Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: April 20, 2018 1:30 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
15 Min Read
SHARE
سوال: آج کل بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو منہ بولا بھائی بہن وغیرہ جتلا کر فون پر گھنٹوں باتیں کرتے ہیں ۔کیا اس طرح سے کوئی کسی کا بھائی یا بہن بن جاتاہے اور پھر کیا بھائی بہن کی طرح اپنی نجی زندگی کے مسائل شیئر کرنا صحیح ہے ۔ کیا اس طرح سے فون کے ذریعہ یا پھر انٹرنیٹ کے فیس بُک وغیرہ کے ذریعہ غیر محرموں کا آپس میں دوستیاں گانٹھنا شریعت کی رو سے جائز ہے ۔ براہ کرم مفصل جواب عنایت فرمائیں ۔
عبداللہ شوپیانی 
نامحرموں کا موبائل ، انٹرنیٹ اور فیس بُک کے ذریعہ دوستیاں گانٹھنا شیطانی خطرات کا حامل 
جواب:- نوجوان لڑکوں او رلڑکیوں کا اس طرح باتیں کرنا سراسر حرام ہے ۔ چاہے موبائل فون کے ذریعہ یا انٹرنیٹ کے ذریعہ یا فیس بُک کے ذریعہ ہو۔ پھر اس پر یہ کہنا کہ یہ میرا منہ بولا بھائی یا بہن ہے ۔ یہ دراصل اپنے جرم پر پردہ ڈالنے اور ایک حرام کو حلال بنانے کی غیر شرعی شیطانی کوشش ہے ۔ 
نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اولاً اس طرح کی گفتگو سے آغاز کرتے ہیں او رپھر عشق بازی اور آگے بدکاری کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔اس وقت جو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے حیائی اور بدکاری کے دلدل میں لت پتہیں اور پھر اُس کے نتیجے میں صورتحال اُس طرف جارہی ہے کہ کسی پاکدامن لڑکے یا لڑکی کا ملنا خواب بن جائے گا۔ یہ سب اسی شیطانی سلسلہ کا تلخ نتیجہ ہے ۔
اس وقت جنسی جذبات کے بے قابو ہونے کا حال یہاں تک پہنچ چکاہے کہ حقیقی بھائی بہن اگر جوان ہوں ،فحش فلمیں دیکھتے ہوںاور ناچ گانے کے ماحول میں ہوں توحقیقی بھائی بہن ہونے کے باوجود شیطانی حملوں کا شکار ہوسکتے ہیں اور اس طرح کے حادثہ ہوسکتے ہیںجو سوچنا بھی مشکل ہے ۔جب حقیقی بھائی بہن کو خطرے ہیں تو کسی بھی نامحرم چاہے وہ قریب ترین رشتہ دار کیوں نہ ہواُس سے فون پر رابطہ قائم کرنا ہی حرام ہے اور زیادہ ہی خطرہ ہے ۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ اے نبی کی بیویو! اگر تم سے کوئی نامحرم بات کرے تو کرخت اور تلخ لہجے میں جواب دو ۔تاکہ اُس کے نفس میں تمہارے متعلق غلط خیال پیدا نہ ہوں ۔ (سورہ احزاب)
اسی لئے عورتوں کو حکم ہے کہ وہ کسی بھی نامحرم سے بات ہی نہ کریں اور اگر مجبوراً بات کرنی پڑے تو بہت پھیکے اور ناگوار انداز میں کریں تاکہ یہ آگے غیر شرعی تعلقات کا ذریعہ نہ بنے۔
جب مسلمان اس حکم کو چھوڑ دیتے ہیں تو اس سے کیسے کیسے جرائم وقوع پذیر ہوتے ہیں وہ ہمارے معاشرے میں چاروں طرف سے نمایاں ہیں ۔لڑکوں کے لڑکیوں سے غلط تعلقات، مردوں کے دوسروں کی بیویوں کے ساتھ اور عورتوں کے دوسرے مردوں کے ساتھ روابط اور پھر کتنوں کی زندگیاں تباہ وبرباد ہورہی ہیں ۔
اس لئے کسی مسلمان لڑکے یا مرد کے لئے اور کسی مسلمان عورت یا لڑکی کے لئے ہرگز یہ رابط اور بات چیت کاسلسلہ جائز نہیں ہے۔
حق یہ ہے کہ کامیاب لڑکا وہ ہے جو نکاح کے بعد اپنی زوجہ سے ڈنکے کی چوٹ پر یہ کہہ سکے کہ میرے روابط کسی نامحرم کے ساتھ نہیں ۔میرادل بھی پاک ، جسم بھی پاک اور نگاہ بھی پاک ہے ۔ میری عفت بھی محفوظ اور میری حیاء بھی برقرار ہے۔اورکامیاب بیٹی وہ ہے جو اپنے ہونے والے شوہر کو رخصتی کے بعد پہلی ہی ملاقات میں یہی سب کچھ کہے اور اس میں وہ سچی بھی ہواور یہ اسی صورت میں ہوگا جب موبائل ،فیس بک اور انٹرنیٹ وغیرہ کے اس جال میں اپنے آپ کو پھنسانے سے بچا کر اپنی جوانی کے نازک دن گذاریں۔
س:-اگرنماز جماعت کا وقت لوگوں نے متفقہ طور سے طے کیا ہے ۔ مثلاً نماز ظہر کے لئے جماعت کاوقت ایک بجے رکھاہے پھر جماعت کھڑی ہورہی ہے مگر امام صاحب وضو کررہے ہیں ۔ کیا ایسی صورت میں نمازکوئی دوسرا شخص پڑھائے یا امام صاحب کا انتظار کیا جائے ؟
س:-کبھی ایسا ہوتاہے کہ مسجد میں جماعت کھڑی ہوجاتی ہے اور مسجد کا مستقل امام مسجد میں موجود نہیں ہوتاہے پھر نائب امام یا مقتدیوں میں سے کوئی دوسرا آدمی منبر پر نماز پڑھانے کے لئے آگے بڑھتاہے اور نماز کے لئے اقامت شروع ہوجاتی ہے ۔ اسی دوران پیچھے سے آواز آتی ہے کہ امام صاحب آرہے ہیں اور تکبیر کہنے والا درمیان میں رُک جاتاہے اور نائب امام مجبورہوکر واپس آجاتاہے اور مسجد کا اصلی امام نماز پڑھاتاہے مگر جس شخص کو امامت سے واپس لوٹناپڑتاہے اس کے دل میں مایوسی پیدا ہوتی ہے ۔ آپ صاحب سے سوال ہے کہ ان حالات میں نماز پڑھانے کا حقدار کون ہے ؟
ماسٹر محمدیوسف شیخ
امام کا انتظار افضل
جواب:- جب امام صاحب وضو کررہے ہوں یا سنت ادا کررہے ہوں تو افضل اور بہتر یہ ہے کہ امام کا انتظار کیا جائے ۔حضرت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت خلفاء راشدین کے مبارک عہد میں یہی معمول تھاکہ تمام مقتدی امام کاانتظار کرتے تھے اور جب تک امام نہ آتے تھے جماعت کھڑی نہ کرتے تھے ۔ چنانچہ جماعت کھڑی کرنے کا حق اما م کو ہے اس کے متعلق ترمذی شریف میں حدیث موجود ہے کہ مسجد میں موجود لوگوں اور مؤذن کو نہیں بلکہ امام کو یہ حق ہے کہ وہ جب کھڑا ہو تو جماعت کھڑی ہو ۔
جواب:-اس صورت حال میں یہ بھی جائز ہے کہ نائب امام نماز پڑھائے او رمقررہ امام اُس کی اقتداء میں نماز پڑھے ۔اور یہ بھی جائز ہے کہ نائب امام پیچھے آجائے اور مقرر امام نماز پڑھائے ۔ دونوں صورتیں جائز ہے ۔ اس سلسلے میں بخاری شریف میں ایک واقعہ موجود ہے کہ حضرت نبی علیہ السلام نے حضرت ابوبکر ؓ کو امامت کرنے کا حکم دیا تھا اور امامت کرتے ہوئے حضرت ابوبکر واپس آگئے مگر آپؐ نے فرمایا تم واپس کیوں آئے ۔
 
سوال: اگر بیوی کسی بھی طور رشتہ توڑنے کی ضد پر ہو تو کیا بلاکسی وجہ کے طلاق دی جاسکتی ہے ، جب کہ سمجھانے کے باوجود بھی کوئی راستہ نہ نکلے۔ تو اسلام اس کے متعلق کیا کہتا ہے؟
محمد   فاروق
خلع کا فیصلہ تلخ مگر جائز 
جواب :۔ نکاح ایک ایسا رشتہ ہے جو تمام دوسرے رشتوں سے منفرد بھی ہے اور زندگی کے تمام پہلوئوں کو ہر طرح سے متاثر کرنے والا رشتہ بھی۔ ا سلئے جب یہ رشتہ قائم ہو جائے تو شریعت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ رشتہ قائم رکھنے کیلئے ہر طرح کی قربانی دینے کا رویہ اپنا یا جائے۔ اور عقل بھی یہی تقاضا کرتی ہے کہ قابل برداشت اختلافات کی بنا پر رشتہ ختم کرنے کا قدم نہ اٹھایا جائے۔ اس سلسلے میں دونوں میاں بیوی کو تفصیل سے ہدایات دی گئی ہیں۔ اگر عورت بلا وج رشتہ ختم کرنے پر مصر ہوتو اس کے متعلق چند احادیث ملاخط ہوں ۔
(۱) حضرت ثوبان ؓ سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا جو عورت اپنے شوہر سے بلا کسی ضرورت شدیدہ و پریشانی کے طلاق مانگے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔( ابن ماجہ، ابو دائود۳۰۳،ترمذی۶۲۲)۔
(۲) حضرت ابو ہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا  شوہر سے علیحدگی چاہنے والی خلع کا مطالبہ کرنے والیں عورتیں منافق ہیں۔( مشکوۃ۴۸۲نسائی)
(۳) حضرت معاذ ؓ نبی پاک ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کوئی عورت اپنے شوہر کو دنیا میں پریشان نہیں کرتی مگر یہ کہ اس حور عین بیوی اُسے کہتی ہے۔ کہ اسے پریشان مت کرو ۔خدا تمہارا بھلا نہ کرے وہ تمہارے پاس تھوڑے ہی دن رہنے والا ہے۔ عنقر یب تم سے جدا ہو کر ہمارے پاس چلا آئے گا۔( مشکوۃ۱۸۲؁، ترمزی۲۲۲،ابن ماجہ ۵۴۱)
(۴) حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ رسو ل ﷺ نے فرمایا جب عورت شوہر کے بارے میں یہ کہے کہ میں نے تم سے کوئی بھلائی نہیں پائی۔ تو اسکے اعمال ( کا ثواب)ضبط ہو جاتے ہیں۔ ( یعنی برباد اور ضائع)( جامع صغیر۴۵ کنز ۶۱)
حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایااللہ اس عورت کی طر ف نگاہِ کرم نہیں فرماتے جو اپنے شوہر کا شکر ادا نہیں کرتی۔ اورنہ اس کی پرواہ کرتی ہے۔( کنزالعمال ۶۹۳، ۶۱)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا قیا مت کے دن عورتوں سے سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال کیا جائے گا ۔کہ پابندی کے ساتھ وقت پر ادا کی تھی کہ نہیں پھر شو ہر کے متعلق سوال ہو گا کہ اس کے ساتھ کیسا بر تائو کیا تھا ۔( ابو الشیخ۔ کنز العمال ۹۹۳،۶۱)
حضرت ابن ابی اوفیٰ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے عورت اللہ کا حق اس وقت تک ادا کرنے والی نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے۔(ابن ماجہ ترغیب ۶۵؍ ۳)
حضرت معاذ ؓ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایاعورت ایمان کی حلاوت اس وقت نہیں پاسکتی جب تک وہ اپنے شوہر کے حق کو ادا نہ کرے۔ اگر وہ اسے بلائے( خواہش کے پورا کرنے کیلئے تو آجائے) اگر چہ وہ پشت پالان پر بیٹھی ہو۔ یعنی ضرورت کے کام میں مصروف ہو تب بھی اسکی خواہش کی رعایت کرے ۔ گوکہ اسے خود خواہش وضرورت نہ ہو۔( ترغیب ۶۵،۳)ا س طرح کے ارشادات کے باوجود اگر عورت بضد ہو کہ رشتہ باقی نہیں رکھنا ہے تو پھر زبردستی رشتہ قائم رکھنے کی کو شش دونوں کو طرح طرح کی تلخیوں بلکہ ظلم و زیادتی کا شکار بنا دے گی۔ ایسی صورت میں بادلِ ناخواستہ شوہر کو خلع کرنے کا حق ہے ۔ اور وہ مہر اور زیوارت واپس لیکر رشتہ ختم کرنے کا تلخ فیصلہ قبول کرسکتا ہے۔
 
سوال: خاندان کی بنیاد اعلیٰ ہونے کی بنیاد پر رشتہ کرنے سے انکار کرنا کیسا ہے ؟ کچھ لوگ سید ہونے کی بنا پر غیر سید گھرانوں سے رشتہ کرنے سے ناکار کر دیتے ہیں کیا یہ صحیح ہے ، رہنمائی فرمائیں۔ ؟
اعجاز احمد
 نکاح میں خاندانی تفاوت کا خیال کرنا؟
جواب :۔خاندانوں میں شرافت ، تقویٰ اور مختلف اوصاف کی بنا پر اعلیٰ و ادنیٰ ہونا شرعاً اور عقلاً ایک مسلمہ حقیقت ہے ۔ مگر خاندانوں کی بنا پر فخر و غرور کرنا بھی سراسر غیر شرعی ہے۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو لوگ اپنے آباء و خاندانوں پر فخر کرتے ہیں اُ ن کو اس جھوٹے تفاضہ سے رک جانا چاہئے۔ ترمذی، ابو دائود۔ مشکوۃ، خاندانی فخر و غرور کا ایک شعبہ یہ بھی ہے کہ سید خاندان کی لڑکی کا نکاح کسی غیر سید سے ناجائزہ سمجھا جاتا ہے ۔ حالانکہ والدین کو اگر یہ محسوس ہو جائے کہ فلاں غیر سید لڑکا اپنے علم، تقویٰ ، شرافت، کردار اور خوبیوں کی بنا پر ہ ہماری بیٹی کیلئے بہت مناسب ہے اور وہ رضامند ہو کر اپنی سید زادی کا نکاح اس غیر سید نوجوان کے ساتھ کریں تو شرعاً یہ نہ صرف جائز بلکہ بہتر و مستحسن ہے۔
والدین کی رضامندی کے بغیر از خود کسی خاتون کا رشتہ کرنا شرعاً اور عقلاً دونوں اعتبار سے بہت ساری خرابیوں کا سبب ہوتا ہے اس لئے اگر کوئی سید زادی نے اپنے والدین کی اجازت کے بغیر خود کسی غیر سید سے نکاح کر لیا تو ایسا کرنا شرعی طور پر درست نہیں۔ ہاں کسی سید زادی کا نکاح جب اس کے والدین کسی غیر سید سے کرنا چاہیں اور وہ اس سے رشتہ کرنے پر مطمئن ہوں اور مطلوبہ بہترین اوصاف اس میں اُن کو نظر آئیں تورشتہ کرنا جائز ہوگا۔ حدیث میں دینداری کو رشتہ میں ترجیح دینے کا حکم ہے۔
حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد بہن( زینب ؓ) کا نکاح ایک غلام (زیدؓبن حارثہ) کے ساتھ کر دیا تھا ۔ حضرت زین العابدین ؒ نے اپنے غلام سے اپنی ہمشیرہ کا نکاح، او رخود اپنا نکاح ایک باندی کے ساتھ کیا تھا۔ بہر حال کوئی سید اپنی دختر سید زادی کا نکاح کسی غیر سید سے کرنے پر از خود رضامند ہو تو شرعاً درست ہے۔
  
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

پونچھ کے سرکاری سکولوں میں تشویش ناک تعلیمی منظرنامہ،بنیادی سرگرمیاں شدید متاثر درجنوں سرکاری سکول صرف ایک استاد پر مشتمل
پیر پنچال
فوج کی فوری طبی امداد سے مقامی خاتون کی جان بچ گئی
پیر پنچال
عوام اور فوج کے آپسی تعاون کو فروغ دینے کیلئے ناڑ میں اجلاس فوج نے سول سوسائٹی کے ساتھ سیکورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا
پیر پنچال
منشیات کے خلاف بیداری مہم بوائز ہائر سیکنڈری سکول منڈی میں پروگرام منعقد کیاگیا
پیر پنچال

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?