خودکشی، انسان کا اپنا عمل
سوال: احادیث میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قیامت تک آنے والے ہر انسان کی مقدر طے کر رکھی ہے۔ انسان کب پیدا ہوگا، کہاں پیدا ہوگا، کیسے پیدا ہوگا، کب شادی ہوگی، کہاں ہوگی، کس کے ساتھ ہوگی، کب وفات ہوگی اور موت کیسے ہوگی، سب کچھ طے ہے، تو آپ بتا دیجئے کہ اگر کسی انسان کی موت اللہ نے خودکشی کرنے کی وجہ سے لکھی ہوگی، جبکہ خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے، تو اس میں خودکشی کرنے والے کا کیا قصور ہے؟
بلال احمد ڈار
مانو حیدرآباد
جواب: خودکشی کرنا سخت ترین حرام کام ہے۔ حضرت نبی کریم ؐ کا مبارک ارشاد ہے کہ خودکشی کرنے والا قیامت تک اُسی عذاب میں مبتلا رہے گا جس آلے سے اُس نے خودکشی کی ہو۔ حضرت خباب بن الارث ایک سخت ترین جسمانی تکلیف میں مبتلا تھے اور اس سخت ترین اذیت کی وجہ سے بار بار دربارِ رسالت (ﷺ) سے انہوں نے استدعا کی کہ خودکشی کی اجازت دی جائے، مگر اجازت نہیں ملی۔ چنانچہ بقیہ ساری زندگی ایسی اذیت میں گذاری مگر خودکشی نہیں کی۔ تقدیر کا ایک حصہ انسان کے اختیار سے باہر ہے اور ایک حصہ اُس کے خود اختیاری کا ہے۔ کس انسان کی موت کب، کہاں اور کس طرح ہوگی، یہ سب کچھ مقدر میں لکھا ہو اہے۔ مگر جس وقت انسانی خودکشی کرتا ہے تو وہ پہلے خود ارادہ کرتا ہے۔ اسباب مہیا کرتا ہے۔ تدبیر جوڑتا ہے اور اپنے عزم و نیت سے یہ قدم اُٹھاتا ہے۔ اُسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اُس کی تقدیر میں کیا لکھا ہے، جب وہ خود یہ اقدام اُٹھاتا ہے تو اس غلط قدم اٹھانے پر وہ سزا کا مستحق ہوتا ہے۔ یہ اقدام ہی اُس کا قصور ہے۔ وہ یہ قدم اس لئے نہیں اُٹھاتا کہ اس کی مقدر میں یہی لکھا ہے اور اس پر وہ مجبور ہے۔ بلکہ جو کچھ اُسے کرنا ہوتا ہے اللہ اپنے علم قطعی کی بنا پر پہلے ہی لکھ دیتے ہیں کہ فلاح شخص یہ کرے گا۔ اس کے لئے چند مثالیں سمجھئے۔
محکمہ موسمیات اطلاع دیتا ہے کہ فلاح دن بارش یا برف ہوگی۔ چنانچہ بارش ہوجاتی ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ محکمہ موسمیات کی اطلاع کی وجہ سے بارش ہوئی۔ کسی ڈاکٹر نے لاعلاج مریض کو کہاکہ یہ چند ماہ میں فوت ہوجائے گا اور مریض واقعی چند ماہ ہی میں فوت ہوا۔ اب مریض کے فوت ہونے کا سبب ڈاکٹر کی اطلاع نہیں ہے۔ اسی طرح کسی انسان کے متعلق خودکشی کا سبب اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر نہیں ہے بلکہ اُس انسان کا خوداقدامِ خودکشی ہے۔ جو واقعہ جس انسانی سے صادر ہونے والا ہے اللہ اپنے علم قطعی کی بنا پر پہلے ہی مطلع ہے۔ مگر واقعہ انسان کا خود کا عمل ہے، اسی پر ثواب و عذاب ہوگا۔
مالک دوکان یا دوکاندار کا انتقال اور عقدِ اجارہ
سوال:ہم نے 2دوکانیں کرایہ پر دی تھیں، جن کے لئے دس سال تک کرایہ نامہ ہوا تھا، دوکان کا کرایہ دار فوت ہوا تو اس کے بیٹے نے دوکانوں پر قبضہ جمایا۔ برائے مہربانی قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں کہ ہمارا ذاتی ملکیتی دوکان پر حق جتلانا صحیح ہے یا قبضہ کرنے والے کا حق جتلانا صحیح ہے۔
بشیر احمد (اے ٹوزیڈمیڈیک پلوامہ)
جواب:مکان یا دوکان کسی مقررہ مدت کے لئے کرایہ پر دیا جائے تو جوں ہی وہ مدت مکمل ہوجائے کرایہ کا معاہدہ ختم ہوجاتا ہے۔ اب تو نیا معاہدہ کرنا ضروری ہے یا خالی کرنا۔ اسی طرح اگر مدت مقررہ کے لئے یا غیر محدود مدت کے لئے کوئی مکان یا دوکان کرایہ پر دی گئی مگر مدت مکمل ہونے سے پہلے دونوں میں سے کوئی ایک وفات پاجائے تو شرعی ضابطہ جو فقہ کی کتابوں میں کرایہ داری کے باب میں لکھا ہو اہے، یہ ہے۔ (ترجمہ )جب کرایہ پر دینے یا لینے والے افراد میں سے کوئی ایک فرد فوت ہوجائے تو عقدِ اجارہ فسخ ہوجاتا ہے۔ اس لئے دکان کرایہ پر لینے والے شخص کے فوت ہوجانے کے بعد اُس کے وارث اُس دکان پر اگر اپنا قبضہ برقرار رکھیں اور اپنے آپ کو کرایہ دار تصور کریں تو یہ شرعاً درست نہیں ہے۔
فقہی اصول کے مطابق اُن کو اصل مالک سے یا تو نیا عقدِ اجارہ کرنا ضروری ہے اور اگر مالک دکان اُن کو دکان خالی کرنے کو کہے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ یا یہ بات بھی صحیح ہے کہ اگر مالک دکان کو دکان خالی کروانے کی ضرورت نہیں پھر کسی اور کو کرایہ پر دینے کئے لئے دکان خالی کرانے کا اصرار کرے۔ تو اس کے بجائے بہتر ہے کہ اُن کو نئے کرایہ نامے اور نئے عقد اجارہ کے ساتھ دکان دے دے۔اس طرح اُن کا روزگار بھی برقرار رہے گا اور حلال ذریعہ سے وہ اپنا معاش پائیں گے۔ اور اس مالک کا حق بھی اُسے مل جائے گا۔
سوال;2014میں آئے تباہ کن سیلاب کے بعد بہت سارے مکانات بنوانے مطلوب تھے۔ لیکن ہوا کیا اُن لوگوں نے، جن کے دو منزلہ مکان تھے مکان گرا کر دو منزلہ کے بجائے پانچ منزلہ بنائے؟ اور اپنے آس پاس کے ہمسائیوں اور راہ عام کا خیال نہیں رکھا؟ یہ سارا ماحول دیکھ کر عام آدمی کے دل میں ان کے خلاف نفرت ہونے لگی اور بات کرنے کا دل نہیں کرتا ہے، اس سلسلے میں عام آدمی کے لئے کیا حکم ہے؟
مشتاق احمد جانبازؔ
جانباز کوچہ امیرا کدل
2014کے سیلاب کے بعد مکانات کی تعمیر
جواب: سیلاب سے مکان ناقابل رہائش ہوگئے اس لئے مکان گرا کر کسی دومنزلہ کے بجائے سہ منزلہ یا پانچ منزلہ بنالئے تو اگر حلال اور جائز آمدنی سے یہ تعمیر ہو تو اس پر کسی کو حقِ اعتراض نہیں۔ ہاں مکان کی تعمیر اس طرح کرنا کہ ہمسایوں کو ہوا، روشنی اور دھوپ رُک جائے یا پڑوسیوں کی خلوت) (Privicyمتاثر ہوجائے تو درست طرزِ عمل نہیں ہے۔ اگر کسی کو کئی منزلہ مکان بنانا ہو تو پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرنا لازم ہے۔ اس کے لئے میونسپلٹی کے بنائے گئے قوانین، جس میں مکانوں میں فاصلے، کھڑکیاں رکھنے اور نہ رکھنے کے اصول مقرر کئے گئے ہیں، کی رعایت کی جائے۔ دراصل تین وسائل سے مستفید ہونے کا ہر شخص کو حق ہے۔ ہوا، روشنی اور دھوپ۔ اس لئے مکان اس طرح تعمیر کرنا کہ کوئی پڑوسی اِن تین چیزوں سے محروم ہوجائے شرعاً بھی پسندیدہ نہیں اور اس طرح ہر شخص کو اپنے مکان اور صحن میں ایک خاص قسم کے نجی پن جس کو Privicyکہتے ہیں، کو محفوظ رکھنے کا حق ہے۔
اس حق کو تلف کرکے مکان تعمیر کرنا بھی شرعاً ناپسندیدہ ہے اور بعض صورتوں میں صریحاً منع ہے۔
سوال نمبر 1 ۔ نمازیوں کے امام کے پیچھے پہلی صف باندنے کے شرعی لوازمات سے روشناس فرمائیں۔ کیا مسجد میں مقتدیوں کی صف بندی اس ڈھنگ سے ہونا لازمی ہے کہ امام درمیان میں رہے؟۔ یعنی کہ ہر آنے والا نمازی اس بات کا خاص خیال رکھنے کا پابند رہے۔
سوال نمبر 2۔ کیا میاں بیوی کا علیحدہ علیحدہ کمروں میں بستر لگانے کا عمل شرع کے خلاف ہے؟ براہ کرم شرعی احکام سے باخبر کرنے کی زحمت گوارا فرمائیں۔
سوال نمبر3۔ ہمارے یہاں ایک گائوں کی زیارت شریف کا انتظام جموں و کشمیر وقف بورڈ کے سپرد ہوا ہے۔ اسی زیارت کے احاطے میں اِس وقت دو مساجد، ایک جامع اور دوسری لوکل مسجد ، موجود ہیں۔ یہاں کے لوگ اب ایک سال سے جمعہ نمازوں کے ساتھ ساتھ پانچوں اوقات کی نمازیں جامع مسجد میں ادا کرتے ہیں۔ کتاب و سنت کے حوالوں سے نمازوں کے بنا رہی مسجد سے متعلق طریقہ کار کی وضاحت فرمائیں۔
غلام حسن وانی(پلوامہ)
امام کے پیچھے صف بندی
جواب ۱:مسجد میں صف بندی کے اصول حدیث اور فقہ کی کتابوں میں تفصیلاً موجود ہیں۔ اُن کی پابندی کرنا تمام نمازیوں کے لئے ضروری ہے۔چند امور یہ ہیں کہ امام مسجد کی محراب یا پہلی صف میں درمیان میں کھڑا ہوایا امام مسجد کے محراب یا پہلی صف میں درمیان میں کھڑا ہو ۔ امام کے درمیان میں ہونے کا حکم حدیث میں ہے۔ اُس کے بعد مقتدی کندھے سے کندھا ملا کر اس طرح صف بنائیں کہ جتنے مقتدی امام کے دائیں طرف ہوں اتنے ہی امام کے بائیں طرف بھی ہوں۔ اگر مقتدیوں میں نابالغ بچے بھی ہوں تو اُن کو آخری صف میں کھڑا کیا جائے، یا بالغ مردوں کے کنارے پر کھڑا کیا جائے۔ پہلی صف میں نماز پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت ہے اس لئے اولاً پہلی صف مکمل کی جائے ، اس کے بعد ہی دوسری صف میں کھڑے ہوں۔
بستر الگ کرنے کا مسئلہ
جواب۲: اگر میاں بیوی آپس کی رضامندی سے الگ الگ کمروں یا الگ الگ بستروں میں سونا طے کریں اور کسی ایک کو بھی ناگواری نہ ہو تو پھر اس پر شرعاً بھی کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن دو میں سے کوئی ایک اگر یہ پسند نہ کرے لیکن پھر شوہر یا بیوی الگ کمیرے یا الگ بستر میں رہنے کا اصرار کرے تو شرعاً یہ اپنے شریک حیات کی حق تلفی ہے اور اس صورت میں ہر گز جائز نہیں۔
دو متصل مساجد میں نماز
جواب۳ :جہاں قریب قریب دو مساجد واقع ہوں وہاں کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ دونوں مساجد کو پنچ وقتہ نمازوں سے آباد کریں۔ ہاں جمعہ ایک میں ادا کریں۔ پنچ وقتہ نمازوں میں دس پندرہ منٹ جماعت کی نماز آگے پیچھے رکھنے کا نظام بنائیں اور دونوں مساجد میں اذان و جماعت قائم کریں۔ یہی شرعی ضابطہ ہے ۔ کسی ایک مسجد کو ازان و جماعت سے خالی کرنا ہرگز درست نہیں۔ دونوں مساجد کے لئے امام ،موذن ،ازان و جماعت الگ الگ ضروری ہے۔