا گیا ہو۔
میوہ کی صنعت ہو یا تجارتی کام جب اس میں سود کی ادائیگی لازم کرنے والا بینک کا قرضہ شامل کیا گیا تو اس میں گناہ کبیرہ ہوگیا۔ اس لئے کہ سود دینے پر لعنت بھی ہے اور وعید یں بھی ہیں۔
البتہ یہ طے ہے کہ اگر کسی نے میوہ صنعت یا دکان میں تجارتی مال لانے کے لئے بینک کا سودی قرضہ لیا تو یہ میوہ فروشی اور اس کی آمدنی یا تجار ت کا سامان بیچنا اور اس کی آمدنی حرام نہیں ہوگی۔
ہاں اگر کسی نے اپنی رقم پر سود لیا چاہے اس نے یہ سود بینک سے لیا ہو یا کسی فرد سے لیا ہو پھر اس سود کی رقم سے تجارت کی یا میوہ صنعت میں یہ سودی رقم استعمال کی تو یہ دونوں حرام ہونگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: کئی والدین اپنے بچوں کا یوم پیدائش جاننے کے باوجود اسکول ریکارڈ میں غلط اندراج کرواتے ہیں۔ اس کے بارے میں شریعت مطہرہ میں کیا حکم ہے۔ وضاحت فرمائیں۔
محمد عبد اللہ آفن لولاب
تاریخ پیدائش کا غلط اندراج کذب بیانی کے برابر
جواب:تاریخ پیدائش تبدیل کرنا جائز نہیں۔ یہ دھوکا دینا بھی ہے، جھوٹ بولنا بھی ہے اور پوری زندگی خلاف حقیقت لکھنا اور بولنا ہے۔ مثلاً کسی کی تاریخ پیدائش ۵؍ رمضان المبارک ۱۴۳۸ھ ہو اور اس نے ۵؍ رمضان ۱۴۴۱ھ لکھوایا تو یہ تین سال کم عمر لکھوائی گئی۔ اب پوری زندگی وہ یہی غلط بیانی کرتا رہے گا۔ اب آگے جب کسی جگہ، کسی دفتر یا ادارے میں اپنی تاریخ پیدائش لکھوائے گا تو یہی تبدیل کردہ تاریخ لکھوائے گا اور یہ کذب بیانی ہے۔ غرض کہ تاریخ پیدائش بدل دینا بہت ساری غیر شرعی باتوں پر مشتمل ایک غلط روش ہے اس لئے اس سے پرہیز کرنا ضروری ہے۔ اور اگر کسی نے اپنے بچے کی تاریخ پیدائش غلط درج کروائی تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس کو درست کرائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوہر میں خرابی ہو تو خلع کا عوض لینا گناہ
سوال:۱- ایک لڑکی اگر طلاق لینا چا ہے تو کیا وہ یا زمین اور دیگر اموال ،واپس لاسکتی ہے یا کہ اس پر شوہر کا ہی حق ہے اور وہ اس کو اپنے پاس رکھ سکتاہے ۔جب کہ بدلِ خلع میں شوہر صرف حق مہر کا ہی حقدار ہوتاہے ۔
سوال:۲-دوسری صورت اگر لڑکا طلاق دینا چاہے تو وہ لڑکی کو مائیکہ اور سسرال اور سسرالی رشتہ داروں کی طرف سے دیئے گئے تحائف لڑکی کو واپس کرسکتاہے یا نہیں ؟
نورالحسن …بھدرواہ
جواب:۱-جب زوجہ طلاق کا مطالبہ کرے تو شوہر کو حق ہے کہ وہ عوضِ طلاق کا مطالبہ کرے لیکن اگر شوہر کے ظلم یا کسی دوسری کوتاہی کی بناء پر زوجہ مجبورہوکر طلاق کا مطالبہ کرے تو ایسی صورت میں شوہر کا عوض طلب کرنا جائز نہیں ہے ۔ اب اگر اس نے عوض طلب کرلیا اور لڑکی اپنی گلوخلاصی کے لئے مجبوراً عوض دیدے تو عورت کو کوئی گناہ نہ ہوگا۔اگر بدل طلاق جس کو بدلِ خلع بھی کہتے ہیں ،میں صرف مہر طے ہوا تو بقیہ تمام چیزیں عورت کا ہی حق ہے اور اگر بدلِ خلع میں مہر اور دیگر اشیاء کا مطالبہ کیا گیا اور عورت نے اپنی جان چھڑانے کے لئے مجبوراً قبول کرلیا تو پھر مہر اور دیگر وہ اشیاء جو بدلِ خلع میں طے کی گئیں وہ شوہر کو دینی ہوں گی ۔جب کوئی شوہر یہ کہے کہ میری بیوی مجھ سے چھٹکارا چاہتی ہے میں کس کس چیز کا مطالبہ کرسکتاہوں تو جواب یہ ہوگاکہ اگر وہ خواہ مخواہ رشتہ ختم کرنے پر مُصر ہے تو پھر جومہر اور زیورات شوہر نے دئے ہیں اُن کی واپسی کی شرط پر خلع کرسکتے ہیں لیکن اگر خامی اورخرابی شوہر میں ہے تو کچھ بھی لینا گناہ ہے ۔
جواب:۲-جب شوہر از خود طلاق دے تو ایسی صورت میں عورت کو مہر اور دیگر تمام اشیاء چاہے وہ میکے والوں کی طرف سے دی گئی ہوں یا سسرال والوں کی طرف سے ، یہ سب اُس مطلقہ کا حق ہے اور شوہر اُن میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتا۔ l
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:۱-ہمارے گائوں میں نئی جامع مسجد شریف کی تعمیر ہوئی ۔ جگہ نہ ملنے کی وجہ سے ہم نے اسی ادھوری تعمیر (under Construction) مسجد میں نماز ادا کی ۔ اب چونکہ ہم اس کی باقی مرمت اندر سے کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا کام کرنے والے جوتے پہن کر اندرجاسکتے ہیں یا نہیں ؟
غلام محمد چوپان …ٹنگمرگ کشمیر
مسجد کی داخلی مرمت کے دوران پاپوش پہننے کا مسئلہ
جواب:۱-مسجد کے اندر نامکمل تعمیر کو مکمل کرنے کے لئے اگر جوتے یا چپل پہننے کی ضرورت پڑے تو اس کے لئے نئے چپل یا جوتے خریدے جائیں جو صرف مسجد کے اندر تعمیری کام کے دوران استعمال ہوں اور وہ جوتے یا چپل مسجد کے باہر ہرگز استعمال نہ کئے جائیں اور جب کام ختم ہوجائے تو پھر باہر استعمال کرسکتے ہیں ۔ باہر کے استعمال سے ان کے ناپاک ہونے کاخدشہ ہے اس لئے یہ حکم ہے ۔lll