سوال :۔ رمضان المبارک میں صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے ۔ہمار اسوال ہے کہ صدقہ فطر کی از کم مقدار اور زیادہ سے زیادہ مقدار کتنی ہے۔ دور نبوت میں صدقہ فطر ادا کرنے کےلئے کن چیزوں کو بنیاد بنایا جاتا تھا اور آج کن چیزوں کو بنیاد بنایا جاسکتاہے؟۔
ہلال احمد ۔۔چھانہ پورہ سرینگر
صدقہ فطر۔۔۔۔۔۔شرعی توجیہہ
جواب:۔ صدقہ فطر کے متعلق احادیث میں ہے کہ جو، کھجور، کشمش ایک صاع دیا جائے۔ صاع دورِ رسالت میں ایک پیمانہ تھا جس سے اناج کیل کرکے لیا دیا جاتا تھا ۔کیل کرنا یعنی کسی پیمانے میں کوئی چیز بھر کر دینا۔ جیسے آج کل دودھ لیٹر کے حساب سے دیا جاتا ہے ، کہلاتا ہے تو اوپر کی اشیاء ایک ساع صدقہ فطر تھا ۔پھر عہد صحابہ میں جب گندم کے استعمال کی کثر ہوگئی تو صدقہ فطر کےلئے طے ہو اکہ اگر کوئی گندم یا اُس کا آٹا دینا چاہئے تو نصف صاع دے اور اگر کوئی شخص جو، کھجوریا کشمش دے تو پورا ایک صاع دے۔ ایک صاع آج کل کے پیمانوں کے حساب سے تقریبا سواتین کلو کے بقدر ہے اور نصف صاع اس کا نصف ہوگا۔ تحقیقی طور پر اہل علم کےلئے یہ لکھنا مناسب ہے کہ ایک صاع 3کلو 149گرام 280ملی گرام ہے۔
نصف صاع ایک کلو574گرام640ملی گرام ہے۔
غرض صدقہ فطر میں گندم نصف صاع اور جو، کھجور اور کشمش ایک صاع ادا کرنا شرعی حکم ہے۔
صدقہ فطر ادا کرنے والا جب اس حکم شرعی کو ادا کرنے کا قدم اُٹھائے تو اگر وہ کم از کم ادا کرے تو نصف صاع گندم یا اُس کی قیمت اور زیادہ سے زیادہ ادا کرنا چاہئے، تو کھجور یا کشمش ایک صاع یا اُس کی قیمت ادا کرے گا۔ ان اشیاء کی قیمت ہر جگہ جو بھی ہوگی وہ قیمت بھی صدقہ فطر ہے۔ ہمارے کشمیر کے مسلم معاشرے میں علماءاور مفتیان کرام صدقہ فطر کی مقدار طے کرتے ہیں تو وہ نصف صاع گندم ( احتیاطاً پورے دو کلو گندم یا اُس کے رائج آٹے کی قیمت مقرر کرتے ہیں۔ قیمت کی یہ مقدار کم سے کم ہوا کرتی ہے۔ اس لئے یہ بات طے ہے کہ افضل یہی ہے کہ کھجور یا کشمش کو معیار بنا کر صدقہ فطر ادا کیا جائے اور ایک صاع احتیاطاً سو ا تین کلو کھجور یا کشمش کی جو قیمت ہوگی وہ قیمت بازار سے معلوم کرلی جائے اور ایک فرد کی طرف سے اُس مقدار کا صدقہ فطر ادا کیا جائے اگر کم از کم مقدار کا صدقہ فطر دیا جائے تو وہ بھی درست ہے۔
سوال:۔ میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور ساتھ ہی اپنے علاقے میں جامع مسجد کا امام اور خطیب بھی ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ جی پی فنڈ کے متعلق شریعت کا حکم کیا ہے ۔جو رقم جی پی فنڈ کی گورنمنٹ کے فنڈ جمع ہوتی ہے کیا اس پر زکوٰۃ لازم ہوتی ہے یا نہیں ۔اسی طرح اس جی پی فنڈ پر گورنمنٹ اپنی طرف سے جو اضافی رقم شامل کرتی ہے وہ اضافی رقم لینا اور اپنی ذات پر خرچ کرنا جائز ہے یا نہیں۔ اسی طرح سی پی فنڈ کے متعلق بھی یہی سوال ہے۔
محمد شعیب
امام و خطیب جامع مسجد زرہامہ کپوارہ
جی پی فنڈ پر زکوٰۃ۔۔۔۔۔حصولیابی تک واجب نہیں
جواب:۔ملازمین کی تنخواہوں سے جو رقم کاٹ کر جمع رکھی جاتی ہے اُس رقم پر زکوٰۃ اُس وقت تک لازم نہ ہوگی جب تک وہ رقم ملازم وصول نہ کرلے۔ اگر ملازم گورنمنٹ کا ہو تو یہ رقم جی پی فنڈ کہلاتی ہے اور اگر ملازم کسی ایسے ادارے کا ہو جو مکمل طور پر گورنمنٹ کا ادارہ نہیں ہے تو اُس کی جمع کردہ رقم کو سی پی فنڈ کہا جاتا ہے۔ یہ رقم ملازم کی تنخواہ سے وضع کی جاتی ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے اُس میں مزید رقم شامل کی جاتی ہے جس کو ادارے والے اپنے کھاتوں میں انٹرسٹ لکھتے ہیں۔ مگروہ شرعی طور پر انٹرسٹ کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ اس طرح یہ مجموعی رقم ملازم کےلئے جائز ہے اور جب تک یہ رقم ملازم کے قبضہ میں نہ آئے اس وقت تک اُس پر زکوٰۃ کا حکم نافذ اور لازم نہ ہوگا اور یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی خاتون کا مہر اُس کے شوہر کے ذمہ باقی ہو تو غیر وصول شدہ مہر کی زکوٰۃ عورت پر لازم نہ ہوگی لیکن جوں ہی وہ مہر اُسے عورت کو دیا جائے اُس کی زکوٰۃ لازم ہو جائے گی۔ یہی حکم جی پی فنڈ اور سی پی فنڈ کا بھی ۔
اس فنڈ پر جو اضافی رقم دی جاتی ہے وہ کیا ہے؟ دفتری کا غذات میں اُسے سود اور انٹرسٹ لکھا جاتا ہے مگر اس پر شرعی طور پر سود کی تعریف صادق نہیں آتی ہے اسلئے ہر اضافی رقم سود ہو یہ یقینی نہیں۔ سود کی تحقیق کےلئے عاقدین کا عقد ر با کرنا ضروری ہےاور پھر ایک عاقد اپنی رقم دوسرے کو اضافی رقم کی شرط کے ساتھ دینا طے کر ے اور عاقد ِدوم اس شرط کے ساتھ رقم وصول کرے تو اس صورت میں اضافی رقم انٹرسٹ کہلائے گی۔ تاہم اس کے باوجود جی پی فنڈ کی اضافی رقم کو اگر کوئی شخص سود ہی سمجھتا ہو تو پھر وہ اس سودی رقم کا ایسا استعمال کرسکتا ہے جو شرعاً درست ہو مثلاً انکم ٹیکس دینا وغیرہ۔
سوال:۔ آج کل مساجد میں لائوڑ سپیکر وںکا بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے، خاص کر سحری وفجر سے پہلے اور شب کے دوران ۔ کبھی کبھار تو وعظ ،نعت یا تلاوت لائوڈ سپیکر کے ذریعے گھنٹوں چلایا جاتا ہے اور اس وجہ سے محلوں میں کافی شور و غل پیدا ہوتا ہے اور گھروں میں اس شور و غل سے دودھ پیتے بچے اور بیمار بزرگوں کی نیند میں خلل واقع ہوتا ہے اور خلقِ خدا ایذاء کاشکار ہوتی ہے اس سلسلے میں اب چند سوالات ہیں۔
(۱) کیا اس طرح لائوڑ اسپیکر کا استعمال شریعت کے لحاظ سے درست ہے جبکہ خلق خدا تکلیف کا شکارہو رہی ہو؟۔
(۲) مساجد کے لائوڈ اسپیکر کن کن امور کےلئے استعمال کرناچاہئے۔
(۳) کلمات اور دُعائے صبح جو کہ انفرادی عبادت ہے کیا اس کےلئے لائوڈ اسپیکر استعمال کرنا درست ہے ، مفصل جوابات عنایت فرمائیں؟
شوکت قاسم۔۔۔ سرینگر
مساجد میں مائیک کا استعمال شرعی حدود میں ہو
جواب:۔ مسجد سے باہر کا مائک صرف اذان کےلئے استعمال کرنا درست ہے۔ اذان کے علاوہ نما زہو، نعت خوانی ہو، وعظ ہو، دُعائے صبح ہو یا نمازوں کےبعد پڑھے جانے والے کلمات مسنونہ ہوں۔ ان تمام اعمال کےلئے مسجد کے باہر لائوڈ اسپیکر استعمال کرنا، جب کہ یہ لوگوں کےلئے اذیت کا سبب بنے، مثلاً گھروں میں بیمار ہوں اُن کے آرام میں خلل ہو، بچے ہوں اُن کی تعلیم میں حرج ہو ،گھر کی خواتین ہوں اُن کی اپنی عبادتوں میں خلل ہو، غرض کہ مسجد کے باہر کا مائک جب ایذاء کا سبب ہو تو اس کا استعمال کرنا ہر ز درست نہیں ہے ۔ اسی طرح جمعہ کے دن کا وعظ مسجد کے اندر جمع ہونےوالے نمازیوں کو سنانا ہوتا ہے تو پورے محلے کو مائک کے شور سے اذیت پہونچانا کیسے جائز ہوگا۔ اس لئے اماموں کی بھی ذمہ داری ہے اور مساجدکے منتظمین کی بھی کہ وہ جمعہ کے وعظ ، نعت خوانی، درود خوانی میں مسجد کے باہر کا مائک پوری طرح بند رکھیں۔ اسی طرح رمضان میں سحری کے وقت مسجد کے مائک سے مسلسل نعت خوانی کرنا، یا باہر کے مائک پر دعائے صبح پڑھنا جب لوگوں کی ایذاء کا سبب ہے تو اس کا جوازکیسے ہوگا۔ صبح کو تہجد پڑھنا، دُعائیں کرنا اور سحری کھانا ہوتا ہے تو مسجد کے میناروں سے اُٹھنے والے شور سے یہ سب متاثر ہوتا ہے۔
بہر حال خلاصہ یہ ہے کہ مائک کا استعمال شرعی حدود میں ہو نہ کہ شریعت کے نام پر غیر شرعی استعمال سے لوگوں کو اذیت پہونچائی جائے اور لوگوں کے دلوں میں کبیدگی پیدا کرنے کا بالواسطہ عمل کیا جائے۔
سوال:۔ یہاں کشمیر میںمسلمان گھروں میںبچوںکو بچپن سے ہی مادری زبان کے بجائے دوسری زبانیں سکھائی جاتی ہیں مثلا ً اُردو ، انگریزی وغیرہ ۔ لوگ اپنی زبان سکھانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ کیا یہ فخر کی بات ہے آج کل کے مسابقتی دورمیں ماردی زبان بھلا کر دوسری زبانیں اختیار کی جائیں۔ ایسا کرنا صحیح ہے یا غلط ؟اگر غلط ہے تو نقصانات کیا کیا ہیں ؟میں نے ایک بڑے عالم دین سے سنا ہے کہ جوقوم ماردی زبان فراموش کرے وہ قوم کبھی ترقی نہیںکرسکتی؟
سید عبدالباسط ۔۔قاضی گنڈ
مادری زبان ترک کرنا تاریخ، تہذیب اور علم سے محرومی کا باعث
جواب:۔ ہر قوم جو زبان بولتی ہے وہ زبان اُس قوم کی تہذیب، مزاج ،عادات اور اُس قوم کے ماضی اور اُس کی تاریخ کی ترجمان ہوتی ہے۔ جب کوئی قوم اپنی زبان چھوڑ کر دوسری زبان اختیار کرے گی تو اُس قوم کا رشتہ اپنے ماضی سے بھی کٹ جائے گا۔ وہ اپنی تہذیب اور اپنا تشخص بھی کھود ے گی اور اپنے علمی ادبی ، تاریخی ورثہ سے بھی محروم ہوجائے گی اور یہ شدید ترین نقصان ہوگا۔ اپنی زبان کو چھوڑ کر دوسری زبان اختیار کرنا اگر کسی علمی یا معاشی ضرورت کےلئے ہو تویہ ترقی ہے لیکن اگر اپنی زبان کو کم تر سمجھنے کی بنا پر اور احساس کمتری کا شکار ہونے کے نتیجے میں اپنی زبان چھوڑی جارہی ہو تو یہ خود قوم کے تنزل پذیر ہونے کی نشاندہی ہے۔ اسلئے اپنے لسانی سرمایہ کو چھوڑ کر دوسری قوم کی نقالی کرنا اپنے ورثہ سے محروم ہونا ہے اور جو اپنے ورثہ سے محروم ہو جائے اس کا مستقبل بھی محفوظ نہیں رہتا۔ اس لئے اپنے بچوں کو اپنی مادری زبان سے محروم کرنا اور دوسری کوئی زبان بولنے کا عادی بنانا متعدد پہلوئوں سے قابل نقد ہے۔ اس لئے یہ طرز عمل بہر حال قابل اصلاح ہے۔
سوال:۔ میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے کشمیر عظمیٰ کے سوال نامے میں کئی مرتبہ لکھا اور زبانی بھی کہا ہے کہ عشاء کی نماز میں میقات الصلوۃ میں لکھے گئے وقت سے دس منٹ پہلے اذان پڑھی جاسکتی ہے۔ میں نے ایک پڑھے لکھے شخص سے سنا کہ یہ بات غلط ہے اس لئے حنفی مسلک کے مطابق شروع عشاء شفقِ ابیض سے ہے نہ کہ اس سے پہلے شفقِ احمر سے۔ اس لئے حنفی مسلک سے عدول کرکے مسئلہ بتانا غلط ہے۔ مفتی صاحب اسکی وضاحت فرمائیں؟
عرفان احمد۔۔۔۔ ہارون سرینگر
شروعِ عشاء اور شفقِ ابیض وشفقِ احمر !
جواب:۔ احادیث کی رو سے نماز عشاء کاو قت شفق غائب ہونے پر شروع ہوتا ہے۔ چنانچہ حدیث کی مختلف کتابوں میں یہی بات صراحتہً موجود ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ شفق کیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ شفق غروب کے بعد پائی جانے والی وہ روشنی ہے جو مغرب میں پائی جاتی ہے ۔ غروب آفتاب کے بعد دو قسم کی روشنی بمقام غروب پائی جاتی ہے ایک سرخ روشنی او ر ایک سفید روشنی۔
سرخی کو شفق احمر اور سفیدی کو شفق ابیض کہا جاتا ہے ۔نماز عشاء کےلئے جو شفق حدیث سےمقرر کیا گیا ہے وہ کون سا ہے وہ سرخ ہے یا سفید۔ یعنی شروع عشاء شفق احمر سے ہوگا یا شفق ابیض سے اس سلسلے میں دورائیں ہیں۔ بعض صحابہ کرام مثلاً حضرت عمر فاورق ؓ ، علی مرتضیٰ ؓ ، ابن عباس ؓ (ایک رائے) عبادہ بن صاحت ؓ اور بہت سارے تابعین و مفتہاء کرام کا کہنا ہے کہ شفق سے مراد شفق احمر ہے۔یہی رائے ائمہ اربعہ میں سےحضرت امام مالکؒ حضرت امام شافعی ؒامام احمد ؒکی ہے اور حنفیہ میں سے امام اعظم ؒکی ایک رائے یہی اور امام ابو یوسف، ؒامام محمد ؒکی رائے یہی ہے۔
جبکہ بعض حضرات صحابہ مثلاً صدیق اکبر ؓ، معاذ بن جبل ؓ، عائشہ ؓ، ابن عباسؓ ، ابو ہریرہؓ، عمر بن عبدالعزیزؓ امام اوزاعی وغیرہ حضرات کی رائے کے مطابق شفقِ سے مراد شفق ابیض ہے۔ یہی رائے امام اعظمؒ کی بھی ہے۔
اب یہ دو رائیں ہوگئی اور دنوں کےلئے تفصیلی دلائل حدیث و فقہ کی کتابوں میںموجود ہیں۔
اب اگر یہا ں کشمیر کے مخصوص حالات کی بنا پر شفق احمر کو شروع کہا جائے تو یہ فقہ حنفی سے اعراض یا عدول ہر گز نہیں۔ اس لئے کہ خود امام اعظم کی ایک رائے اور حضرات صاحبین کا مسلک یہی ہے۔ چنانچہ علامہ شامی نے درمختار کی اصل عبارت لکھی اور تشریح یوں کی ( ترجمہ)
مغرب کا وقت غروب آفتاب سے لے کر غروب شفق تک ہے اور شفق حضرات صاحبین ( اما م یوسف ؒو امام محمد ؒ) اور تینوں ائمہ( امام مالکؒ، امام شافعی ؒ، امام احمد ؒ کی رائے میں سرخی کا نام ہے اور امام اعظم نے بھی اسی طرح کی طرف رجوع کیا ہے۔جیسا کہ مجموع وغیرہ میں ہے ۔ لہٰذا یہی ہمارا مذہب ہے ۔ امام اعظم کے رجوع کے ذیل میں یہ ملحوظ رہے کہ خود اُن کی ایک رائے پہلے سے یہی تھی۔ اسی پر تمام ملکوں میںعمل ہے اور نقایہ، وقایہ الدرد ، الاصلاح، اسجار، الامدار اور المواہب و شرح ِبرہان میں ہے کہ اسی پر فتویٰ ہے۔