سوال:ـ۔اب چونکہ وادی کے مسلمان کاریگر اور ہنر مند کاریگری کے مختلف امور سے دور بھاگ رہے ہیں اور عام انسان باہر کے کاریگر کو ہی اپنے گھروں راج مستری ،ترکھانی ، رنگ و روغن یا اور کوئی کام کرانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ کیا ہم ان لوگوں کو مسجد پاک کے رنگ و روغن وغیرہ کے کام پر استعمال کرسکتے ہیں، اس کے باوجود کی ہمیں ان کے مذہب اور عقائد کے بارے میں پورا علم نہ ہو۔؟
سوال:۔ فجر نماز کی دو رکعت فرض سے پہلے دو رکعت سنت کے علاوہ کیا اور کوئی نماز پڑھ سکتے ، مثلا تحیتہ المسجد اور تحیتہ الوضو وغیرہ؟
مشتاق احمد جانباز
امیراکدل سرینگر
غیر مسلم کاریگر سے مسجد میں کام کرانے میں شرعی ممانعت نہیں
جواب:۔مسجد شریف کے تعمیراتی کام کے لئےا فضل اور بہتر یہی ہے کہ مسلمان اور دیندار مسلمان کاریگر اور مزدوروں سے کام کر ایا جائے۔ اس لئے کہ ایک مسلمان اور تقویٰ شعار مسلمان سے یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ عقیدت اور عظمت کے جذبہ سے اللہ کے گھر کی تعمیر کرے گا۔ لیکن اگر مسلمان مزدور دستیاب نہ ہوںاور مجبور ہو کر کسی غیر مسلم مزدور سے کام کرایا جائے تو شرعاً اس میں کوئی ممانعت نہیں ہے۔ بیت اللہ شریف یعنی خانہ کعبہ کفار مکہ کا تعمیر کردہ تھا اور اسی کعبہ میں اللہ کے مقدس نبی سرور عالم ﷺ نے پوری حیا۸ت مبارکہ میں نمازیں ادا کیں۔ حتیٰ کہ فتح مکہ کے بعد بھی آ پ ﷺ نے اس کفار کےہاتھوں تعمیر شدہ کعبہ کی تعمیر نو نہیں کرائی۔ پھر یہی کعبہ پورے خلافت راشدہ کے عہدمیمونمیں برقرار رکھا گیا۔ دور فاروقی اور دورِ عثمانی میں مسجد نبوی کی توسیع اور ضرورت کی بنا پر تعمیر جدید بھی کی گئی مگر کعبہ شریف کوجوں اور توں برقرار رکھا گیا۔ خلافت راشدہ کے بعد کعبہ شریف کی تعمیر جدید حضرت عبداللہ بن زبیر کی زیر نگرانی ہوئی تو جب کفار مکہ کے صرفہ سے اور انہی کے ہاتھوں تعمیر شدہ کعبہ پورے دور رسالت اور خلافت راشدہ کے عہد برقرار رہا۔ تواسی لئے آج کسی مسجد میں اگر غیر مسلم مزدور سے کام کرایا جائے تو شرعاً ممانعت نہیں مگر مستحسن عمل یہی ہے کہ مسلمان مزدور کو ہی کام پر لگایا جائے ۔
اذانِ فجر کے بعد نوافل کا مسئلہ
جواب:۔اذان فجر کے بعد صرف دو رکعت سنت پڑھنا درست ہے اس کے علاوہ کوئی نفل نماز آفتاب نکلنے تک نہ فرض سے پہلے اور نہ بعد میں پڑھنا صحیح ہے۔ تحیتہ المسجد اور تحیتہ الوضو بھی نہیں پڑھ سکتے ۔
سوال:۔ کیا آوارہ چندہ کرنا جائز ہے۔مثلاً چندہ کرانے والے راستے میںروکتے ہیں کسی مسجد کے لئے راستے میں چند ہ جمع کرنا جیسے راہ چلتے آدمیوں کو روکنا ، گاڑیوں کو روکناجائز ہے۔؟
سوال:۔ قرآن پاک کی ہر سورۃ کے بارے میں کچھ عبارتیں لکھی ہیں ۔کیا ہم ان پر عملدرآمد کریں،جیسے صورہ فاتحۂ کے بارے میں لکھا ہوا ہے کہ آپ علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا’’الفاتحہ شفاء لکل داء‘‘ کیا اور کوئی سورہ بھی مثلاً غنی ہونے ،عقلمند ہونے، صحت مند ہونے کےلئے استعمال کرسکتے ہیں یا پڑھ سکتے ہیں؟۔
سوال:۔ کیا کوئی قرآنی آیت لکھ کر گلے میں لٹکانے کےلئے یا پانی پر دم کرکے شفا ہونے کےلئے دے سکتے ہیں اور یہاں ہمارے علاقہ میں چند درویش نما لوگ ہیں جو لوگوںسے پیسے اینٹھتے ہیں۔ کچھ لوگ یوں بھی کہتے ہیں کہ مکان کے چار کونوں کی مٹی لائو اور ہم وہاں سےجادو، سحر و غیرہ ختم کرینگے۔ یہ سب جھوٹ ہوتا ہے اور اسکا شرعی حکم کیا ہے۔اس کی وجہ سے یہ لوگ عام فہم عوام سے بے حساب پیسہ، مال بھیڑ، بکریاں اور دیگر مویشیوں کی صورت میں حاصل کرتے ہیں،توکیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے۔؟
شمیم احمد بٹ ولد محمد اکبر بٹ
ساکن کچھی پورہ ضلع کپوارہ
چندہ کرنے کو بھیک کی شکل دینا قبیح عمل
جواب:۔ چندہ چاہئے مساجد کےلئے ہو یا مدارس کےلئے یا کسی دوسرے فلاحی ادارے کےلئے ہر قسم کے عوامی چندے کو بھیک مانگنے کی شکل دینا شرعاً سخت قبیح ہے۔ دنیا میں کسی بھی جگہ کے مسلمان ،چاہئے وہ غیر مسلم معاشرے میں رہتے ہو ں یا کتنے مفلوک الحال ہو ں ، کبھی بھی مساجد ،مدارس اور دوسرے اداروں کےلئے سڑکوں پر، چوراہوںپر، اسپتالوں یا گاڑیوں میں چندہ نہیں کرتے ۔اس لئے اس طرح چندہ کرنے سے پرہیز کیا جانا چاہئے۔ افسوس کہ بھیک مانگنے کی طرح چندہ کرنے کا یہ قابل ترک عمل صر ف وادی کشمیر میں ہوتا ہے، باقی دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ اس لئے مساجد کی تعمیر کا جذبہ رکھنےوالے سیدھی سادی مٹی اور کچی اینٹوں کی تعمیر پر اکتفا کریں ۔ مگر پختہ و مضبوط تعمیر کے شوق میں سڑکوں پر چندہ کرنے سے اجتناب کریں۔ سڑکوں پر اورگاڑیاں روک کر چندہ حاصل کرنا بعض اوقات چندہ کو مشکوک بنا دیتا ہے۔ خصوصاً جب گاڑی میںبیٹھے لوگ بادل ناخواستہ جان چھڑانے کےلئے چندہ دینے پر مجبور ہو جائیں اورجو کچھ دیں وہ دل کی رضاسے نہ دیںتو یہ چندہ مشکوک ہے۔
قرآن کے حقوق میں صرف دنیوی اغراض کی تکمیل نہیں
جواب :۔ قرآن کریم کی مختلف سورتوں یا آیات کے متعلق یہ جو لکھا ہوا ہوتا ہے کہ اس آیت یا سورۃ سے فلاں پریشانی دور ہوگی، ا س کو خواص القرآن کہتے ہیں۔ مثلاً سورہ فاتحہ کو سورہ شفاءکہاگیا ہے۔ ان پر عمل کرنا درست ہے ۔ چنانچہ ایک صحابی ؓ نے سانپ کے کاٹے ہوئے شخص پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور وہ شفایاب ہوگیا۔ یہ واقعہ بخاری شریف میں ہے۔ اسی طرح دوسری آیات کو بھی اپنی مختلف ضروریات و پریشانیوں میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ قرآن کتاب ہدایت ہے ،وہ عمل کرنے کےلئے نازل کیا گیا ہے ۔ صرف جھاڑ پھونک پر اکتفا کرنا قرآن پر ظلم ہے۔ قرآن کے حقوق میں تعلیم، تلاوت، عمل، تفہیم اور تبلیغ ہے صرف دنیوی اغراض کی تکمیل نہیں ہے۔ افسوس کہ مسلمان قرآن مقدس کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بجاے اس سے ہدایت لینے کے بجائے صرف اس سے اپنے دنیوی اغراض پورا کرنے پر اکتفا کرنے کامزاج اپنارہے ہیں۔ جب کہ خود قرآن اور احادیث میں قرآن سے بے اعتنائی برتنے پر سخت ترین وعید یں ہیں، اس لئے قرآن کریم کے اصل حقوق مقدم ہیں وہ اوپرا جمالاً نقل کئے گے ۔ بہر حال قرآن کریم کی آیات شفاء پڑھ کر پانی پر دم کرکے کسی مریض کو پلانا درست ہے۔ اسی طرح سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرنا یا پانی پر دم کرنا اور پھر پلانا درست ہے۔
سحر کا علاج کرنے سے پہلے ماہر کے متعلق معلومات حاصل کرنا ضروری
سحر کا علاج کرنے کےلئے لوگوں کو ڈرانے اور پھر طرح طرح کے غیر شرعی طریقے اپنانے کےلئے کبھی سرخ مرغ ،کبھی کالا بھیڑ منگوانا، کبھی مٹی منگوا کر جادو مٹانے کے نام پر رقمیں وصول کرنا صرف پیسے کمانے کا کام ہے۔ جو لوگ نظر بد ہٹانے ، سحر کو دور کرنے یا جنات سے چھٹکارہ دلانے کےلئے اس طرح پیسہ کمانے کا کام کرتے ہیں ان کو پہلے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ یہ پیسہ لینا جائز بھی ہے یا نہیں اور عوام کو بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا واقعتاً یہ شخص اس علاج کا ماہر ہے بھی یا صرف یہ دھوکہ بازی ہے اور صرف تو ہماتی استحصال ہے۔
سوال:۔ اگر کوئی انسان کہیں پر (زمین) یعنی کھیت یا میدان میں نماز پڑھے وہاں گھاس ہوتی ہے، جب سجدہ کرتا ہے تو آنکھیں کھلی نہیں رہ سکتی ہے کیونکہ اس میں یہ اندیشہ بھی ہوتا کہ گھاس کا تنکاکہیں آنکھ میں نہ چبھ جائے اس بارے میں کیا شرعی حکم ہے۔؟
ایک بندہ خدا
بصورتِ عذر نماز میں آنکھیں بند کرنے کی اجازت
جواب:۔جب کوئی شخص ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں گھاس ہو اور گھاس کے تنکوں سے آنکھ کو زخم لگنے یا چھبنے کا خطرہ ہو تو آنکھ بند کرکے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شرعی طور پر نماز کا اصل طریقہ یہ ہے کہ آنکھیں کھلی رکھ کر نما ز پڑھی جائے مگر کسی عذر کی وجہ سے آنکھیں بند کرنے کی بھی اجازت ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص نماز میں دھیان قائم رکھنے یاخشوع برقرار رکھنے کےلئے آنکھیں بند کرکے نما زپڑھے تو اس میں حرج نہیں۔ اسی طرح اگر سجدہ کسی گھاس پر کرنے کی نوبت آئے تو آنکھیں بند رکھنے کی اجازت ہے تاکہ آنکھ گھاس کے تنکوں سے محفوظ رہے۔
سوال:۱-چست لباس پہننے کا رجحان عام ہورہاہے ، خاص کر زین پینٹ،جس میں بیٹھ کر پیشاب پھیرنا مشکل ہوتاہے تو لوگ کھڑے ہو کر پیشاب پھیرتے ہیں ۔ اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟
سوال:۲-متعدد لوگ پیشاب پھیرتے وقت اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ جس طرف منہ کرکے وہ پیشاب کررہے ہیں کہیں اس طرف قبلہ تو نہیں ؟اس کے بارے میں کیا حکم ہے ۔
فاروق احمد خان …سرینگر
چست لباس کے بارے میں شرعی حکم
جواب:۱-ایسا تنگ لباس جس میں جسم کا حجم خاص کر ران اور سرین کا پورا نشیب وفراز ظاہر ہو یہ لباس غیر شرعی ہے۔اس غیر شرعی لباس کا ایک خطرناک نقصان یہ ہے کہ جب پیشاب کرنا ہو تو چونکہ سخت چست ہونے کی وجہ سے بیٹھنا مشکل ہوتاہے اس لئے کھڑے ہوکر ہی پیشاب پھیرنا پڑتاہے ۔ اب دیکھئے حدیث میں کیا ہے ۔
بخاری شریف میں حدیث ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوقبروں کے پاس سے گزرے۔ پھر آپ نے ان دونوں قبروالوں کے متعلق فرمایا ان کوعذاب ہورہاہے۔ایک کو اس وجہ سے کہ یہ پیشاب کی چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا ۔
کھڑے ہوکر پیشاب کرنے پر لازماً کپڑوں اور پائوں پر چھینٹیں آتی ہیں اور اس طرح وہ عذاب کا مستحق ہوجاتا ہے۔دوسری حدیث جو ترمذی میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے روایت کی کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ جناب رسول اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر پیشاب کرتے تھے تو ہرگز یہ بات مت ماننا۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ بیٹھ کر پیشاب کرتے تھے ۔ حضرت علامہ انورشاہ نے فرمایا کھڑے ہو کرپیشاب کرنا کفار کا شعارہے ۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے ہرگز یہ جائز نہیں کہ وہ دوسری قوموں کا شعار اختیار کرکے کھڑے ہوکرپیشاب کریں۔
قبلہ رو ہوکرپیشاب پھیرنا حرام
جواب:۲- بخاری ، مسلم ، ترمذی، ابودائود ، نسانی ، ابن ماجہ اور دوسری تقریباً تمام حدیث کی کتابوں میں ہے ۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم غائط (پیشاب پاخانہ کی ضرورت پوری کرنے کی جگہ) میں جائو تو نہ تو قبلہ کی طرف منہ کرنا اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرنا۔
اس لئے جب گھروں میں یا دفتروں میں پیشاب خانے یا بیت الخلاء بنائے جائیں تو وہ شمالاً جنوباً بنائے جائیں تاکہ قبلہ کی طرف نہ تو منہ ہو جائے نہ پیٹھ ہو۔ اسی طرح جب کوئی کھلی جگہ پر پیشاب کرے تو قبلہ کی طرف نہ استقبال کرے نہ بیٹھ کر کرے۔حدیث کی ممانعت کی وجہ سے یہ حرام ہے اور شعائر اللہ کعبہ کی توہین کی وجہ سے یہ زیادہ خطرناک ہے ۔