خانہ دامادی شرعاً درست…تاہم تمام امور پہلے طے ہوں
س:۱- زید کا نکاح بحیثیت خانہ داماد کے ایک مقررہ مدت سات سال کے بکر کی لڑکی کے ساتھ اس شرط پر کیا جاتاہے کہ زید بکر کے گھر میں تامدتِ مذکورہ خدمت خانگی انجام دیتا رہے گا ۔اس دوران زید کے ذریعہ سے جتنی آمدنی حاصل کی جاتی ہے اس میں سے بعد گزرنے مدتِ مقررہ کے زید کو کوئی حصہ نہیں دیا جاتاہے بلکہ اس پوری آمدنی سے بکر کے اہل وعیال کی کفالت ہوجاتی ہے اور زید سے سات سال کی خدمت لے کر اپنی زوجہ کے ہمراہ خالی ہاتھ اپنے گھرلوٹایا جاتاہے ۔
س:۲-خانہ دامادی کی اس صورت میں لڑکی کا مہر اس کے والد کے گھر سے نکالا جاتاہے جب کہ بکر کے گھر کی جائیداد سے زید کا کوئی حصہ نہیں ہوتاہے ۔ہونا یہ چاہئے تھاکہ لڑکی کا مہر اس کے خاوند یعنی زید کے گھر سے نکال لیا جاتا لیکن یہاں معاملہ الٹا نظر آتاہے ۔مسئلے سے جڑے دیگر پہلوئوں کا جواب اس طرح مطلوب ہے :
کیا خانہ دامادی کامذکور طریقہ شرعاً جائز ہے ؟
کیا ادائیگی مہر کا مذکورطریقہ صحیح ہے ؟
کیا خانہ دامادی کی کوئی مدت شرعاً مقرر ہے ؟
کیا داماد اپنے سسرال کے گھر سے آمدنی کا کوئی حصہ لینے کا حقدار ہے ؟
بعض صورتوں میں داماد کو حصہ فرزندی کی شرط پر روک لیا جاتاہے ۔
ایسی صورت میں مہر کی ادائیگی کا طریقہ کیا ہوگا
محمد رمضان نائیک
جواب:۱-خانہ داماد بن کر جو شخص دوسرے گھر میں گیا ، اگر اُس کے ساتھ ابتداء میں ہی یہ معاہدہ کرلیا تھاکہ تم جو کچھ کمائو گے اُس آمدنی سے تم کو بھی اتنا حصہ دیا جائے گا ۔تو اس معاہدے کے مطابق اُسے لینے کا حق ہے جو معاہدے میں طے ہوا تھا۔ اگر اُس کی آمدنی صرف اتنی تھی جس سے گھر کی کفالت ہوتی رہی اور اُس محدود آمدنی سے وہ کچھ بھی نہیں بچاہے اور ساتھ ہی گھر داماد رکھنے والے لڑکی کے باپ سے زمین مکان اور اُس کی ذاتی جائیداد سے کچھ حصہ لینے کا معاہدہ بھی نہ تھا تو اس صورت میں یہ خانہ دامادمدت مقررہ گزرنے کے بعد صرف اپنی زوجہ کو رُخصتی کراکے لینے کا حقدار ہوگا۔ہاں جس گھر میں وہ سالہا سال خدمت گزاری کرتا رہا اُس گھروالوں کو بھی چاہئے کہ وہ اس کے ساتھ حُسن سلوک اور تعاون کا معاملہ کریں اور اس طرح اُس کورخصت نہ کریں کہ وہ غمزدہ ہو کرجائے اور نتیجتاً زوجہ کو طعنے سننے پڑیں۔
جواب:۲-نکا ح کرتے وقت اور بیٹے کو گھر داماد بناتے وقت یہ طے کرنا ضروری ہے کہ لڑکی کومہر کون دے گا ۔ لڑکی کا باپ یا اُس کا شوہر۔
اگر پہلے سے طے نہ کیا گیا ہو تو آگے یا تو اُس خاتون کو مہر سے محروم ہونا پڑتاہے یا مہر میں نزاع پیدا ہوجاتاہے ۔لڑکی کا باپ کہتا کہ مہر شوہر پر لازم ہے لہٰذا وہ ادا کرے ۔شوہر کہتاہے کہ میں خانہ داماد ہوں اور ساری کمائی اسی گھر کو دیتا رہا اس لئے مہر لڑکی کا باپ ادا کرے۔
اس نزاع سے بچنے کے لئے پہلے ہی طے کرکے رکھنا ضروری ہے کہ مہر کی ادائیگی کون کرے گا۔ اگر پہلے سے طے بھی نہیں کیا او رنزاع کے وقت باپ مہر اداکرنے سے منکر ہوگیا تو اس صورت میں مہر شوہر پر لازم ہوگا کیونکہ بیوی اُسی کی ہے ۔ خانہ دامادی شرعاً درست ہے مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہی تمام امور طے کرکے رکھے جائیں ۔ آنکھ بند کرکے معاملات کو اچھی طرح طے کئے بغیر جب خانہ داماد بننے بنانے کا کام کیا جاتاہے تو اُس کے بعد وسعت ظرفی کا طریقہ اپنا نا چاہئے ۔خصوصاًجب مہر ، آمدنی ،وراثت اور خرچوں کے متعلق نزاعات پیدا ہوں ۔ اگر اس معاملے میں کسی بھی امر کے متعلق نزاع پیداہوجائے تو اس نزاع کا فیصلہ کرنے کے لئے شریعت پہلے معاہدہ طلب کرتی ہے کہ کن اصولوں ، کن شرائط ، کن امور کی کیا ادائیگی کاعہد کرکے خانہ داماد بنایا گیا ۔ جب معاہدہ پیش کیا جاتا ہے تو شریعت کا حکم ہوتاہے کہ جو کچھ تم نے طے کیا اُس کو پورا کرو ۔
والدین کی خدمت کرنے میں بیوی روکاوٹ بنے تو قبول نہ کیا جائے
س:۱-اگر ماں باپ کی خدمت کرنے میں بیوی رکاوٹ بن جائے یہاں تک کہ بیٹااپنے ماں باپ سے اچھی طرح بات بھی نہیں کرسکتاہو۔ کیا اس عورت کو طلاق دی جاسکتی ہے ۔
س:۲- کیا طلاق لکھ کردینا ضروری ہے یا زبانی کافی ہے ۔ اگر مرد نے عورت کو طلاق دے دی مگر عورت اس کو نہیں مانتی ہے تو کیا یہ طلاق صحیح ہے ؟
س:۳-کیا جرمانہ (Penalty)کی شریعت میں کوئی اہمیت ہے ۔ (اگرچہ غلطی لڑکی کی ہی ہوتی ہے ۔ پھر بھی لڑکے والے پینلٹی مانگتے ہیں)۔
س:۴- جو زیور دلہے کو سسرال والوں کی طرف سے ملتے ہیں اس پر کس کا حق ہوتاہے ۔ کیا طلاق کے بعد یہ زیورات سسرال والوں کو واپس کرناضروری ہے ؟
ایک شہری
جواب:۱-والدین کی خدمت ،اطاعت اور ہر طرح کی خبر گیری اسلامی فرض ہے ۔ اگر بیوی اس میں رکاوٹ ڈالے تو ہرگز وہ قبول نہ کیا جائے اور اگر زوجہ اپنے طرزِ عمل کوتبدیل نہ کرے تو اُس کوبتا دیاجائے کہ اس کے نتیجے میں ہمارے درمیان طلاق بھی ہوسکتی ہے لیکن والدین کی خدمت اور اطاعت میں زوجہ کی حق تلفی نہیں ہوسکتی ۔ بات چیت تو عام رشتہ دار سے بھی بند کرنا غیر شرعی ہے والدین سے قطع تعلق کرنا تو حرام ہے اور جو عورت اپنے شوہر کو والدین سے بات چیت کرنے میں رکاوٹ بنے وہ سخت ترین مجرم ہے اور بہت جلد وہ خودکسی ایسی بہو کا سامنا کرسکتی ہے جو اُس کے بیٹے کو اس سے جدا کردے ۔ بہو اپنے ساس سسر کے ساتھ جو سلوک کرتی ہے اُس سے بدتر سلوک اُس کی بہو آئندہ اُس کے ساتھ کرے گی ۔ یہ ایک معاشرتی مشاہدہ ہے۔
جواب:۲- زبانی طلاق دینے سے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے او رعورت اگر طلاق قبول نہ بھی کرے تو بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے ۔
جواب:۳-شریعت میں جرمانہ (پینلٹی) لینا ہرگز درست نہیں ۔
جواب:۴-شوہر کو جو تحائف ،چاہے زیورات ہوں ،کپڑے ہوں یا دوسری چیزیں ،جو اُس کے سسرال والوں نے دی ہوں، وہ شوہر کا حق ہے اور زوجہ کو جو تحائف اس کے سسرال یا میکے والوں نے دیئے وہ زوجہ کا حق ہے۔
ایک مخصوص حالت میں نکاح کی حِلت وحرمت کا مسئلہ
س:-ایک شخص کو اپنی زوجہ کے بطن سے بیٹا پیدا ہوا ہو پھرا س کی بیوی وفات پاجائے یا طلاق واقع ہوجائے ۔ پھر اس شخص نے دوسرا نکاح کیا۔ اس شخص نے جس خاتون سے دوسرا نکاح کیا ہے اُس خاتون کو اپنے پہلے شوہر سے ایک دختر تولد شدہ بھی موجود ہے ۔اس کو بطور مثال یوں کہہ سکتے ہیں : زید نے سلمہ سے نکاح کیا تو ظفر پیدا ہوا ۔پھر زید نے رضیہ سے نکاح کیا ،رضیہ کا پہلا نکاح فضل سے تھا وہاں ایک دختر سلمہ پیدا ہوئی ۔ پھر رضیہ کا نکاح جب زید سے ہوا تو آگے سوال یہ ہے کہ کیا زید کے بیٹے ظفر کا نکاح رضیہ کی بیٹی سلمہ سے دُرست ہے یا نہیں؟
بشیراحمد
جواب:-قرآن کریم اور احادیث میں اُن عورتوں ،جن سے نکاح حرا م ہے ، کی تعین کرکے بقیہ کو حلال قرار دیا گیا اس اصول کی بناء پر زید کی پہلی زوجہ کے بطن سے پیدا ہونے والے بیٹے کا نکاح زید کی دوسری بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والی اُس دختر کے ساتھ شرعاً دُرست ہے جو پہلے شوہر کے نطفہ سے پیدا ہوئی ہے ۔
چونکہ اِن دونوں میں سے ہر ایک کا باپ بھی جُدا جُدا ہے اور ماں بھی جُدا جُدا ہے اور دونوں کے درمیان نکاح حرام ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہے اور ان کے درمیان رشتۂ نکاح درست ہے ۔ قرآن کریم میں اُن عورتوں کی پوری فہرست بیان فرمائی گئی جن سے نکاح کرنا حرام قرار دیا گیا ہے ۔ اُس کے بعد ارشادہوا ہے کہ ان حرام کردہ عورتوں کے علاوہ بقیہ تمام عورتوں کے ساتھ تم نکاح کرسکتے ہو۔ ترجمہ : ان ذکر کردہ عورتوں کے علاوہ باقی عورتوں سے نکاح حلال ہے ۔(سورہ النساء)
اس آیت سے قطعی طور پر معلوم ہواکہ مذکورہ رشتہ حرمت کے نہیں بلکہ حلال دائرے میں آتاہے ۔اس لئے کہ یہ حرام کی فہرست میں نہیں ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ فتاویٰ کی اکثر مستند کتابوں میں اس نکاح کے جائز ہونے کا فتویٰ موجودہے…اور تفصیل کے ساتھ اس کا جواز نقل کیا گیا ہے ۔ چنانچہ فتاویٰ دارلعلوم دیوبند جلد ۷ ،ص۱۲۷ پر ،فتاویٰ محمودیہ جلد ۱۱،ص:۲۸۱ پر، کتاب الفتاویٰ جلد ۴ ، ص:۳۳۵ پر ، آپ کے مسائل جلد ۶، ص:۱۷۲ پر یہ مسئلہ موجود ہے کہ باپ اگر اپنی سابقہ بیوی کے بیٹے کا نکاح اپنی دوسری بیوی کی اُس بیٹی سے کرے جو اُس کے سابقہ شوہر کے نطفہ سے پیدا ہوئی ہے تو شرعاً یہ جائز ہے ۔
شوہر میں خرابی ہو تو خلع کا عوض لینا گناہ
سوال:۱- ایک لڑکی اگر طلاق لینا چا ہے تو کیا وہ یا زمین اور دیگر اموال ،واپس لاسکتی ہے یا کہ اس پر شوہر کا ہی حق ہے اور وہ اس کو اپنے پاس رکھ سکتاہے ۔جب کہ بدلِ خلع میں شوہر صرف حق مہر کا ہی حقدار ہوتاہے ۔
سوال:۲-دوسری صورت اگر لڑکا طلاق دینا چاہے تو وہ لڑکی کو مائیکہ اور سسرال اور سسرالی رشتہ داروں کی طرف سے دیئے گئے تحائف لڑکی کو واپس کرسکتاہے یا نہیں ؟
نورالحسن
جواب:۱-جب زوجہ طلاق کا مطالبہ کرے تو شوہر کو حق ہے کہ وہ عوضِ طلاق کا مطالبہ کرے لیکن اگر شوہر کے ظلم یا کسی دوسری کوتاہی کی بناء پر زوجہ مجبورہوکر طلاق کا مطالبہ کرے تو ایسی صورت میں شوہر کا عوض طلب کرنا جائز نہیں ہے ۔ اب اگر اس نے عوض طلب کرلیا اور لڑکی اپنی گلوخلاصی کے لئے مجبوراً عوض دیدے تو عورت کو کوئی گناہ نہ ہوگا۔اگر بدل طلاق جس کو بدلِ خلع بھی کہتے ہیں ،میں صرف مہر طے ہوا تو بقیہ تمام چیزیں عورت کا ہی حق ہے اور اگر بدلِ خلع میں مہر اور دیگر اشیاء کا مطالبہ کیا گیا اور عورت نے اپنی جان چھڑانے کے لئے مجبوراً قبول کرلیا تو پھر مہر اور دیگر وہ اشیاء جو بدلِ خلع میں طے کی گئیں وہ شوہر کو دینی ہوں گی ۔
جب کوئی شوہر یہ کہے کہ میری بیوی مجھ سے چھٹکارا چاہتی ہے میں کس کس چیز کا مطالبہ کرسکتاہوں تو جواب یہ ہوگاکہ اگر وہ خواہ مخواہ رشتہ ختم کرنے پر مُصر ہے تو پھر جومہر اور زیورات شوہر نے دئے ہیں اُن کی واپسی کی شرط پر خلع کرسکتے ہیں لیکن اگر خامی اورخرابی شوہر میں ہے تو کچھ بھی لینا گناہ ہے ۔
جواب:۲-جب شوہر از خود طلاق دے تو ایسی صورت میں عورت کو مہر اور دیگر تمام اشیاء چاہے وہ میکے والوں کی طرف سے دی گئی ہوں یا سسرال والوں کی طرف سے ، یہ سب اُس مطلقہ کا حق ہے اور شوہر اُن میں سے کچھ بھی نہیں لے سکتا۔