سوال:۔ پچھلے کچھ دنوں سے سوشل میڈیا میں ایک ویڈیو کلپ تیزی سے گشت کر رہی ہے جو یہاں کے بہت سارے فکر مند اور حساس لوگوں کےلئے سخت تشویش کا باعث بن رہی ہے اور وہ یہ ہے کہ پولٹری فارم کی مرغیوں کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ ان کی تولید میں خنزیری اجزاء شامل ہیں اور ان کی نشو ونما میں ناپاک چیزوں سے تیار کردہ خوراک(Feed) استعما ل ہوتی ہے اس ویڈیو کلپ کو آپ خود بھی دیکھ لیں اور پورے معاشرے میں پھیلنے والی اس تشویش کو محسوس کریں اور اس سے متعلق صاف اور واضح جواب عنایت فرمائیں؟
رشید مخدومی ۔۔۔سرینگر
فارمی مرغوں کا گوشت………حرام ہونے کی دلیلیں غلط
جواب:۔ پولٹری فارم کے مرغوں کے متعلق حکم شرعی جاننے سے پہلے یہ تحقیق ملاحظہ ہو۔ یاد رہے کہ مکمل تفصیل و پوری وضاحت سے سمجھنے کےلئے ماہرین کی رائے اور متعلقہ لٹریچر ہی پڑھنا ضروری ہے ۔یہاں بہت اختصار سے لکھا گیا ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ حق لکھنا عطا فرمائے ۔اللہ جل شانہ نے اپنی قدرت سے تخلیق کےلئے مختلف نظام قائم کئے ہیں چنانچہ تمام اناج ،پھل، سبزیوں کی تخلیق بیج(Seed) سے ہوتی ہے۔ بیج کا دانہ زمین میں ڈالا گیا اور اسی سے درخت، پھل دارپیڑ، اناج دینے والے پودے اور سبزیاں وغیرہ سب کچھ اُگتا ہے ۔ دوسرا نظام پرندوں کےلئے ہے کہ نرو مادہ جنسی عمل کریں گے اُسی کی وجہ سے مادہ کے اندر انڈا بنے گا ۔ پھر اس انڈے کو مادہ ایک مخصوص مدت تک اپنے جسم کی حرارت پہنچائے گی اور انڈے کے اندر اُسی جنس اور فیملی کا چوزہ بنے گا۔ یہی چوزہ آگے پھر پرندہ بنے گا۔ پرندوں کا نظام ِتخلیق یہی ہے ۔تیسرانظام یہ قائم کیا کہ نر کےا ند رمادہ منویہ کی تولید ہوگی ۔ جس کو منی ،سیمن(Semen) یاسپرم (Sperm)کہتے ہیں اور مادہ کے اندر بیضہ(Egg) پیدا ہوتا ہے۔ پھر یہ نر اور مادہ آپسی اختلاط کا عمل کرتے ہیں ۔اس اختلاط سے نر کا نطفہ مادہ کے رحم میں پہنچتا ہے اور وہاں وہ مادہ کے بیضہ سے مل کر تخلیق ہونا شروع ہوتا ہے۔یہ تیسرا نظام تمام حیوانات اور انسانوں کی تخلیق کےلئے ہے ۔نر چاہئے انسان ہو گھریلو جانور بیل ، بکرا، اونٹ گھوڑا یا جنگلی جانور شیر، ریچھ ، لومڑی ، تیندوا، ہرن وغیرہ ہو، ان میں نطفہ(semen) پید اہوگا۔ اس میں (Sperm) جرثومہ ہوگا پھر وہ جنسی عمل کے ذریعہ مادہ کے رحم میں پہنچے گا، وہاںوہ بار آور ہوگا اور جانور وجود میں آئے گا ۔وہ جانور چاہئے گھاس خور ہو یا گوشت خور، اب سوال یہ ہے کہ کیا جانوروں کے نظام تولید اور پرندوں کے نظام تولید میں کوئی جوڑ پیدا ہوسکتا ہے ،یعنی کسی جانور مثلاً بیل ، گھوڑے، بکرے، نر اونٹ یا انسان کا نطفہ لے کر کسی پرندے کے نظام تولید ،جو انڈے کی صورت میں ہوتا ہے،سے جوڑ پیدا کرکے کوئی تخلیق ہوسکتی ہے۔۔۔۔ ؟ یہ اہم اوربنیادی سوال ہے ۔اس کا جواب جو ماہرین سے تحقیق کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اگر حقیقت یہی ہے تو پھر یہ کہنا غلط ہے کہ خنزیر کے اجزاء منویہ سے مرغوں کی تخلیق کی جارہی ہے اور پولٹری کے تمام مرغے اس ٹیکنک کا نتیجہ ہیں ۔ خنزیر کے مادّۂ منویہ(Semen) کو مرغے کی تخلیق میں کیسے شامل کیا گیا ، کیا مرغی کے پیٹ میں خنزیر کا مادہ داخل کیا گیا یا کیا جا رہاہے؟ اس کا جواب ماہرین کی طرف سے یہ دیا گیا کہ ایسا ہو ہی نہیںسکتا کہ خنزیر کا مادہ منویہ مرغی سے جوڑ کھا سکے۔ اس لئے یہ دعویٰ غلط ہے کہ فارم کےمرغوں کی تخلیق و نشو ونما میں خنزیر کے اجزاء منویہ استعمال کئے گئے ہیں اور اگر بالفرض یہ ثابت ہو جائے کہ واقعتہً پولٹری مرغوں کی تخلیق میں خنزیر کے مادۂ منویہ شامل ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ مادہ جو خنزیر سے لیا گیا ہوگا حرام بھی ہے اور نجس بھی ۔ مگر اس کی وجہ سے بھی مرغوں کو حرام یانجس نہیں کہا جائے گا ۔ اس لئے کہ تمام حلال جانور جس مادہ منویہ سے تخلیق ہوتے ہیں وہ بھی تو نہ حلال ہوتا ہےاورنہ پاک ۔ حتیٰ کہ خود انسان کا مادہ منویہ بھی ایسا ہی ہے ۔تو جب خود حلال جانوروں کے مادہ منویہ سے تخلیق پانے والا جانور حلال ہوتا ہے تو اسی طرح اگر خنزیر ی اجزاء منویہ بالفرض شامل ہوتے ہوں تو اس سےبھی حرام نہ ہوگا۔ اس مرحلے پر سوال یہ ہوگا کہ ناپاک اور حرام اجزاء منویہ ،چاہئے وہ خود حلال جانور ہی کے کیوں نہ ہوں ،سے تخلیق پانے والا جانور حرام کیوں نہیں ہوگا یہ سوال بلا شبہ اہم ہے مگر اس کا قطعی جواب یہ ہے کہ جب کسی شےکی حقیقت بدل جاتی ہے تو اس کاشرعی حکم بھی بدل جاتا ہے ۔گوبر ناپاک ہے، جب اس کو جلا دیا گیا تو اب اس کی راکھ یقیناً پاک ہے اسی طرح خون ناپاک بھی ہے اور حرام بھی ہے ۔یہی جب گوشت یا کلیجی بن گیا تو وہ پاک بھی ہے اور حال بھی ۔ اس کو تبدیلی ماہیت کہتے ہیں اور اس کی بنا پر بہت سارے مسائل کا شرعی حکم بدل جاتا ہے انسانی فضلہ مٹی میں شامل ہو کرمٹی بن جائے تو شریعت نے اُسے پاک قرار دیا ۔ اسی طرح یہاں پر اگر خنزیری اجزائے منویہ سے مرغوں کی تخلیق کی گئی ہو تو وہ ماہیت تبدیل ہو کر حلال جانور کے روپ میں منتقل ہو جاتے ہیں، غرض کہ اس دعوے کی بنیاد پر مرغے حرام نہیں ہونگے۔ دوسرا معاملہ یہ ہے کہ مرغیوں کی غذا کے لئے جو فیڈ تیار کیا جاتا ہے اس میں لحمی اجزاء اور خون شامل کیا جانے کا دعویٰ کیا گیا ہے اولاً یہ صرف دعویٰ ہے اور اس کا ثبوت اور واقعیت تحقیق طلب ہے، لیکن اگر یہ درست ہو تو بھی اس سے کوئی اثر پڑھنے والا نہیں۔ اس لئے کہ مرغوں کا نظام ہضم ایسا ہے جو ناپاک اجزاء کو خصوصاً گوشت اور خون کو اپنے جسم کا حصہ نہیں بننے دیتا ۔ چنانچہ متعدد ماہرین نے یہ انکشاف کیا کہ پرندے ہی نہیںتمام گھاس خور جانور وںکا نظام ہضم لحمی اجزاء کو جسم کا حصہ بنانے کے بجائے گوبر کے ساتھ باہر نکال دیتا ہے ۔چنانچہ مرغے مکی اورگندم وغیرہ جیسے اناج کے سخت دانے کھاتے ہیں اور چبانے کے بغیر ہی اپنے پوٹے( معدہ) میں جمع کرتے ہیں۔ پھر ان کا نظام ہضم ان کو بھی پیس دیتا ہے ۔ اس طرح وہ فیڈ میں سے مفید اجزاء اپنے جسم کا حصہ بناتے ہیں اور بقیہ کو بیٹ ( فضلہ) بنا کر باہر نکال دیتے ہیں۔ باہر کھلے عام پھرنے والی مرغی کیڑے مکوڑے اور انسانی پاخانہ بھی کھاتی ہے ،اُسے جب حرام نہیں کہا گیا تو پھر یہ کیسے حرام ہوگا۔ بخاری شریف میں یہ حدیث چشم کُشا ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کھانا تناؤل فرما رہے تھے ۔ایک شخص آیا تو حضرت ابو موسیٰ ؓنے اُن کو بھی کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی ۔اُس شخص نےجب دیکھا کہ حضرت ابوموسیٰ ؓمرغی کا گوشت کھا رہے ہیں تو تکدر کے ساتھ انکار کیا اور بولا کہ میں نے مرغی کو گندگی کھاتے ہوئے دیکھا تومیں نے تہیہ کیا بلکہ قسم کھائی کہ مرغی کا گوشت کبھی نہیں کھائوں گا ۔ حضرت ابو موسیٰ ؓصحابی بھی ہیں اور گورنر کوفہ بھی تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اس کائنات کی سب سے پاک ہستی کو مرغے کا گوشت کھاتے دیکھتا ہے یعنی حضرت رسول اکرم ﷺ ،پھر فرمایا اپنی قسم توڑ دو اس کا کفارہ ادا کرنا مگرمرغی کاگوشت کھاؤ، خلاصہ یہ کہ جیسے عام گھروں کی مرغیاں حلال ہیں اسی طرح پولٹری کے مرغےو مرغیاں بھی حلال ہیں ( واللہ اعلم)
……………………….
سوال:۔ ہمارے معاشرے میں منشیات کی مختلف قسمیں بہت تیزی سے رائج ہو رہی ہیں ۔نوجوان بہت تیزی کے ساتھ منشیات کاعادی ہوتے جا رہے ہیں ۔ شریف اور معزز خاندانوں کے بچے اس میں بُری طرح پھنس رہے ہیں ۔شراب اور دوسری منشیات کا پھیلائو بہت زیادہ ہے ۔شراب خانوں کے باہر شراب لینے والوں کی لائینںلگی ہوتی ہیں۔ کہیں پر خفیہ اور کہیں پر کھلم کھلاشراب ، چرس اور دوسری منشیات کی فروختگی کا سلسلہ چل رہا ہے ۔ یہاںجموں میں حال زیادہ ہی بُرا ہے ۔ برائے مہربانی تفصیل کے ساتھ منشیات کے متعلق قران اور حدیث کے مطابق روشنی ڈالیں۔میں میڈیکل شعبہ سے وابستہ ایک ڈاکٹر ہوں میرے سامنے بہت شرمناک اور افسوسناک واقعات ہیں۔
ڈاکٹر نجیب اشرف۔۔۔۔۔۔۔جموں
منشیات کی خوفناک وباء………….
نجات کےلئے انفرادی اوراجتماعی جد وجہد کی ضرورت
جواب :۔ اللہ نے انسان کو جن مخصوص اور اہم نعمتوں سے نوازا ہے اُن میں ایک خاص اور ممتاز نعمت عقل و فہم او رشعور و ادراک بھی ہے۔ یہ عقل ہے کہ جس کی وجہ سے انسان خلافت کا مستحق قرار پایا اور اسی عقل وشعور کا بہترین ثمرہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو قسم قسم کے سائنسی ،صنعتی اور تمدنی وسائل اور ایجادات سے آراستہ کر رہا ہے ۔اس عقل کی اہمیت اس درجہ ہے کہ اللہ جل شانہ ‘ بار بار قرآن مجید میں اس عقل کو کام میں لانے اوراس سےغور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ عقل ایک جوہر ہے جو انسان کو دوسری تمام مخلوقات سے ممتاز کرنے کا ذریعہ ہے اوراس عقل کو تباہ کرنے والی چیز نشہ ہے ۔ نشہ انسان کی عقل اور تمام عقلی سرگرمیوں کو معطل کرنے ،اُن میں خلل ہی نہیں بلکہ شدید حد تک نقصان پہونچانے کا سبب ہے ۔ اسی لئے اسلام نے تمام ایسی منشیات کو سخت حرام قرار دیا ہے جوانسان کو پاگل بنائے۔ قرآن مجید نے شراب کو اسی لئے حرام قرار دیا ہے اور ناپاک بھی۔ نشہ انسان کو ظاہری ناپاکی کے ساتھ اخلاقی و روحانی نجاست سے بھی آلودہ کرتا ہے اس لئے کہ نشہ کی حالت میں انسان سے گندے افعال اور ناپاک حرکتوں کا صدور ہوتا ہے۔ وہ زبان سے گالیاں بکتا ہے دوسروں کو لعن طعن کرتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر فحش حرکات کا اقدام کرنے پر بھی اُس میں کوئی غیرت یا حمیت باقی نہیں رہتی۔ حتیٰ کہ بعض دفعہ نشہ میں لت پت یہ انسان اپنی ماں یا بیٹی میں بھی تمیزنہیں کر پاتا۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہر نشہ آور چیز حرام ہے (بخاری) اور ترمذی کی حدیث میں ہے کہ جس شیٔ کی کثیر مقدار نشہ کا سبب بنے اس کی کم مقدار بھی حرام ہے۔ اس کے معنیٰ یہ ہے کہ شراب کا ایک قطرہ بھی اسی طرح حرام اور نجس ہے جیسے اس کی زیادہ مقدار حرام ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ نشہ کی ابتداء انسان بہت معمولی مقدار سے کرتا ہے اور پھر اسکی عادت ہر اگلے مرحلے میں زیادہ کی طلب گار ہوتی ہے، حتیٰ کہ انسان زہریلے انجکشن تک لگانے لگتا ہے۔
نشہ چاہئے شراب کا ہو چرس کا ہو ، افیون کا ہو یا کسی اور چیز کا اور چاہئے اسے پانی کی طرح پیا جاتا ہو یا بذریعہ انجکشن جسم میں بھرا جاتا ہو پھر وہ پی جانےو الی نشلی چیز ،چاہئے وہسکی کے نام کی ہو یا برانڈی یا پھررم کے نام کی ،سب کے سب حرام ہیں۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فلاں خاص قسم کی شراب میں نشہ کی مقداربہت کم ہے ،یا عادت پختہ ہونے کی وجہ سے وہ بے قابو نہ ہوتا ،تو بھی یہ شراب ہی ہے اور بہر حال حرام ہے۔
حضرت نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت کے قریب زناکاری عام ہوگی اور شراب کثرت سے پی جائے گی اور جہالت کا دور ِ دورہ ہوگا ( بخاری) ۔آج کا عہد اسی کا نقشہ پیش کر رہاہے کہ تعلیم کے عام ہونے اور انفارمیشن کے پھیلائو کے باوجود دین سے بے خبری بھی عام ہے اور بے عملی اس سے زیادہ ہے۔ بہت سے اعلی تعلیم یافتہ دین کی بنیادی باتوں سے بھی لاعلم ہیں اور بے عمل بھی اورا س پر طرہ یہ ہے کہ اس لاعلمی اور بے عملی کا کوئی احساس نہیں ہے ۔اس طرح قسم قسم کی منشیات کا دوردورہ ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ نشہ کی تمام اقسام انسان کی صحت کےلئے نہایت مضر ہیں ۔یہ ایک نرم رفتار زہر ہے جو انسان کو اندر ہی اندر سےکھوکھلا کرتاہے۔ چنانچہ کتنے ہی اعلیٰ دماغ کے لوگ شراب نوشی کی کثرت کی بنا پر اپنے دماغ سے وہ کام اور اپنے وجود سےوہ کارنامے انجام نہیںدے پاتے جس کی صلاحیت اُن کو عطا ہوئی تھی۔شراب اور دوسری منشیات کی وجہ سے ہاضمہ کی خرابی، جگر کی خرابی، ہائی بلڈ پریشر، دل کی بیماریاں، ہڈیوں کی کمزوریاں، حافظہ کی کمزوری، کئی قسم کے کینسر، نیند کا کم ہونا، اعصاب کا متاثر ہونا، نظام تنفس کا متاثر ہونا، دماغی امراض مثلاً نسیان، دوران سر، مرگی، جنون، قوت فیصلہ کا کمزور ہونا جلدکی بیماریاں اور جنسی امراض کا لاحق ہونا تمام ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے۔
معاشرتی مسائل پیدا ہونے کا ایک بڑا سبب بھی یہی منشیات ہیں۔ نشہ کے عادی لوگ، چوری، ڈکیٹی، فراڈ، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ، گھریلو جھگڑے، مارپیٹ کرنےاوراپنے بیوی بچوں کو ضروریات زندگی حتیٰ کہ ضرورت کے کھانےسے بھی محروم رکھنے میںبھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ نشہ کے عادی اپنی ازدواجی زندگی میں بھی نہایت نفرت رسانی کے اقدام کرتے ہیں۔ رفیقہ حیات کی مارپیٹ ، گالی گلوچ حتیٰ کہ کبھی غیر اخلاقی حرکات کی انجام دہی پر بھی اصرارکرتے ہیں۔
نشہ کی وجہ سے نفسیاتی خرابیاں بھی ہوتی ہیں۔ منشّیڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ تردد، وہم ، خوف اوربزدلی اُس پر چھائے رہتے ہیں۔ بر وقت کوئی فیصلہ کرنے کی قوت بھی ختم ہونے لگتی ہے۔ وہ خاندان سے الگ تھلگ رہنےاو رنشہ میں چور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے بچوں سے بھی وحشت بلکہ نفرت کرنے لگتے ہیں۔ شراب کے اخلاقی نقصانات تو بہت زیادہ ہیں ۔نشہ میں بدمست انسان بدکلامی ہذیان گوئی اوراُول فول بکتے رہتےہیں۔ ہوش کی حالت میں جس بات کو سوچنا بھی وہ انسان گوراہ نہیں کرتا نشہ میں وہی بکتا ہے مگر احساس نہیں ہوتا۔ یہ سب اخلاقی نقصانات ہیں۔ اسلئے محسن انسانیت ﷺ نے شراب کو اُم الخبائث بھی برائیوں کی جڑ اور اُم الفواحش یعنی بے حیائیوں کی جڑ قرار دیا ہے۔ شراب کی وجہ سے دس آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے ۔وہ ہیں شراب نچوڑنے والا، شراب نچوڑنے کا عمل کرنےوالا، شراب پینے والا، شراب ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والا، شراب پلانے والا، شراب خریدنے والا، شراب بیچنے والا، شراب کی کمائی کھانے والاجس کے حکم سے اس کے پاس شراب لائی جائے( ترمذی)۔
شراب اور دوسری منشیات کے انسداد کے لئے ایک جامع اور ہمہ گیر مگر موثر طریقہ کار اپنانا اور معاشرے کے ہر طبقہ کا اس میں تعاون دینا ہی اس کی نجات کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ انسدادی قوانین بنائے جائیں منشیات کی ہر قسم کی خرید و فروخت پر سخت پابندیاں ہوں۔ تعلیمی اداروں میں اس کے نقصانات کو بار بار مؤثر انداز میں سمجھایا جائے میڈیا کے ذریعہ شراب کے نقصانات کو اور شرابیوں اور دوسری منشیات سے تباہ حال لوگوں کے احوال سامنے لائے جائیں۔
اہل ایمان کو ایمانی غیرت کی بنا پر اس سے بچنے کےلئے سمینار کا نفرنسیں ،مجالس تذکیر اور رابطے کےپروگرام منعقد کرنے چاہیں۔نشہ کے عادی لوگوں کو ان عادتوں سے بچانے کی تدابیر جو ماہرین نے مقرر کی ہیں اختیار کی جائیں۔ معاشرے میں منشیات سے جُڑے لوگوں پر اخلاقی دباؤ بڑھایا جائے ۔والدین اپنے بچوں پر خصوصی نگرانی رکھیں۔ اُنہیں ہوٹلوں اور ایسے مقامات میں جانے سے روکا جائے جہاںمنشیات کی دستیابی ہوتی ہے۔ غر ض کہ ایمانی ، اخلاقی، معاشرتی، قانونی اورتذکیری ، غرض ہر ہر پہلو سے اس سیلاب کو روکنے کی کوشش معاشرے کےہر طبقے کی طرف سے ہونے لگے تو اچھے نتائج سامنے آنا یقینی ہے۔