سوال:۔ جمعہ کو کون سی اذان ( یعنی پہلی یا دوسری) کے بعد کاروباری سرگرمیاں معطل کرنے کا حکم ہے؟ کئی کاروباری ادارے یا دکانیں دو مسجدوں کے درمیان واقع ہوتے ہیں اور ان اداروں یا دکانوں میں کام کرنے والے کارکنان بار ی باری سے الگ الگ مساجد میں الگ الگ اوقات میں جمعہ کی نماز ادا کرتے ہیں۔ اس صورت میں مذکورہ ادارے یا دکانیں مسلسل کھلے رہتے ہیں اور ان میں کاروبار بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہتا ہے۔ اس شفٹ بدلنے اور اس دوران حاصل شدہ آمدنی کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے؟
سوال:۔ اسکولوں میں داخلہ کےلئے بچے کی عمر کی حدمقرر کرنا، مثلاًLKGکےلئے4سال اور UKGکے لئے 5سال، اسکول انتظامیہ کےمطابق اس لئے ہوتا ہے کہ موافق جماعت کےلئے موافق عمر کا بچہ داخلہ پاسکے۔ مگر داخلے سے پہلے بچے کو انٹرویو اور ٹیسٹ کی تیاری کی غرض سے بعض لوگکرچ CRUCH)) تر بیتی اداروں میں بھیجتےہیں، جس کے نتیجے میںبچہ داخلہ کےلئے طے کی گئی عمر کی حد کو پار کر جاتا ہے اس طرح کچھ والدین داخلہ کے لئے جعلی برتھ سرٹیفکیٹ(Fake Birth Certificate) لانے پر مجبور ہو جاتے ہیں، جس سے بعض اوقات اسکول انتظامیہ بھی واقف ہوتی ہے۔ اسکول انتظامیہ کی طر ف سے LKGکے لئے داخلے کی عمر کی مقررہ حد مثلاً 4سال ہے اور بچے کی اصل عمر 5سال ہے تو بچے کو 4سال کی عمر کاسرٹیفکیٹ لانے پر ہی LKGمیں داخلہ ملتا ہے۔ بصورت دیگر اس کے داخلے کی درخواست مسترد کر دی جاتی ہے۔ یعنی اس طرح سے اسکول انتظامیہ کی طر ف سے ’’ موافق جماعت کےلئے موافق عمر‘‘ کے ضابطے کا مقصد بھی پورا نہیں ہوتا اور معاشرے میں جھوٹ کو بھی فروغ بھی ملتا ہے۔ داخلے کےلئے یہ حد مقرر کرنے کے سلسلے میں شریعت کا کیا حکم ہے نیز اس معاملے میں اسکول انتظامیہ او رعوام الناس کا کیا کردار ہونا چاہئے۔ والدین اپنے بچوں کو معیاری تعلیم دلانے کےلئے اچھے اور دینی اعتبار سے محفوظ اداروں میں ہی داخل کرانا چاہتے ہیں۔ چونکہ ان اداروں میںپہلے سے ہی مذکورہ ضوابطہ پر عمل درآمد ہو رہا ہوتا ہے ، اس لئے والدین کو مجبوراً جعلی برتھ سرٹیفکیٹ لانا پڑتے ہیں۔ والدین کے جعلی، سرٹیفکیٹ لانے کے اس امر مجبوری کےلئے شریعت کا کیا حکم ہے؟ اب اگر اس جعلی سرٹیفکیٹ کے حساب سے داخلہ پانے والا طالب علم جب 40سال کا ہوگا تو اس کی اصل عمر41سال کی ہوگی۔ جبکہ گورنمنٹ کی طرف سے ملازمت کی امیدواری کےلئے اوورایج(Over Age) ہونے کی مقررکردہ بالائی حد40سال ہے۔ اب اگر یہ شخص اصلی عمر کے اعتبار سے اوورایج ہونے پر یا اس سے پہلے ہی ملازمت کےلئے رجوع کرتا ہے یا منتخب ہو جاتا ہے تو اوور ایج ہونے پر ملازمت کےلئے اس کے رجوع یا انتخاب اور بعینہ اصلی عمر کے اعتبار سے ریٹائرمنٹ کی مقررہ حد سے ایک سال بعد ریٹائر ہو جانے اور اس سال کی تنخواہ کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟
سوال:۔ بجلی ہکنگ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ ہم دارا لحرب میں رہتے ہیں اس لئے یہاں بجلی ہکنگ کی گنجائش ہے بلکہ جائز ہے۔ ان حضرات کے اس موقف کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
سوال:۔ محکمہ بجلی کے شیڈول کے مطابق بجلی میٹر والے علاقوں میں فل وولٹیج والی 24گھٹنے کی بجلی فراہم ہوناچاہئے لیکن ان میٹر والے علاقوں میں بھی بجلی کی لمحہ بہ لمحہ آنکھ مچولی سے عوام الناس بالخصوص درمیانہ اور غریب طبقوںکی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بجلی کی اس آنکھ مچولی کے باوجود بھی بجلی کے بل توقع سے کئی گنازیادہ آتے ہیں ۔ اس صورت میں قلیل آمدنی والے ایک عیال دار شخص کی کمائی کا ایک اچھا خاصا حصہ بجلی فیس کی ادائیگی میں بے جا طور پر خرچ ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بجلی ہکنگ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایسے قلیل آمدنی والے عیال دار شخص کو کیا کرنا چاہئے؟
عارف احمد۔۔۔۔سرینگر
جواب:۔ تمام سوالات کے جوابات حسب تربیت درج ہیں۔
اذانِ جمعہ او رکاروبار کی معطلی
(۱) جمعہ کی پہلی اذان پر تمام کاروبار بند کرنا ضروری ہے قرآن کریم کا ارشاد ہے ( ترجمہ) اے ایمان والوں جب جمعہ کے دن نماز کےلئے ندا( اذان) دی جائے تو اللہ کی یاد کےلئے چل پڑو اور خرید و فروخت وغیرہ چھوڑ دو۔ یہ حکم قرآن کریم کے سورۃالجمعہ میں دیا گیا ہے۔ جمعہ کی اذان عہد رسالت میں ایک ہی تھی اور وہ خطبۂ جمعہ سے متصل دی جاتی تھی۔ پھر حضرت عثمان غنی ؓ کے عہد خلاف میں ایک اور اذان کا اضافہ ہوا۔ اس اذان پر صحابہ کا اجماع ہوا۔ اس لئے عہد عثمانی سے پورے عالم میں یہ اذان جاری ہے۔ قرآن کریم میں خرید و فروخت بند ہونے کا جو حکم ہے اس کا اطلاق عہد نبوت میں اذان خطبہ پر ہوتا تھا۔ پھر جب عہدعثمانی میں اذان ثانی کا اضافہ ہوا ،جو پہلے ہی پڑھی جاتی تھی ،تو اب تمام کاروبار، خرید و فروخت اور دینوی امور کی مشغولیت کی ممانعت اسی اذان سے قرار پائی ، درمختار، فتاویٰ تاتار خانیہ وغیرہ میں یہی حکم لکھا گیا اور تفاسیر میں سے ، تفسیر بیان القراٰن، تفسیر معارف القراٰن میں بھی یہی مرقوم ہے۔
اگر الگ الگ مساجد میں اوقات اذان و اوقات نماز الگ الگ ہوں تو پھر جس مسجد میں نماز پڑھنے کا ارادہ ہو اُس مسجد کی اذان کے بعد اس شخص کو دکان پر بیٹھ کر خرید و فروخت کرنا درست نہیں۔ ہاں! دوسرا شخص جو دوسری مسجد میں جمعہ پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہے ،وہ دکان پر اس وقت تک خرید و فروخت کرسکتا ہے، جب تک اس مسجد میں اذان نہ ہو۔ اگر آس پاس کی تمام مساجد میں ایک ہی وقت اذان ہوتی ہے تو پھر جس مسجد میں بھی نما زپڑھنے کا ارادہ ہو اذان اول ہونے پر دکان پر خرید و فروخت کرنا منع ہے۔ غرض کہ شفٹ کرنے کی اجازت صرف اُس صورت میں ہے جب اذان کا وقت الگ الگ ہو۔ مثلاً ایک مسجد میں ساڑھے بارہ بجے اذان ہو تو دکان کا ایک فرد اُس اذان پر اُٹھ کر نماز کو جائے۔ دوسری مسجد میں ایک بجے اذان ہو تو اب اس اذان پر دوسرا شخص اُٹھ جائے اور نماز جمعہ ادا کرے۔
اس کےلئے قریب قریب واقع مساجد کے منتظمین کو اوقات اذان و اوقات نماز میں مشورے سے فاصلہ رکھنا چاہئے تاکہ کاروباری حضرات شرعی احکام کے مطابق شفٹ کے ساتھ نماز پڑھ سکیں۔
اذان جمعہ کے بعد کاروبار سخت منع ہے اگر کسی نے کاروبار کیا تو آمدنی حرام نہ ہوگی مگر کاروبار کرنا گناہ کبیرہ ہے۔ اس لئے کہ قرآن کریم میں حکم اس طرح ہے کہ خرید و فروخت چھوڑ دو۔
جعلی سرٹیفکیٹ پر اسکول میں بچے کا داخلہ اور اس کے مضمرات
جواب(۲) آ ج کے سکولوں کے نظام تعلیم جو خامیاں اور غلطیاں ہیں ان میں سے ایک یہ خرابی بھی ہے کہ عمر کا تعین اس طرح لازم کر دیا گیا کہ بچوں کے والدین کو جعلی سرٹیفکیٹ بنوانا پڑتے ہیں۔ اور زندگی بھر اپنی عمر کے متعلق جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ تمام کاغذات ، اسناد میں یہی غلط عمر اندراج ہوتی ہے اور مرنے کے بعد بھی یہ کذب بیانی جاری رہتی ہے۔ مثلاً ایک شخص کی عمر دراصل بہتر(72) سال تھی مگر شروع میں دو سال کم لکھوائی گئی تھی۔ اس لئے یوں لکھا جاتا ہے کہ فلاں صاحب ستر(70) کی عمر گذار کر وفا ت پا گئے۔ پھر اگر وہ کوئی شخصیت بن گئے ہوں تو ان کی سوانح حیات میں بھی یہی حقیقت سے منافی عمر لکھی جائے گی۔ غرض سکول انتظامیہ کا یہ اصول مقرر کرنا ہی غلط ہے اور پھر جس مقصد کےلئے یہ اصول مقرر کیا گیا ہے وہ حقیقتاً پورا بھی نہیںہوسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا مقصد یہ ہے ہر کلاس میں ایک ہی سطح کے جسمانی و دماغی اوصاف کے بچے ہوں اب اگر کچھ بچے چار سال کی عمر والے کچھ پانچ سال والے اور کچھ چھ سال کی عمر کے بچے ہوں تو یقیناً وہ ذہن اور جسم کے اعتبار سے متفاوت ہونگے اور رجسٹروں میں ایک ہی عمر لکھ دینا کوئی مفید کام نہ ہوا۔ جو فرق و عدم یکسانیت بچوں میں فطرۃً عمر کی کمی زیادتی کی بنا پر ہے وہ سرٹیفکیٹ بھی غلط عمر لکھوانے سے ختم نہیں ہوسکتا۔ بہر حال یہ قاعدہ ہی غلط ہے او راس کے ذمہ دار وہ منتظمین ہیں جو اس کذب بیانی کا ارتکاب کراتے ہیں اور اس کی بنا پر ریٹائر منٹ کے وقت جو فرق آئےگااس کا باعث بھی یہی سکول کی کذب بیانی پر مبنی رول ہیں۔ اس لئےاولاً بچوں کو مطلوبہ عمر میں درج کرایا جائےاور اگر ایسا نہ ہوا یا تو سکول انتظامیہ کو کہا جائے کہ یہ قاعدہ بدل دیا جائے اس لئے کہ یہ کوئی آسمان سے نازل شدہ قانون نہیں جس میں تغیر و تبدیل نہ ہوسکے۔
رہی ریٹائر منٹ پر ہونے والی وہ بے اعتدالی جس کا تذکرہ سوال میں کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ تنخواہ دراصل کام کرنے کا معاوضہ ہے اس لئے حقیقی عمر کے اعتبار سے ایک شخص Over Ageہوچکا مگر عمر کے غلط اندراج کی وجہ سے وہ مزید چند سال ملازمت کرے گا تو ان مزید سالوں کی تنخواہ حرام نہ ہوگی، اسلئے کہ تنخواہ کام کرنے پر ملنے والی اُجرت ہے اور اس نے کام کیا ہے۔ تو تنخواہ حلال ہوگی مگر کذب بیانی اور حق تلفی کبھی حلال نہ ہوگی۔
بجلی ہکنگ کی شرعی حیثیت
جواب(۳) ہکنگ سے حاصل کردہ بجلی حرام ہے ۔ احادیث میں قیامت کی علامات میں سے ایک علامت یہ بیان کی گئی ہے کہ قومی خزانے کو اپنے لئے حلال سمجھا جائے گا۔ چنانچہ آج کے لیڈران ،افسران اورملازمین ایک اچھی خاصی تعداد جس طرح سرکاری خزانے کی لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں وہ آفتاب نیم روز کی طرح واضح ہے اسی قومی خزانے سے غلط فائدہ اُٹھانے کی ایک شکل بجلی چوری بھی ہے۔ جو لوگ دارالحرب کا لفظ استعمال کرتے ہیں وہ دراصل ایک حرام کو جائز بنانے کی ایک غیر شرعی غلطی کا ارتکاب کرتے ہیں اور یہ بھی علامات قیامت میں سے ہے کہ حرام کو حلال بنانے کےلئے شرعی اصولوں میں تحریف کی جائے گی، یہ اسی کی مثال ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ دارالحرب کی حقیقت ،اس کی علامات اور پھر اس کے تمام احکام سے واقف نہ ہو اور آج کے عہد میں کسی خطہ اور ملک کو درالحرب قرار دینے کے طریقہ کار اور اصولوں سے بھی ناواقف ہو اور حرام سے پرہیز کرنے کے لئے مزاج ایمانی بھی تیار جب نہ ہو تو اسی طرح کے حیلے بہانے سامنے آتے ہیں اور انسان اپنےآپ کو جھوٹی تسلی دیتا ہے کہ میں نے کوئی گناہ کا کام نہیں کیا۔
بہر حال بجلی چوری کی جو بھی صورت ہوگی ،چاہئے وہ بجلی ملازم کو معمولی رقم دے کراصل فیس بچانے کا اقدام کیوں نہ ہو۔ یہ سب حرام ہے ۔ اس کا ایک ہی حل ہےکہ بجلی کے استعمال کےلئے میٹر صحیح طور پر نصب کرانا چاہئے او رپھر جتنی بجلی استعمال ہو اس کی فیس ادا کر دی جائے۔
جواب:(۴) میٹر لگانے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ جتنی بجلی استعمال کی گئی اتنا ہی بل آئے گا اور اس کی ادائیگی بھی ہوگی۔ اگر بجلی معمول کے مطابق نہ آئے اور جتنی بجلی کسی صارف نے استعمال کی ہے اس سے زیادہ کا بل آرہا ہے تو یقیناً یہ محکمہ بجلی والوں کا ظلم ہے یا میٹر کی خرابی ہے۔ اس کی درستگی کرانی چاہئے۔ شرعی طو رپر حکم یہ ہے کہ جتنی بجلی استعمال ہوئی اُس کی فیس خزانے میں داخل ہو۔ اس سے کم فیس دینا غلط ۔ اس سے زیادہ فیس وصول کرنا بھی غلط اور اتنی ہی فیس لے کر بجلی ملازمین کا خود بانٹ لینا بھی غلط ہے۔ حق حق ہے جس پر جس قدر کا حق ہے وہ ادا کرنے کا حکم اسلام کی تعلیم ہے اور یہ بھی حق ہے۔
…………………….
سوال :۔ کشمیر میں 2016کے ظلم و بربریت کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کے جابحق ہونے کے ساتھ ساتھ ہزاروں لوگوں کی آنکھیں بھی ناکارہ ہوگئیں۔کیا بعد از مرگ آنکھیں عطیہ کے طور دینے کی وصیت کرنا جائز ہے؟
عبدالغنی بٹ ،کولگام،
بعد مردن عطیۂ اعضائے جسمانی
جواب: انسان اپنے جسم کا مالک نہیں بلکہ پورا جسم اور جسم کے تمام اعضاء اُس کے پاس جائز استعمال کے لئے امانت ہیں۔آخر انسان اپنے کسی عضو کا مالک کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اُس کی تخلیق مین اُس کا کوئی دخل نہیں ہے ۔اُس نے کسی بھی عضو، بڑا یا چھوٹا، کو خود کے حاصل کردہ مواد سے بنایا نہیں ،اس لئے وہ صرف اور صرف اُس جسم کے استعمال کا مجاز و مختار ہے ۔اس لئے اعضاء انسانی کی تجارت کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔جب حقیقت یہ ہے تو انسان اپنے جسم کے اعضا ء کو کسی طرح دوسروں میں تقسیم کرنے کا اختیار بھی نہیں رکھتا ۔ہاں جسم کے وہ اعضا ء جن کی تولید و تخلیق مسلسل جاری رہتی ہے ،وہ دوسروں کو دینا درست ہے ،اسی لئے عورت اپنا دودھ کسی دوسرے بچے کو پلائے تودرست ہے۔ اور اسی طرح خون کا عطیہ دینا بھی درست ہے۔چونکہ یہ دونوں مسلسل تولد پزیر ہوتے ہیں۔گردوں کے متعلق یہ فیصلہ ہوا ہے کہ چونکہ ایک صحت مند انسان ایک گردے کے سہارے زندگی گذار سکتا ہے ،اس لئے اگر کوئی شخص گردہ کا عطیہ کرے تو حرج نہیں۔اسی طرح جگر کا معاملہ ہے کہ اُس کا کچھ حصہ دوسرے کو دیا جائے تو باقی ماندہ حصہ خو بخود مکمل ہوجاتا لیکن آنکھوں کے عطیہ کی خاطر موت کے بعد کے لئے وصیت کرنا درست نہیں ۔اس کی متعدد وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اگر اسطرح جسم کے اعضاء کے متعلق وصیت کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے اور شرعاً جواز کا حکم دے دیا گیا تو کسی انسان کے فوت ہونے پر آنکھیں نکالنے والے آنکھیں نکال لیں گے ۔گردے نکالنے والے گردہ ،جگر لینے والے الگ سے چیر پھاڑ کریں گے ۔کھال نکالنے والے اُس کی کھال اُتاریں گے ۔چربی لینے والے انسان کی چربی کاٹیں گے ۔آج چونکہ اس طرح تقریباً بیس قسم کے اعضاء انسانی کا استعمال دوسرے انسانوں کے لئے ممکن بن گیا ہے ۔تو غور کیا جائے کہ میت کے پسماندگان غم سے نڈھال اپنے مُردے کی اس چیر پھاڑ کے بعد اور اُسی کے اعضاء مختلف اداروں کو تقسیم کرنے کے بعد بقیہ جسم کے غسل کفن دفن کا انتظام کیوں کر کریں گے ۔چیر پھاڑ شدہ جسم کا غسل و کفن دفن کیسے ہوگا اور یہ کیسی صورت حال بنے گی کہ جسم کے بہت سارے اعضاء تو خیرات میں جاچکے ہونگے اور بقیہ کٹاپھٹا جسم دفن کے لئے باقی بچ جائے گا ۔خلاصہ یہ کہ آنکھوں کا عطیہ کرنے کی وصیت تو درست نہیں ،ہاں اگر کوئی خدمت انسانی کے جذبہ سے سرشار ہے تو کیا وہ زندگی میں ہی ایک آنکھ دوسرے کو دینے کی ہمت کرسکتا ہے؟
صدرمفتی دارالافتاء
دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ