Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
جمعہ ایڈیشنکالم

کتاب وسنت کے حوالے سے مسائل کا حل مفتی نذیر احمد قاسمی

Towseef
Last updated: June 5, 2025 11:53 pm
Towseef
Share
18 Min Read
SHARE

سوال ۱:۔کشمیر عظمیٰ کے توسط سے ایک اہم سوال کا جواب یہاں کے بہت سارے لوگوں کی تسلی اور دُرستگی اورغلطیوں سے بچائو کا سبب بنے گا ۔اس لئے سوال پیش خدمت ہے۔کشمیر سے باہر بھی اور مکہ مکرمہ میں بھی دوران حج بے شمار افراد اور بہت سارے ادارے دوسروں کی طرف سے قربانی کرتے ہیں۔قربانی کرانے والا رقم دیتا ہے ۔قربانی کرنے والا ادارہ جانور خرید کر اُس کی طرف سے قربانی کرتا ہے ۔اس میں طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں،جس کے متعلق شرعی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ برائے مہربانی اس کے کچھ ایسے شرعی اصول وضوابط بیان فرمائیں تاکہ قربانی کرانے والوں کی قربانی درست ہوجائے اور قربا نی کرنے والے اُن غلطیوں سے بچ جائیں جن کا اُن سے صادر ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔یہ شعوری یا غیر شعوری کسی بھی وجہ سے صادر ہوسکتی ہیں،فقط
سوال ۲۔بہت سارے لوگ قربانی کے جانور خریدنے کے وقت یہ طے کرتے ہیں کہ قیمت ذبح کرنے کے بعد گوشت کا وزن کرکے طے کریں گے ۔کیا ایسا کرنا درست ہے؟
مفتی محمد عرفان ،امام و خطیب ۔اَستان مسجد ،ڈوڈہ جموں

قربانی ایک عظیم عبادت ۔ وکا لتاً کرنا بھی دُرست
جواب۱۔قربانی ایک عظیم عبادت ہے۔اپنی اصل عبادت کے اعتبار سے قربانی ہر شخص کو خود ہی کرنی چاہئے،لیکن بہت ساری صورتیں ایسی پیش آتی ہیں جس میں کسی دوسرے شخص کے ذریعہ قربانی کرانے کی ضرورت رہتی ہے۔ اس لئے شریعت اسلامیہ میں اس کی اجازت ہے کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو اپنا وکیل مقرر کرکے قربانی کرائے۔حضرت رسول اکرم علیہ السلام نے حجتہ الوداع میں اپنی قربانی کے سارے اونٹ خود ذبح نہیں فرمائے بلکہ سو اونٹوں میں سے تریسٹھ یا ستر اونٹ خود اپنے دستِ مبارک سےذبح کئے اور بقیہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ذبح کئے،تو حضرت علی ؓ نے یہ قربانی وکا لتاً فرمائی۔ قربانی کا عمل جانور ذبح کرنے کا عمل ہے اور یہ نسبتاً مشکل کام ہے۔پھر اگر جانور بڑا ہو مثلاً بیل ،بھینسا ،اونٹ تو پھر اور زیادہ مشکل کام ہے۔کبیرالسن بوڑھا مسلمان ،نوجوان مسلمان جو قریب میں ہی بالغ ہوا ہو اور ابھی بچہ جیسا لگتا ہو ،مثلاً چودہ پندرہ سال کی عمر کا ہو،اسی طرح خواتین اور بیمار مرد یہ تمام اپنا قربانی کا جانور خود ذبح نہیں کرسکتے ۔لہٰذا ان کے لئے وکیل بنانا ہی آخری حل ہے چاہے یہ وکیل ان کا گھر کا محرم اور قریبی رشتہ دار ہو یا دور کا ،بہر حال وہ وکیل ہوگا۔اس کے علاوہ بھی بہت ساری صورتیں ہیں جن میں اجتماعی قربانی کا انتظام ہی آخری بہترین حل ہے۔اب جو مدارس یا دوسرا کوئی ادارہ اجتماعی قربانی کا نظم چلائے ،اُس کو اس سلسلے کے تمام اصول و ضوابط اوراحکام و شرائط جاننا ضروری ہے تاکہ شرعی اصولوں کی خلاف ورزی نہ ہو۔ چند اہم اصول یہ ہیں:

وہ مدارس جو اجتماعی قربانی کا انتظام کرتے ہیں ،اُن کے لئے افضل یہ ہے کہ بڑے جانور کے حصے کی قیمت مقرر کرنے میں درجے مقرر کریں۔مثلاً بڑے جانور کا ایک حصہ تین ہزار اور ایک پانچ ہزار کا ہوگا۔یہ اس لئے تاکہ چھوٹے بڑے کا فرق برقرار رہے،پھر جانور مہیا کرنے والا فرد یا ادارہ اپنے آپ کو قربانی کرنے والے کا وکیل قرار دے،اور یہ سب کچھ بغیر کسی معاوضہ لئے یا کچھ رقم اپنے لئے مخصوص کئے بغیر انجام دیں۔

دوسرا اصول یہ ہے کہ اجتماعی قربانی کرنے والے فرد یا ادارہ جانور مہیا کرچکا ہو اور قربانی کرانے والے فرد کو کل جانور یا بڑے جانور کے کچھ حصے مشخص کرکے طے دیئے جائیں اور جانور کی تعیین بھی کسی طرح کردی جائے تو یہ سب سے بہتر اور افضل صورت ہے۔ا س صورت میں قربانی کرنے والا فرد یا ادارہ بائع اور وکیلِ قربانی ہوگا اور قربانی کرانے والا فردمشتری اور قربانی کرانے والا مؤکل ہوگا ۔ اگر قربانی کرانے والے سے رقم لے لی گئی اور جانور تو ملکیت میں ہیں مگر ابھی حصوں کی تعیین نہیں کی گئی ہے ،تو اس وقت یہ وعدۂ بیع ہے اور جانور کی تعیین کے وقت یہ بیع تعاطی بن کر معاملہ درست ہوجائے گا ۔

تیسرا اصول :جانور ابھی خریدا نہیں گیا تو قربانی کرانے ولے افراد سے قربانی کے حصول کی رقم لینے سے پہلے ایک پیکیج بنایا جا ئے۔اس میں جانور کی قیمت ،خریدنے،لانے ،گھاس کھلانے ،ذبح کرانے وغیرہ کے تمام اخراجات شامل کرکے پھر ایک حصہ کی مقدار طے کردی جائے،پھر قربانی کرانے والے افراد حصوں کی بکنگ کریں۔تو اس صورت میں ادارہ پیکیج کا بائع اور خریدنے والا یعنی قربانی کرنے والااس پیکیج کا خریدارقرار پائے گا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے حج و عمرہ کا پیکیج بنایا جاتا ہے،پھر اس کو آگے فروخت کیا جاتا ہے یعنی حج یا عمرہ کرایا جاتا ہے۔

چوتھا اصول یہ ہے کہ اگر جانور قربانی سے پہلے ہلاک ہوگیا یا کم عمرتھا اور قربانی کے نام پر ذبح کردیا یا عیب دار تھا پھر بھی ذبح کردیا یا جانور بدل دیا تو ان صورتوں میں تاوان کس پر آئے گا ،اس کے لئے شرعی اصول معلوم کرکے عمل کیا جائے۔

پانچواں اصول یہ ہے کہ گوشت کی تقسیم میں شرعی اصولوں کی مکمل رعایت کی جائے ۔اگر قربانی کرانے والے اپنا گوشت لینا چاہے تو پھر گوشت مساوی طور پر تقسیم کیا جائے۔اس میں پائے،سری ،کلیجی ،بھیجہ وغیرہ سبھی شامل کرکے برابر حصے بنائے جائیں۔
چھٹا اصول یہ ہے کہ کوئی فرد اس قربانی کرانے کے عمل کو صرف پیسہ کمانے کا ذریعہ بنانے کی نیت کے بجائے فریضہ ادا کرانے میں تعاون دینے اور اسباب مہیا کرنے والا معاونِ خیر بننے کی نیت کی جائے۔

ذبح کے بعد جانور کی قیمت طے کرنا غیر درست
جواب۲۔اگر قربانی کا جانور فروخت کرتے وقت قیمت مقرر ہی نہیں ہوئی تھی ،اس لئے ابھی گوشت کا وزن ہی نہیں ہوا ہے تو یہ بیع تام نہیں ہوئی ہے ،اور جب بیع تام نہیں ہوئی توقربانی کرنے والا جس جانور کو قربان کررہا ہے وہ ابھی اُس کی ملکیت نہیں ہے۔لہٰذا قربانی درست نہیں ہے ۔دوسرے یہ کہ جانور شرعاًنہ مکیلی ہے نہ موزونی،یعنی جانور نہ تو اُس طرح وزن کرکے فروخت ہوتا جس طرح اناج وغیرہ اورنہ اُسطرح کیل یعنی پیمانے میں بھر کر فروخت ہوتا ہے۔جیسے تیل اور دودھ فروخت ہوتا ہے۔
زندہ جانور جس طرح فروخت ہوتا ہے اُسی طرح خرید کر قربانی کا جانور قربان کیا جائے تو درست ہوگا ۔چنانچہ دارالعلوم دیو بند اور دارالعلوم الاسلامیہ بنّوری ٹاون کراچی کے ویب سائٹ پر بھی یہی جواب مرقوم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :قربانی ایک عظیم اسلامی عمل ہے ،اس کی ادائیگی جس اہتمام اور جوش و جذبہ سے ہوتی ہے،وہ عید الاضحیٰ کے موقعہ ہر مسلمان معاشرہ میں بے مثال ہوتا ہے ۔یہ قربانی اصل میں ہر فرد اپنے اپنے مزاج اور مالی وسعت کے مطابق کرتا ہے لیکن تقریباً دس بیس سال سے یہاں کشمیر میں اور باقی مسلم دنیا میں بہت پہلے سے اور کچھ مقامات میں ہمیشہ سے یہ طریقہ پایا جاتا ہے کہ ایک فرد یا ایک ادارہ دوسرے بہت سارے افراد کی طرف سے قربانی کرتا ہے۔اس کو آج کل اجتماعی قربانی کہتے ہیں۔ اس کے متعلق کچھ حضرات کو ہمیشہ سے تحفظات اور تردد و شک رہتا ہے کہ یہ درست ہے یا نہیں۔اس لئے اس کے متعلق تسلی بخش جواب مطلوب ہے ۔
اشتیاق احمد خان ۔ ٹنگمرگ کشمیر

صاحبِ نصاب مسلمان پر قربانی کرانا واجب
جواب:شریعت اسلامیہ نے مسلمانوں پر جو احکام مشروع کئے ہیں اُن میں ایک خاص حکم قربانی بھی ہے۔قربانی کا بیان قرآن کریم میں بھی ہے اور احادیث میں بھی۔قربانی اپنی اصل کے اعتبار سے ہر شخص کےخود کرنے والا عمل ہے۔مسلمان اگر مالی اعتبار سے کمزور ہو تو اُسکے لئے قربانی اُس کے لئے سنت ہے اور اگر مالی اعتبار سے صاحبِ نصاب ہو تو اُس پر قربانی واجب ہوتی ہے۔ یہ شخص اگر قربانی نہ کرے تو وہ گنہ گار ہوگا۔کوئی مسلمان کسی بھی وجہ سے اگر قربانی خود نہ کرسکےاور کسی دوسرے شخص کے ذریعہ قربانی کرائےتو یہ قربانی بھی درست ہے۔اس کو وکا لتاً قربانی بھی کہتے ہیںاور اگر کوئی ادارہ یہ قربانی کا نظم کرے تو اس کو اجتماعی قربانی کہتے ہیں۔جیسے کہ حج کے موقعہ پر الراحجی نام کا ادارہ لاکھوں حاجیوںکی طرف سے وکالتاً قربانی کرتا ہےاور ملکوں ملکوں کی حج کمیٹیاں حاجیوں سے پہلے ہی رقم لے لیتی ہیں اور پھر اجتماعی قربانیاں کی جاتی ہیں۔عورتیں از خود قربانیاں نہیں کرسکتیں،اس کے لئےاُن کو کوئی اپنا محرم رشتہ دار وکیل بنانا پڑتا ہے یا کسی غیر محرم کو وکیل بناکر قربانی کا فریضہ ادا کرلیتی ہیں۔کوئی مسلمان کسی ایسی جگہ پر جہاں وہ اپنی قربانی نہیں کرپاتا ،وہ کسی دوسری جگہ کسی بھی مسلمان کے ذریعہ قربانی کرائے تو فریضہ ادا ہوجائے گا ۔ اس عمل کے درست ہونے کی دلیل یہ ہے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے سو اونٹوں میں سے تریسٹھ یا ستر اونٹ خود ذبح فرمائے اور بقیہ حضرت علیؓ سے قربان کرائے۔اجتماعی قربانی کا عمل عرب و عجم میں ہمیشہ سے جاری ہے۔برصغیر کے ہزاروں مدارس اجتماعی قربانی کرتے ہیں،اس لئے یہ درست ہے اور صحیح ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :(۱) اگر قربانی کسی مسلمان پر لازم تھی اور اُ س نے قربانی نہیں کی تو اُس کے لئے کیا حکم ہے؟
سوال:(۲) قربانی کے گوشت کے متعلق کیا حکم ہے۔کیا سارا گوشت تقسیم کرنا ضروری ہے اور کیا کسی مالدار کو بھی گوشت دے سکتے ہیں۔اگر سارا گوشت تقسیم کیا جائے تو عمل کیسا ہے؟
سوال :(۳) کشمیر کےکئی پہاڑی علاقوں میں اور یہاں جموں، پونچھ ،راجوری وغیرہ میں بڑے جانوروں میں بھینس کی قربانی کی جاتی ہے ۔کیا بھینس کی قربانی درست ہے؟
جہانگیر احمد چوہان ۔جموں

صاحبِ نصاب شخص کا قربانی نہ کرنا سبب ِ گناہ
گوشت کی تقسیم کے متعلق اہم معلومات
جواب:(۱)جو مسلمان صاحبِ نصاب ہو یعنی اُس کے پاس اتنا مال ہو کہ اُس پر زکوٰۃ فرض ہوگئی ،یا اگر نامی مال اتنا تونہ ہو جس پر زکوٰۃ لازم ہو،مگر مال غیرنامی اتنا ہو کہ اُس پر قربانی لازم ہوجائےتو عیدالاضحیٰ کے دن نماز عید بھی اُس پر واجب ہےاور قربانی بھی اُس پر واجب ہے۔اگر اُس نے قربانی نہ کی تو وہ گنہگار ہوگا۔ اس میں خواتین کی بہت بڑی تعداد ہےکہ اُن پر قربانی لازم ہوتی ہے اور وہ اس لئے کہ اُن کے پاس زیورات اور کچھ نہ کچھ رقم بھی ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے اُن پر قربانی واجب ہوتی ہے۔ اب جس شخص پر قربانی لازم ہوچکی ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو قربانی کے تین دن گذر نے کے بعد اب اُن پر لازم ہے کہ قربانی کی رقم صدقہ کریں ۔قربانی کے تین دن ہوتے ہیں۔

جواب:(۲)قربانی کے گوشت کے متعلق شرعی طور پر مکمل اختیار ہے کہ پورا گوشت اپنے اہل و عیال ،اقارب و ہمسایوں پر خرچ کیا جائےاور اس سے بہتر یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کئے جائیں۔ایک حصہ اپنے اہلِ خانہ کے لئے،ایک حصہ اقارب اور ہمسایوںمیں تقسیم کیا جائے اور تیسرا حصہ غرباء و مساکین میں تقسیم کیا جائےاور سب سے افضل یہ ہے کہ قربانی کا سارا گوشت غرباء میں تقسیم کیا جائے،خصوصاً ایسےافراد میں جو بہت مفلوک الحال ہوں۔

جواب:(۳) قربانی کے لئے جن جانوروں کا بیان احادیث میں موجود ہے۔وہ یہ ہیں: اونٹ ،گائے،بھیڑ ،بکری ،دُنبہ ۔۔۔۔۔ بھینس کا تذکرہ قرآن کریم اور احادیث میں بطور قربانی کے جانورکے موجود نہیں ہے،اس لئے کہ بھینس عہدِ نبویؐ میں عرب ممالک میں تھی ہی نہیں۔اس لئے اس جانور کے متعلق کوئی حکم نہیں ہے۔جب اسلام اُن ملکوں میں پہنچا جن ممالک میں بھینس پائی جاتی ہے تو فقہائے اُمت نے بھینس کے متعلق اجتہاد کیا ۔اس اجتہاد کے نتیجے میں بھینس کا گوشت اور دودھ حلال قرار پایا ،جیسے گائے کا گوشت اور دودھ حلال ہے۔اب جیسے بھینس کا گوشت اور دودھ حلال ہے تو اُس کی قربانی بھی درست ہے۔اس لئےیہ امت کا اجماعی عملی فیصلہ ہے کہ بھینس کی قربانی اُسی طرح درست ہے جس طرح اُس کا گوشت اور دودھ حلا ل ہےاور برصغیر میں ہمیشہ سے بھینس کی قربانی ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سوال :قربانی کی آمد آمد ہے مسلمان شوق و ذوق سے قربانیاں کرتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے قربانی کی کھالوں کو معقول عوض کے بدلے فروخت کیا جاتا تھا ۔اس لئے چرم ِقربانی کے متعلق صورت حال یہ تھی کہ یہ سوال آتا تھا کہ یہ قربانی کی کھالیں کن کو دیںاورکہاں خرچ کرسکتے ہیں ۔
اداروں ،مدارس اسلامیہ ،یتیم خانوں اور کچھ فلاحی تنظیموں کی طرف سے چرمِ قربانی وصول کی جاتی تھیں،پھر اُن کو فروخت کرکے رقم خرچ کی جاتی تھی اور سوالات پیدا ہوتے تھے کہ یہ رقم کہاں خرچ کرسکتے ہیں اور کہاں نہیں۔اب پچھلے دو تین سال سے قربانی کی کھال خریدنے کو بھی کوئی تیار نہیں۔لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کھالوں کا کیا کیا جائے؟اس صورت حال میں شرعی رہنمائی کی ضرورت ہے۔کچھ لوگ یہ کھالیں سڑکوں پر ڈال دیتے ہیں،اُس سے تعفن پیدا ہوتا ہےاور اعتراض کرنے والوں کو موقعہ ملتا ہے اور اس سے ماحول میں جو مضر ِ صحت اثرات پیدا ہوتے ہیں وہ ناقابل انکار نہیں۔اب سوال یہ ہے کہ قربانی کی کھالوں کے متعلق تفصیل سے بیان کریں کہ کیا کرنا ہے؟

غلام نبی خان ۔صورہ سرینگر
قربانی کی کھال کے استعمال کا معاملہ
سڑکوں پر پھینک کر تعفن پھیلانا غیردرست عمل
جواب:قربانی کی کھال اپنے گھر پر استعمال کرنا درست ہے ۔جیسے گوشت اپنے گھر میں استعمال کرنا درست ہے ۔قربانی کی کھال دوسرے کسی مسلمان کو دینا بھی اسی طرح درست ہے جیسے گوشت دینا درست ہے۔اگر قربانی کی کھال کسی ادارے کو دی گئی تو اُس ادارے کے ذمہ داران کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کھال یا اُس کی قیمت کا استعمال شرعی اصول و ضوابط کے مطابق کریں۔ اگر قربانی کی کھال نہ اپنے گھر میں استعمال ہوپائے اور نہ کسی دوسرے فرد یا ادارے کو دے سکیں ،اور سوال یہ ہو کہ ان کھالوں کا کیا کیا جائےتو اس کا جواب یہ ہے کہ قربانی کے جانوروں کے کھال ،پائے ،سری اور چمڑے ایسی جگہ ہرگز نہ ڈالے جائیں جہاں سے بدبو پھیلے۔کتّے ان کو اِدھر اُدھر گھسیٹتے رہیں ،پھر اس سے ماحول میں تعفن ہوجائے ،ان تمام چیزوں کا آخری حل زمین میں دفن کرنا ہے۔جب کوئی شخص قربانی کی کھال ،سری ،پائے کے بہتر استعمال کی کوئی شکل نہ اپنے پاس اور نہ کسی دوسرے کے پاس پا سکے تو اُس کا واحد حل ان کو دفن کردیا جائے اور ایسی جگہ دفن کیا جائے جہاں کُتّے اُنہیں واپس نہ نکال سکیں۔یہ قربانی کرنے والے افراد کی ذمہ داری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
راجوری میں قربانی کے جانوروں کی خریداری کیلئے لوگ امڈ پڑے قربانی کے جانوروں کی مانگ میں اضافہ، قیمتوں میں بھی تیزی، منڈی میں گہما گہمی عروج پر
پیر پنچال
ڈی سی اور ایس ایس پی راجوری نے مرکزی عیدگاہ کا دورہ کیا
پیر پنچال
عید سے قبل پونچھ میں اشیائے خوردونوش کے معیار اور صفائی کا جائزہ لیا گیا
پیر پنچال
ڈی آئی جی راجوری پونچھ رینج نے ایچ ایس تھنہ میں عوامی دربارلگایا عام لوگوں کو درپیش مشکلات کا جائزہ لیا ،مو قعہ پر ہی کئی مسائل کا ازالہ کیاگیا
پیر پنچال

Related

کالممضامین

آدابِ فرزندی اور ہماری نوجوان نسل غور طلب

June 5, 2025
کالممضامین

عیدایک رسم نہیں جینے کا پیغام ہے فکر و فہم

June 5, 2025
کالممضامین

یوم ِعرفہ ۔بخشش اور انعامات کا دن‎ فہم و فراست

June 5, 2025
کالممضامین

حجتہ الوداع۔ حقوق انسانی کاپہلا منشور فکر انگیز

June 5, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?