مساجد کے لئے چندہ جمع کرنا
قلبی رضامندی کے بغیر چندہ لینا دینا جائز نہیں
سوال:-مساجد یا مدارس کے لئے سڑکوں پر چندہ جمع کرنا کیساہے ۔ کئی علاقوں میں کچھ مقامات پر پرانی مساجد کو شہید کرکے از سر نو تعمیر کیا جاتاہے اور سڑکوں پر باقاعدہ طور حصولِ چندہ کے لئے ایک گروپ متعین کیا جاتاہے جو لائوڈ اسپیکر لے کر سڑکوں پر ڈیرہ جماتے ہیں اور ہرآنے جانے والی گاڑی کو روک کر ان سے چندہ کے لئے اپیل کرتے ہیں ۔شریعت اور اخلاقیات کے اعتبار سے ایسی کارروائی/سرگرمی کی کیا حیثیت ہے ، براہ کرم جواب عنایت کریں۔
جاوید احمد…… سرینگر
جواب:- مساجدیا مدارس کے لئے سڑکوں پر چندہ جمع کرنے کا یہ طریقہ غیر شرعی بھی ہے اور طرح طرح کی خرابیوں کا مجموعہ بھی ہے ۔ مسجدوں کی تعمیر میں حصہ لینا ایک نفلی عبادت ہے اور نفلی عبادت انجام دینے کے لئے صرف ترغیب دے سکتے ہیں خصوصاً وہ نفلی عبادت جومالی عبادات میں سے ہو ۔ چنانچہ قرآن کریم نے انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دی ہے اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی تعمیر میں خود شرکت فرمائی ۔لیکن نہ تو لوگوں کے گھروں میں جاکر چندہ وصول کیا اور نہ شاہرائوں پر کچھ افراد کو بٹھا کر گزرنے والوں سے زبردستی چندہ لینے کا طریقہ جاری کیا ۔ غزوۂ تبوک کے لئے صرف چندہ اپیل کی گئی لیکن اصرار وجبر کا یہ طریقہ تو کہیں نہیں اپنایا ۔
اب سڑکوں ،شاہرائوں اور گذرگاہوں پر مائک لگاکر اپیلیں کرنا اور رسید بک لے کر گاڑیوں کے سامنے کھڑا ہونا ،زبردستی چندہ دینے پرضد کرنا ، نہ دینے والوں کو بُرابھلا کہنا، طعنہ زنی کرنا اور جو شخص چندہ نہ دے پائے اس کی توہین کرنا یا تحقیر آمیز نگاہوں سے اسے دیکھنا سراسر غیر شرعی ہے اور اس میں مزید مجرمانہ طریقہ شامل کیا گیا کہ کچھ لوگ کمیشن مقرر کرکے سڑکوں پر کھڑے کئے جاتے ہیں تاکہ وہ چندہ وصول کریں ، ان کو مسجد کی تعمیر کا جذبہ کم اور اپنے کمیشن کے زیادہ ہونے کی فکر زیادہ ہوتی ہے اس لئے وہ ہرگزرنے والے کے لئے مسجد کے نام پر گریبان تک پکڑنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں ۔ یہ سب ناجائز ہے یہ کمیشن لینا ودینا اور سڑکوں پر مائک لگا کر رسید بک لے کر زبردستی چندہ کرنا کسی طرح بھی شرعاً درست نہیں ہے ۔
دراصل محلہ کے لوگ اپنی مسجد اپنے وسائل کے مطابق بنانے کے مکلف ہیں ۔جیسی مالی حالت ہو اور جیسے وسائل ہوں اُسی کے مطابق تعمیر کا منصوبہ بنانا چاہئے ۔جب کسی دوسری جگہ کے اونچے معیار کو ذہن میں رکھا جائے اور خود اپنے محلہ یا گائوں والوں کوانفاق کا ویسا جذبہ نہ ہو ،جیسے اپنے مکانات کی تعمیر کے لئے ہوتا ہے ،تو اس کے لئے چندہ کرنے کے یہ غیر شرعی طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں۔
بے دلی اور قلبی رضامندی کے بغیر محض پیچھا چھڑانے کے لئے جو بھی چندہ لیا گیا یا دیا گیا وہ شرعاً ہرگز جائز نہیں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلام کا مسنون طریقہ
سوال:۱-سلام کرنا مسلمانوں کی ایک ایسی خصوصیت ہے جس میں مسلمان دوسری قوموں سے ممتاز ہیں ۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ سلام کے صحیح الفاظ اور درست تلفظ کیاہے ؟ ہمارے معاشرے میں قسم قسم کے الفاظ اور تلفظ کے ساتھ سلام کیا جاتاہے ۔ براہ کرم سلام کے صحیح الفاظ بھی درج فرمائیں اور جو جو غلط تلفظ ہے اُن کی نشاندہی بھی فرمائیں ؟
سلام الدین…ڈوڈہ ،جموں
جواب:۱- انسانوں کے ہرطبقے اور ہر قوم میں ملاقات کے وقت اچھے الفاظ سے استقبال کرنا اور مزاج پرسی سے پہلے سلام کے عنوان کچھ نہ کچھ الفاظ بولنا ضرور پائے جاتے ہیں ۔
اسلام نے مسلمانوں کے لئے سلام کرنے کے جوکلمات مقرر فرمائے ہیں ۔ اور وہ یہ ہیں : السلام علیکم۔
یہ لکھنے میں اسلام علیکم غلط ہے اور السلام علیکم صحیح ہے۔یعنی سین سے پہلے لام ضرور لکھا جائے ۔
سلام کے تلفظ میں بکثرت غلطیاں پائی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ اچھے ، معزز ، تعلیم یافتہ اور بعض دیندار حضرات بھی اس سلسلے میں احتیاط نہیں کرتے ۔ چنانچہ چند غلط تلفظ جومعاشرے میں رائج ہیں وہ یہ ہیں :
اِسلام علیکم ، سام علیکم ، اَسّام علیکم ، سَاء کَلَیکم، سانْ وَلیکم، سَلا ؤلیکم ، سَمْ لَیکم، سَامَلَکم۔ سائے مالائے کم ۔ وغیرہ
اس لئے ضروری ہے اس طرح کے ہر غلط تلفظ سے بچنے اور اچھے اور درست تلفظ کے ساتھ سلام کرنے کا اہتمام اور کوشش کی جائے۔ دُرست تلفظ یہ ہے ۔لکھنے میں اس طرح ہے : السلام علیکم ۔ اس کو پڑھنے کا طریقہ ہے : اَسْ سَ لَ امْ عَ لَ یْ کُ مْ۔
AS-SALAMU. ALAIKUM
اگر اس میں ورحمۃ اللہ و برکاتہٗ بڑھایا جائے تو بہت بہتر اور مزید باعث اجرہے ۔
سلام کرنا سنت اور جواب دینا واجب ہے ۔بعض لوگ اسلام علیکم کے جواب میں السلام علیکم بول دیتے ہیں، جو صحیح نہیں ۔اگر ایسا کیا جائے تو دونوں کو وعلیکم السلام کہنا واجب ہوتاہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچے کوکلمہ طیبہ سکھانا والدین پر شرعی اور ناگزیر فرض
سوال: بچہ کے پیدا ہونے پر کیا کیا حکم ہے؟ نمبروار درج فرمائیں۔
قرۃ العین…سرینگر
جواب: بچہ پیدا ہونے پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ پھر جتنا جلد ہو سکے، بچے کو نہلا ئیں، اس کے بعد بچے کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت پڑھیں، پھر تحنیک کریں یعنی کوئی میٹھی چیز مثلاً کھجورچبا کر اس کا لعاب بچے کے منہ میں ڈالیں یا شہد کے ایک دو قطرے بچے کے منہ میں ٹپکائیں۔اس کے بعد ایک ہفتہ کے اندر اندر، اور زیادہ بہتر ہے کہ تین دن کے اندر اندر ،بچے کا نام مقرر کریں۔ نام رکھنے میں خالص اسلامی نام رکھنے کا اہتمام کریں۔ ایسا نیا اور انوکھا یا منفرد نام رکھنے کا کام ہرگز درست نہیں ہے جس سے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ بچہ مسلمان ہے یا غیر مسلم، جیسے بلال نام ہو تو ہر شخص یہ سمجھے کہ یہ مسلمان ہے لیکن اگر بلائول رکھا جائے تو یہ اسلامی نام نہیں ہے یا انصار نام رکھیں تو یہ اسلامی نام مگر رخسار رکھیں تو یہ خالص اسلامی نہیں۔اس کے بعد جب بچے کا سرپختہ ہو جائے تو سر کے بال مونڈھ کر ان بالوں کے وزن کے بقدر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کر دیں۔ یہ زیادہ سے زیادہ دس گرام ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد اگر مالی گنجائش ہو تو عقیقہ کریں یعنی بیٹے کے پیدا ہونے پر دو بھیڑ یا بکرے اور بیٹی کے پیدا ہونے پر ایک ذبح کیا جائے اور قربانی کے گوشت کی طرح استعمال کریں۔
یہ عقیقہ ساتویں دن کریں مثلاً بچہ اگر جمعہ کے دن پیدا ہوا ہے تو جمعرات کے دن اور اگر منگل کو مثلاً پیدا ہوا ہے تو پیر کے دن عقیقہ کریں یہ ساتواں دن ہوگا۔
پھر جونہی بچہ بولنا شروع کر دے مثلاً وہ بابا، ماما کہنے لگے اور عموماً بچہ کی زبان پر ازخود یہی الفاظ جاری ہوتے ہیں اور وہ فکر اور تسلسل سے لگاتار یہی بولتا رہتا ہے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب اس کے اندر بولنے کی صلاحیت پیدا ہونا شروع ہوگئی بس اس وقت سب سے پہلے اللہ اللہ سکھانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ یہاں تک کہ اس کی زبان پر یہی جاری ر ہے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد جب وہ باقاعدہ الفاظ بولنے لگے تو سب سے پہلے کلمہ لا الٰہ الا اللہ ،سکھانا والدین پر لازم ہے او ریہ بچے کا والدین پر ایک شرعی اور ناگزیر حق ہے۔ یہ اسلامی فرض ہے۔ اس لئے اس میں ہرگز کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عطیہ خون … شرعی احکام
سوال: کیا ایک مسلمان کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اپنا خون کسی خون کے ضرورت مند بیمار کو چڑھانے کے لئے نکلوا دے اور اس خون کو بغیر کسی معاوضہ کے پیش کرے، کیا ایک مسلمان کو اپنا خون صرف اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو ہی دینا ہوتا ہے یا خون دینے میں رشتہ داری کی کوئی قید نہیں ہے،یعنی ہر ایک حاجت مند بیمار کو خون دینا جائزہے؟
عاشق محمد…چھتہ بل سرینگر
جواب: خون دینا نہ صرف جائز ہے بلکہ خدمت انسانی اور مجبور انسان کو تعاون دینے ، ہمدردی اور باعث اجر و ثواب عمل ہے۔
خون مسلمان غیر مسلم، مرد عورت، اقارب و اجانب کو دینا بھی جائز ہے اور ان سے خون لینا بھی جائز ہے۔
خون دینا جب ضرورت مند کی ضرورت پورا کرنے کا کام ہے تو یہ ہر ضرورت مند کے لئے جائز ہے۔ اس میں کوئی قید یا شرط نہیں، ہاں خون فروخت کرنا حرام ہے لیکن اگر کسی ضرورت مند کو بطور عطیہ خون نہ ملے تو خون خرید کر ضرورت پورا کرنا شرعاً جائز ہے۔