سوال :۔ گناہ کبیر ہ کسے کہتے ہیں اسکی معافی کی کیا صورت ہے کسی ایسی کتاب کا نام بتائے جن میں گناہ کبیر کی ساری تعداد موجود ہو۔ اگر ایسی کوئی کتاب فی الحال دستیاب نہ ہو تو آپ خود گناہ کبیر کی مکمل تعداد تحریر فرما کر پوری امت مسلمہ پر اور خاص کر ہم اہل کشمیر پر احسان فرمائیے۔
محمد ادریس بٹ
گناہِ کبیرہ
جواب :۔ قرآن و حدیث میں جن کاموں کو سختی سے منع کیا گیا ہے یا جن کاموں پر اللہ کے غضب یا جہنم کی وعید سنائی گئی ہے وہ کام گناہ کبیرہ کہلاتے ہیں۔
ان گناہوں کی تعداد مختلف علمائے امت نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مختلف بیان فرمائی ہیں۔ اس کی مختلف علمی وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ تعداد بیان کرنے میں رائیںمختلف ہوئیں۔ اہم گناہ کبیرہ کے متعلق سب کا اتفاق ہے۔
علامہ شمس الدین ذہبی ؒنے اپنی مشہور کتاب الکبائر اور علامہ ابن نجم مصریؒ نے گناہ ِ کبیرہ کی جو تعداد بیان فرمائی ہے وہ ذیل میں درج کی جارہی ہے۔ ان گناہوں میں سب سے پہلا اور سب سے بڑا گناہ شرک ہے۔ مگر یاد رہے شرک کی دو قسمیں ہیں۔ ایک شرک اکبر اور ایک شرک اصغر۔شرک اکبر وہ شرک ہے جو مومن کو ایمان کے زمرے سے خارج کردیتا ہے۔ اس کے متعلق قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو ہرگز معاف نہ کریں گے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے۔ شرکِ اصغر وہ شرک کہلاتاہے جو انسانی کو ایمان سے تو خارج نہیں کرتا مگر یہ یہ گناہِ کبیرہ ہے۔ جیسے حدیث میں ریا کو شرک کہا گیا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص دکھلائے کہ نماز ،روزہ یا نمود و نمائش اور ستائش پانے کیلئے صدقہ خیرات کرے تو یہ شرک ہوگا، مگر یہ شرک اصغر ہوگا۔جن گناہوں کو قرآن کریم کی کسی آیت کی بنا پر کسی حدیث صحیح کی وہ سے کبیرہ قرار دیا گیا ہے وہ گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ معاف نہ فرمائے تو ایک بھی گناہ جہنم میں لے جانے کیلئے کافی ہے۔ اب دنیا میں ایک ہی صورت ہے کہ بندہ ان گناہ کے کاموں کو فوراً چھوڑدے اور پچھلے کئے ہوئے پر معافی طلب کرے اور آئندہ بچنے پر عزم کرے اور پرہیز کرنے پر پورا ہتمام کرے۔
بعض گناہ صغیرہ بھی ایسے ہیں کہ ان کو مسلسل کریں گے تو وہ اس شخص کے حق میں کبیر ہ بن جاتے ہیں۔
بعض گناہ کبیر ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ کچھ لوگوں کے حق میں گناہ نہیں ہوتے۔
مثلاً نا بینا شخص کسی نا محرم عورت کو دیکھنے کی قدرت ہی نہیں رکھتا تو اس کے حق میں یہ گناہ شمار نہیں ہوگا۔ کیونکہ کہ وہ اس کے ارتکاب کرنے کا اہل نہیں یا کوئی نامرد شخص زنا کاری کی قدرت ہی نہیںرکھتا۔ اسی طرح بعض گناہ کبیرہ مخصوص حالات کے ساتھ جڑ ے ہوئے ہوتے ہیں۔ مثلاً جہاد سے فرار ہونا۔ اب جہاں شرعی جہاد نہ ہو تو فرار کا سوال ہی نہ ہوگا۔ یا جھوٹی گواہی دینا ۔کہ جس شخص کو اس کی نوبت ہی نہ آئے تو اس کو اس کا ارتکاب کنندہ قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ یا جیسے غلام کا فرا ر ہونا گناہ کبیرہ ہے مگر اب کہیں کوئی غلام نہیں گناہ کبیرہ کی اس فہرست میں کچھ گناہ تو ایسے ہیں جن کا تعلق خالص اللہ کی ذات کے ساتھ ہے جیسے نماز روزہ تر ک کرنا ۔ کچھ کاتعلق دوسرے انسانوںکے ساتھ اُن میں توبہ کرنے کے ساتھ اُن کا حق ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ مثلاً چوری یا غبن میں توبہ کے ساتھ ساتھ وہ مال مالک کو واپس کرنا ضروری ہے۔ یا رشوت لے کر صرف توبہ کافی نہیں بلکہ وہ رقم واپس کرنا لازمی ہے۔
قرآن و حدیث میں کسی ایک ہی مقام پر تمام کبیرہ گناہوں فہرست بیان نہیں ہوئی ہے۔ بلکہ یہ ہر ہر شعبہ زندگی سے متعلق عنوانات اور ابواب کے تحت بیان ہوتے ہیں۔
اب ذیل میں گناہوں کی یہ فہرست ملاخط ہو انسان اس کو دیکھ کر سوچے کہ جن گناہوں سے وہ محفوظ ہے اُس پر اللہ کا شکرادا کرے اور آئندہ بھی محفوظ رہنے کا عزم کرے۔ اور جن میں وہ مبتلا ہے اُن کو فوراً ترک کرنے کی کوشش کرے۔ تدبیر کرے۔ ترک کرنے کا علاج ڈھونڈے اور اگر ترک نہ کر پائے تو کسی روحانی مصلح سے تعلق جوڑے ساتھ ہی گناہوں کے تنائج کو سوچے جیسے ذیابیطس کے مریض کو جو ں ہی اس کا پتہ چل جاتا ہے کہ اس کو شوگر ہوگیا تو فوراً ترک کر دیتا ہے۔ (۱) شرک کرنا(۲) والدین کی نافرمانی کرنا(۳) کسی کو ناحق قتل کرنا(۴) عمداً نماز ترک کرنا،(۵) عمداً رمضان کے روزے چھوڑنا(۶) روزہ رکھ کر بلا عذر توڑ دینا(۷) حج فرض ہونے کے باوجود نہ کرنا(۸) سودی لین دین کرنا یا اس کا کاتب بننا(۹) ظلماً یتیم کا مال کھانا(10) میدان جہاد سے فرار ہونا(۱۱) حاکم کا عوام پر ظلم کرنا(۲۱) تکبر کرنا(۳ا) چھوٹی گواہی دینا یا گواہی چھپانا(۱۴) شراب پینا(۱۵) جوا کھیلنا (۱۶) چوری کرنا(۱۷) کسی عورت پر تہمت لگانا(۱۸) مال غنیمت پر خیانت کرنا(۱۹) ڈاکہ مارنا(۲۰) جھوٹی قسم کھانا(۲۱) کسی پر ظلم کرنا(۲۲) ٹیکس وصول کرنا(۲۳) حرام مال کھانا پینا یا پہننا(۲۴) جھوٹ بولنا(۲۵) قانون شرعی کیخلاف فیصلہ کرنا(۲۶) رشوت لینا(۲۷) عورتوں کا مردوں یا مردوں کا عورتوں جیسا لباس پہننا(۲۸) داڑھی مونڈنا(۲۹) خیانت کرنا(۳۰) اہل و عیال کا فحش کاموں میں مبتلا ہو اور اصلاح کی فکر نہ کرنا(۳۱) بلا ضرور ت حلالہ کرنا (۳۲) پیشاب سے پرہیز نہ کرنا(۳۳) دکھلاوے کے اعمال کرنا(۳۴) حسن سلوک کرکے احسان جتلانا(۳۵) دنیا کمانے کیلئے دینی علم حاصل کرنا(۳۶) علم دین چھاپانا(۳۷) تقدیر کو جھٹلانا(۳۸) تجسس کرنا(۳۹) چغلی کرنا(۴۰) کس پر لعنت کرنا (۴۱) جادو سیکھنا یا جادو کرنا(۴۲) زنا کرنا، اغلام کرنا(۴۳) رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنا(۴۴) زکوٰۃ نہ دینا(۴۵) دھوکہ دینا(۴۶) کاہن و منجم کی خبروں کی تصدیق کرنا(۴۷) شوہر کی نافرمانی کرنا(۴۸) تصویریں بنانا(۴۹) کسی کی موت پر نوحہ کرنا ، منہ پیٹنا(۵۰) سر کشی کرنا ۔ اللہ کا باغی بننا (۵۱) مخلوق کو ستانا(۵۲) پڑوسی کو تکلیف دینا(۵۳) مسلمانوں کو تکلیف دینا(۵۴) خاص اللہ کے بندوں کو ستانا(۵۵)مردوں کا ریشمی لباس پہننا (۵۶) غلام کا فرار ہونا (۵۷) غیر اللہ کے جانور ذبح کرنا(۵۸) کسی اور کو اپنا باپ بنانا (۵۹)فساد کے طور پر لڑائی کرنا (۶۰) ضرورت کے باوجود بچا ہوا پانی دوسروں کو نہ دینا۔(۶۱) ناپ تول میں کمی کرنا(۶۲) اللہ کی پکڑسے بے خوف کرنا (۶۳) اولیاء کو تکلیف پہنچانا(۶۴) نماز با جماعت کا اہتمام نہ کرنا(۶۵) بلا عذر شرعی جمعہ ترک کرنا(۶۶) وارث کو ضرر پہنچانے کی نیت سے وصیت کرنا(۶۷) مکروہ سازش کرنا(۶۸) جاسوسی کرنا (۶۹) کسی صحابی کو گالی دینا(۷۰) ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا (۷۱) ظلم میں ظالم کا تعاون بننا (۷۲) جادو سیکھنا سکھانا (۷۳) قرآن کو بھول جانا (۷۴) کسی حیوان کو زندہ جلانا (۷۵) اللہ کی رحمت سے ناامید ہوجانا (۷۶) مردار کھانا ۔خنزیر کا گوشت کھانا (۷۷) صغیر ہ گناہوں پر اضرار کرنا، مسلسل کرتے رہنا(۷۸) گانے کا پیشہ اختیار کرنا (۷۹) ڈانس کرنا (۸۰) لوگوں کے سامنے ننگا ہونا (۸۱) دنیا سے ایسی محبت کرنا کہ آخرت کو ہی بھول جائے (۸۲) اپنے امیر کے ساتھ دغا کرنا (۸۳) کسی کو نسب میں طعنہ زنی کرنا (۸۴) گمراہی کی دعوت دینا (۸۵) کسی مسلمان کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنا (۸۵) کسی محسن کی ناشکری کرنا (۸۶) حافظ قراٰن یا علمائے دین کی بدگوئی و تحقیر کرنا (۸۷) کسی گناہ کے کام میں دوسروں کی مدد کرنا۔ مثلاً ظلم کرنے یا رشوت لینے، قتل کرنے یا مال ہڑپ کرنے یا ستانے میں تعاون دینا (۸۸) حرم شریف میں الحاد پھیلانا۔ باتوں کے ذریعے، بحث کے ذریعہ ، لٹریچر کے ذریعہ (۸۹) حرام کھیل کھیلنا (۹۰) بھنگ، ہروئین ، برائون شوگروغیرہ استعمال کرنا (۹۱) کسی مسلمان کافر یا مشرک کہنا (۹۲) مشت زنی (۹۳) حالت حیض میں جماع کرنا (۹۴) ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اُن کے درمیان عدل نہ کرنا (۹۵) جانوروں سے بد فعلی کرنا (۹۶) مہنگائی بڑھ جائے تو خوش ہونا کہ نفع زیادہ آئے گا (۹۷) کسی عالم کا اپنے علم پر عمل نہ کرنا (۹۸) کھانے میں عیب نکالنا (۹۹) حسین و جمیل لڑکوں کی طرف شہوانی خیال سے دیکھنا اور لذت اُٹھانا (۱۰۰) کسی کے گھر میں بلا اجازت جانایا باہر سے جھانکنا (۱۰۱) مسلمان معاشرے میں فحش کتابوں یا فحش چیزوں کو پھیلانا (۱۰۲) لڑکوں کا نا محرم لڑکیوں سے تعلقات جوڑنا (۱۰۳) فحش پروگرام دیکھنا ، چاہے وہ کسی ٹی وی چینل پر ہوں یا نیٹ پر ہوں (۱۰۴) چیزوں خصوصاً غلہ یا کھانے پینے کی دوسری ضروریات مثلاً گوشت سبزیاں پکانے کا گیس تیل وغیرہ کا ذخیرہ اس وقت کرنا جب عوام ان کے لئے مجبور ہوں مگر صرف دام بڑھانے کی غرض سے ذخیرہ اندوزی کرنا(۱۰۵) مردہ جانور کو ذبح شدہ کہہ کر اُس کا گوشت فروخت کرنا (۱۰۶) مضر صحت اشیاء مثلاً منشیات کی تجارت کرنا (۱۰۷) مسلمانوں سے بدگمانی کرنا (۱۰۸) حرام مال سے لوگوں کی دعوت کرنا، مثلاً رشوت کی رقمیں جمع کرکے پھر شادیوں یا دوسری تقریبات کی دعوتیں کرنا……یا حرام رقم سے تحفہ دینا۔ (۱۰۸) مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرنا (۱۰۹) جو کافر مسلمانوں پر ظلم کریں اُن کا معاون بننا (۱۱۰) مسلمان کا کسی کافر عورت سے یا مسلمان عورت کا کسی کافر مرد سے ناجائز سمجھنے کے باوجود نکاح کرنا، اگر کسی نے جائز سمجھ کر یہ نکاح کیا تو وہ خود ہی اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ (۱۱۱) فحش چینل یا کیبل چلانا ۔
اللہ تعالیٰ ان تمام گناہوں سے لکھنے والے کو بھی محفوظ فرمائے اور پڑھنے والوں کو بھی۔ آمین ٭٭٭
سوال :- تسبیح (Beads)کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ مملکت اسلامیہ سعودی عربیہ میں اس کا کاروبار بڑے زور و شور سے چل رہا ہے۔ حاجی حضرات سالانہ ٹنوں کے حساب سے تسبیحاں لاکر تبرکاً اپنے عزیز و اقارب میں تقسیم کرتے ہیں۔ کیا یہ سنت سے ثابت ہے۔ اس سلسلے میں عامی جانکاری کیلئے واقفیت سے مستفید فرمائیں۔
نثار نائری (نائرہ لولاب)
تسبیح کا استعمال
جواب: قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ صبح و شام اللہ کی تسبیح کرو۔ احادیث میں ہر فرض نماز کے بعد تسبیح پڑھنے کی ترغیب ہے۔ فرض نماز کے بعد یہ مقدار بخاری شریف کی ایک حدیث میں 33مرتبہ سبحان اللہ، 33مرتبہ الحمداللہ اور 34مرتبہ اللہ اکبر ہے۔ اور ایک حدیث میں دس دس مرتبہ ہے۔ اس کے علاوہ تیسرا کلمہ، چوتھا کلمہ، دورد شریف ، کلمہ استغفار وغیرہ پڑھنے کی مقدار اہل علم اور عبادات کا ذوق رکھنے والے اپنے لئے مقرر کرکے رکھتے ہیں۔ اس مقدار کو پورا کرنے کے لئے گنتی کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دانوں والی تسبیح بھی استعمال ہوئی اور آج دیجیٹل تسبیح بھی استعمال ہوتی ہے۔جیسے اوقات نماز جاننے کے لئے گھڑی ، حج کرنے کے لئے گاڑی و جہاز اور اوقات سحر و افطار کے لئے کلینڈر استعمال ہوتے ہیں۔ اسی طرح مقدار اور گنتی کو صحیح طور پر پورا کرنے کے لئے دانوں والی یہ تسبیح استعمال کی جاتی ہے اور کچھ حضرات آج ڈیجیٹل تسبیح بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ نہ فرض اور نہ حرام ہے۔ نہ لازم نہ ممنوع ہے۔ یہ ایک عبادت کو صحیح تعداد اور درست مقدار کے ساتھ پورا کرانے کا ایک مفید آلہ ہے۔ اور اس کی مزید بڑی خوبی یہ ہے یہ جب ہاتھ میں ہوتی تو عموماً زبان پر ذکر اللہ، درود، استغفار کے جاری ہونے کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے اس کو مذکرہ بھی کہا جاتا ہے یہ یاد دہانی کا ایک مفید ذریعہ ہے۔
سوال: مچھلی ایک حلال جاندار ہے۔ تمام حلال جاندار جانوروں کو ذبح کیا جاکر کھاتے ہیں۔ جبکہ مچھلی کے سلسلے میں ایسا نہیں کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن و سنت کا کیا حکم ہے؟
مچھلی کے ذبح کی ضرورت نہیں
جواب: ہر جانور اللہ کی مخلوق ہے ان جانوروں میں سے جو جانور انسان کی صحت اخلاق اور مزاج کے لئے مفید تھا اس کو حلال کیا گیا اور جو جانور کسی بھی طرح مضر تھا اُس کو حرام کردیا گیا۔ پرجو جانور حلال کئے گئے ہیں ان کو ذبح کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ جانوروں کے جسم میں جو خون ہے وہ گوشت سے الگ ہوجائے۔ خون میں طرح طرح کے تیزابی مادے اور انسانی صحت کو سخت نقصان پہنچانے والے اجزاء ہیں۔ اس لئے خون کو حرام کردیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ تمہارے لئے خون اور مردار اور خنزیر حرام کردیا گیا۔ گویا حلال جانوروں میں مضر صحت حرام اور نجس خون کو گوشت سے الگ کرنے کے لئے ذبح کرنے کا حکم دیا گیا۔ یہ حکم نہایت درجہ حکمت اور اعلیٰ بصیرت کا شاہکار ہے اور پیغمبر اسلامؐ کی صداقت کی دلیل!
مچھلی بھی اللہ کا پیدا کردہ جانور ہے اس کو ذبح کئے بغیر کھانے کا حکم دیا گیا ۔کیوں؟ اس لئے کہ ذبح کا مقصد خون کو نکال دینا ہے اور مچھلی میں خون ہوتا ہی نہیں ہے۔ خون کے لئے رگوں کا طویل اور پیچیدہ نظام ہوتا ہے جو دوران خون کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ جبکہ مچھلی نظام ورید NERVES SYSTEMسے محفوظ اور بغیر خون کے بے شمار فائدوں سے بھر ا ہوا قیمتی گوشت ہے۔ اس لئے بغیر ذبح کے اس کو حلال قرار دیا گیا اور یہ ٹھیک عقل کے مطابق ہے۔ ورنہ سوال یوں پیدا کہ خشکی کے جانور کو ذبح کرکے کھانے کا حکم دیا گیا کیونکہ اُن میں خون ہے۔ مچھلی میں جب خون نہیں تو ذبح کا کلمہ کیوں دیا گیا۔ اس معقول سوال کا کوئی جواب نہ ہوتا۔ اس لئے مچھلی کو بغیر ذبح کے حلال قرار دیا گیا۔ اور قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ وہی اللہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے لئے مسخر کردیا جس سے تم تازہ تازہ گوشت نکالتے ہو۔ مچھلی کو لحماً طریاً کہا گیا۔حضرت نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا ہمارے لئے دو جانور ذبح کے بغیر حلال کئے گئے اور دو خون بھی حلال کئے گئے۔ دو جانور چاہے وہ مرے ہوئے مردار ہی کیوں نہ ہوں پھر بھی حلال ہیں۔ ایک مچھلی دوسرے ٹڈی۔ اور دو خون یہ ہیںایک کلیجی دوسرے تلِّی۔
اس تلی کو کشمیر ی عرف ’’پوح‘‘ کہتے ہیں بہرحال مچھلی بغیر ذبح کئے حلال ہے اور یہ حکم نہایت معقولیت اور بصیرت و بالغ نظری مشتمل ہے۔