Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: October 26, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
14 Min Read
SHARE
 س:- کیا عورت کی خودکمائی ہوئی جائداد شوہر کے نام پر رکھنی جائز ہے کہ نہیں ۔ اگر دونوں میاں بیوی کماتے ہوں تو بچوں کے بنیادی ضروریات پوراکرنا کس کا فرض بنتاہے ؟
ارجمند اقبال…سرینگر

اولاد اور زوجہ کاخرچہ کی تمام ذمہ داری شوہرپر

جواب:-اولاد کے تمام خرچے باپ پرلازم ہوتے ہیں چاہے زوجہ یعنی بچوں کی ماں کے پاس کافی جائیداد اور رقم ہو ۔ اورچاہے وہ خود بھی کماتی ہولیکن بچوں کانفقہ شریعت اسلامیہ نے بھی اور قانون میں بچو ں کے باپ پر ہی لازم ہے ۔اگریہ باپ مالی وسعت کے باوجود ادائیگی میں کوتاہی کرے تو یہ اولاد کی حق تلفی کرنے والا قرارپائے گا اور اگر باپ اپنی مالی وسعت کے بقدر خرچ کررہاہے مگر آج کے بہت سارے خرچے وہ ہیں جو صرف مقابلہ آرائی اور تنافس (Competition)کی وجہ سے برداشت کرنے پڑتے ہیں ۔ وہ خرچے اگرباپ نہ کرے تو وہ نہ گنہگارہوگا اور نہ ہی حقوق العباد کے ضائع کرنے والا قرار پائے گا ۔
زوجہ کومجبورکرنا کہ وہ اپنی کمائی بچوں پر یا گھر پر ضرور کرے۔یہ شرعاً بھی غلط ہے ، غیرت کے بھی خلاف ہے اور عقل واخلاق سے بھی غلط ہے۔لیکن اگر کوئی خاتون اپنی خوشی ورضامندی سے اپنے گھریا اپنے بچوں پر اپنی آمدنی صرف کرے تو اُس میں نہ کوئی حرج ہے نہ یہ کوئی غیرشرعی چیزہے ۔کمائی ہوی آمدنی بہرحال کہیں نہ کہیں تو خرچ ہونی ہی ہے ۔ اگر اپنی اولاد پر خرچ ہو تو کیا مضائقہ ہے ۔
زوجہ کی کمائی پر شوہر کا کوئی حق نہیں ہے اور اگر شوہر زوجہ کو مجبورکرے کہ وہ اپنی کمائی ہوئی جائیداد کوشوہر کے نام پر ہی اندراج کرائے تو یہ سراسر غلط ہے اور عورت اگر اس کا انکار کرے تو شوہرجبر نہیںکرسکتااور عورت کا انکاربھی نہ غیر شرعی ہے نہ غیراخلاقی ہے۔لیکن اگرعورت برتر اخلاق کا مظاہرہ کر اور دُوراندیشی ،وسعت ظرفی ،دریادلی کامظاہرہ کرے ۔ اپنا اوراپنے بچوں کا مستقبل بچانے کے لئے اگر وہ جائیداد بچوں کے نام پر اندراج کرائے ،شوہر کی بے جا ضد کوصرف اپنی اور بچوں کی زندگی کو تلخیوں سے بچانے کے لئے قبول کرے اور جائیداد اُسی کے نام اندراج ہوجائے تو اس میں دینی ، دینوی طرح طرح کے فائدے ہوں گے ۔ سوچئے اگر یہ جائیداد عورت کے نام پر رہی تو آگے اس کا حق اولاد کا ہی ہوگا اور اگر جائیداد باپ کے نام پر رہی تو بھی یہ آئندہ اولاد ہی کا حق ہوگا۔لیکن شوہر کو بھی یہ بات ٹھنڈے دل سے سوچناچاہئے کہ اُس کے بچوں کی ماں نے آج تک اُس کے بچوں پر کتنا خرچ کیا اور یہ سب بہرحال اُس کا احسان،جس کا اعتراف نہ کرنا ناشکری ہے اور آگے یہ سوچیں کہ اگر کمائی زوجہ کی ہے تو یہ غلط اصرار کیسے دُرست ہوگاکہ یہ جائیداد شوہرکے نام پر اندراج ہو۔وہ ٹھنڈے دل سے یہ بھی سوچے کہ اگر وہ جائیداد زوجہ کے نام پر ہی اندراج ہو تو بھی آئندہ یہ اُس کے بچوں کا ہی حق ہوگا۔اس لئے اپنے گھرکوتلخیوں سے بچانے اور اپنی زوجہ وبچوں کو ذہنی وجسمانی سکون دینے کے لئے دُوراندیشی اوروسعت قلبی کا روّیہ اپنائے او رزوجہ پر بے جااصرار نہ کیا جائے ۔
خلاصہ یہ کہ زوجہ کی کمائی زوجہ کی ہے ۔ اگر وہ اپنی خوشی ورضامندی سے بچوں یا گھر پراپنی آمدنی صرف کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔اگر وہ خرچ نہ کرے تو شوہر کاجبر کرناغیرشرعی ہے۔
عورت اگراپنی رضامندی سے اپنی کمائی اپنے شوہر کے نام رکھے تو شرعاًاس میں کوئی حرج نہیں ۔ اگر وہ خوشی سے اس پر آمادہ نہ ہو تو اصرار وجبر کرنا غیر شرعی ہے ۔بچوں کا باپ اور ماں اگر دونوں کماتے ہوں تو بھی بچوں کا تمام تر خرچہ بچوں کے باپ پر لازم ہوگا۔ اگر ماں اپنی اپنی آمدنی میں سے اپنے بچوں پر خرچ کرے تو یہ بھی کوئی غیرشرعی نہیں ہے ۔٭٭
 
س:-موسم سرما میں مساجد کے حمام گرم رکھنے کے لئے ،جن سے نمازیوں کے وضو کے لئے پانی بھی گرم ہوجاتاہے ، محکمہ جنگلات کی طرف سے سستے داموں ایندھن فراہم کیا جاتاہے ۔مگر اکثر یہ دیکھنے میں آتاہے کہ فراہم کئے جانے والے ایندھن کی مقدار پورے موسم سرما کے لئے نامکتفی ہوتی ہے ۔ کچھ مساجد کے منتظمین صلاح و مشورہ کرکے اس بالن کی چھانٹی کرکے کچھ ایسے ٹکڑے ، جو قدرے صاف ہوتے ہیں اور سستے قسم کا تعمیری میٹریل فراہم کرنے کے لائق ہوتے ہیں، الگ کرکے فروخت کرتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اس کے عوض مسجد والوں کو قیمت خرید سے زیادہ رقم ملتی ہے ۔ چنانچہ اس رقم سے سستے قسم کا ایندھن خرید کر سرمائی ضروریات کو پورا کیا جاتاہے۔کیا شرعی اعتبار سے یہ عمل جائز ہے ؟
عبدالمجید شگو

مساجد کے حمام اور ایندھن کی ضروریات :

ایک اہم مسئلہ
ج:ـ-مساجد میں گرمی کا انتظام کرنے کے لئے وادیٔ کشمیر میں گورنمنٹ کی طرف سے جو لکڑی بغرض ایندھن فراہم کی جاتی ہے اس لکڑی میں اگر کچھ تعمیراتی ضرورت میں استعمال ہونے کے قابل کچھ لکڑی ہو تو مساجد کے منتظمین کے لئے شرعاً یہ بات جائز ہے کہ وہ اُس لکڑی کو فروخت کریں اوراس کی قیمت سے مساجد کے لئے مزید ایندھن خریدیں۔
دراصل گورنمنٹ ایندھن کی غرض سے مساجد کے لئے جو لکڑی فراہم کرتی ہے تو مساجد بطور ایک ادارۂ وقف کے اُس کا مالک بن جاتی ہے۔ اس کے منتظمین جو درحقیقت متولی ہوتے ہیں جب اس لکڑی کو فروخت کرنے اور اس کے عوض میں دوسری زائد مقدار کی لکڑی حاصل کرنے میں بہتری سمجھتے ہیں تو یہ اسلامی وقف کا غلط استعمال نہیں بلکہ اس کا مفید اور نسبتاً زائدنفع بخش جائز تصرف ہے ۔
یہ ایسا ہی ہے کہ کسی شخص نے کسی غریب کو ایک ہزار کی رقم بصور صدقہ دی اوریہ کہا کہ اس سے اپنے لئے گرم بسترہ کا انتظام کرو اور اُس غریب شخص نے سوچا کہ اس رقم سے مشکلاً ایک گرم بستر بن سکے گا۔ جب میرے بچے گرم کپڑوں کے لئے محتاج ہیں لہٰذا اُس نے اُس رقم سے گرم بستر کے بجائے گرم کپڑے اپنے اہل وعیال کے لئے بنائے۔ اس صورت میں زیادہ افراد کو اس رقم کا فائدہ پہنچے گا ۔جیسے یہ جائز ہے ۔اسی طرح لکڑی کا مسئلہ ہے۔
یا مثلاً کسی شخص نے کسی مفلس کو مکان کی کھڑکیوںکے لئے پردہ لٹکانے کا کپڑا دیا جو پورے مکان کے لئے ناکافی تھا۔ اُس نے وہ کپڑا فروخت کردیا اور اس کی قیمت سے نسبتاً سستا کپڑا خریدا جو پورے مکان کی کھڑکیوں کے لئے کافی ہوگیا تو ایسا کرنا اُس کے لئے جائز ہے ۔ اسی طرح گورنمنٹ کی طرف سے فراہم کردہ لکڑی پورے سردی کے موسم کے لئے اگر ناکافی ہوا اس لئے مسجد کی انتظامیہ اس میں ایسی لکڑی جو قدرے بہتر ہونے کی وجہ سے تعمیری کام میں لائے اور بالن کے مقابلے میں بہتر قیمت وصول کرسکے ، اسے الگ کرکے فروخت کرکے اور اس کی قیمت سے اتنی زائد مقدار کی جلانے کی لکڑی حاصل کریںجو پورے موسم سرما کے لئے کافی ہوجائے تو یہ ہرگز غلط نہیں ہے۔
اس سلسلے میں کچھ اہم افسران سے جب یہ استفسار کیا گیا کہ آپ کو اس طرزِ عمل پر کوئی اعتراض ہے کہ مساجد کو دی جانے والی لکڑی کا بہتر حصہ فروخت کرکے اس کے عوض نسبتاً زائد مقدارکا ایندھن حاصل کیا جائے؟ تو ان کا جواب تھاکہ ہم کو اس پر کیا اعتراض ہوسکتاہے ۔اگر ہم ہی مسجد کے منتظم ہوں اور اس میں ایسا کرنے میں فائدہ محسوس ہو تو ہم خود ایسا کریں گے ۔ گورنمنٹ اپنے اصول کے مطابق جلانے کی لکڑی فراہم کرتی ہے اُس کے بعد مسجد کے منتظمین اور نمازی خود مختار ہیں کہ اس لکڑی کا استعمال کیسے کریں ۔ 
اس صورتحال میں خلاصہ یہ ہے کہ مسجد کے نمازیوں کو پورے موسم سرما میں گرم پانی اور صوفہ وحمام کوگرم رکھنے کے لئے اس لکڑی کو فروخت کرکے سستی لکڑی جو صرف ایندھن بن سکے ،خرید ناجائز ہے ۔اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے اور اگر کچھ رقم بچ جائے تو اس کو مسجد کی دوسری ضروریات کے لئے بھی استعمال کرنا درست ہے ۔ اسلئے کہ یہ مسجد کی ہی رقم ہے جواسی میں صرف کی جارہی ہے ۔
……………..
سوال:- کبھی اختلاف کی وجہ سے نکاح سے قبل طے شدہ رشتہ پہلے ہی مرحلے پر ٹوٹ جاتاہے اس کے بعد اختلاف اس پر ہوتے ہیں کہ جو تحفے تحائف لئے دیئے ہوئے ہیں اُن کا حکم کیا ہے ۔بعض دفعہ ایک فریق دوسرے سے جرمانے کا مطالبہ کرتاہے اور جو تحفے زیورات وغیرہ ہوتے ہیں ان کے بارے میں بھی شدید نزاعات ہوتے ہیں ۔اسی طرح کھلانے پلانے کا جو خرچہ ہوا ہوتاہے اس کے لئے بھی مطالبہ ہوتاہے کہ اس کی رقم بصورت معاوضہ ادا کیا جائے ۔
اس بارے میں شرعی اصول کیا ہے؟
محمد یونس خان

نکاح سے قبل طے شدہ رشتہ 

ٹوٹنے پرتحائف کی واپسی کا مسئلہ 

 
جواب :-نکاح سے پہلے جو تحائف دئے جاتے ہیں۔ اُن کی حیثیت شریعت میں ہبہ باشرط یا ہبہ بالعوض کی ہے ۔ یعنی یہ تحائف اس شرط کی بناء پر دئے جاتے ہیں کہ آئندہ رشتہ ہوگا ۔
اب اگر آگے نکاح ہونے سے پہلے ہی رشتہ کا انکار ہوگیا تو جس غرض کی بناء پر تحفے دیئے گئے تھے وہ چونکہ پوری نہیں ہوئی ۔ اس لئے یہ تحفہ کی اشیاء اُس شخص کی ملکیت نہیں بن سکیں جس کو وہ چیزیں دی گئی ہیں ۔ جب وہ اِن اشیاء کا مالک نہیں بنا توپھر اس سے وہ اشیاء واپس لینا درست ہے ۔
لیکن یہ حکم ایسے تحائف کے متعلق ہے جو موجود ہوں اور جو ختم ہوگئے ہوں مثلاًکھانے پینے کی اشیاء یا دعوتوں کے پُرتکلف کھانے تو وہ واپس لینا اور دینا درست نہیں ہے ۔ 
یہاں کشمیرکا عرف بھی یہی ہے کہ نکاح سے پہلے جو چیزیں لی اور دی جاتی ہیں  اگر رشتہ ٹوٹ جائے تو وہ اشیاء واپس کی جاتی ہیں ۔ اس عرف کا مقتضیٰ بھی یہی ہے کہ نکاح سے پہلے دی گئی اشیاء واپس کر دی جائیں ۔
کھانے پینے کا معاوضہ بصورت رقم لینا ہرگز صحیح نہیں ہے ۔ اس لئے کہ کھلاتے وقت یہ دعوت تھی اور کھانے کا عوض مانگنا اُسی وقت درست ہے جب پہلے سے طے کیا گیا ہو ۔جیسے ہوٹل میں ہوتاہے ۔ پھر دعوت کا کھانا خود اپنے گھروالے اور اپنے عزیز واقارب بھی کھاتے ہیں تو کیا اس پورے کھانے کا معاوضہ اُن سے لینا درست ہوسکتاہے ؟ ظاہرہے کہ نہیں ۔ 
نکاح سے پہلے دئے گئے تحائف کے واپس کرنے کا مسئلہ اور دعوتوں میں کھانے پینے اور ماکولات ومشروبات (مثلاً مٹھائیاں ، کیک ، بیکری ،پیسٹری ،پھلوں کے ٹوکرے ،جوس کے ڈبے ، چاکلیٹ ، ڈرائی فروٹ وغیرہ) کے واپس نہ کرنے کا مسئلہ فتاویٰ قاضی خان درمختار کی شرح شامی اور فتاویٰ محمودیہ وغیرہ میں تفصیل سے لکھاہواہے ۔
 
سوالات بھیجنے کا پتہ’’کشمیرعظمیٰ‘‘
پوسٹ باکس نمبر 447جی پی او سرینگرجی ،کے،کمیونی کیشنز،۶ پرتاپ پارک، 
ریذیڈنسی ،روڈ سرینگرفیکس نمبر:2477782
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Elvis The new Queen Lifetime Video slot Enjoy Totally free WMS Online slots
Nordicbet Nordens största spelbolag med gambling enterprise och possibility 2024
blog
Elvis the new king Gambling establishment Online game Courses
Find Better On the web Bingo Web sites and you may Exclusive Also provides in the 2025

Related

جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 10, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

July 3, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

June 26, 2025
جمعہ ایڈیشن

کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

June 19, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?