مفتی نذیراحمد قاسمی
سوال :آج کل ایک نیا بزنس تیزی سے رواج پارہا ہے ،اس کو این ایف ٹی کہتے ہیں ۔اس کی پوری تحقیق کی بھی ضرورت ہے اور پھر اس کے متعلق شرعی حکم بیان کرنے کی بھی شدید ضرورت اور انتظار ہے۔اس طرح کے نئے مسائل کو پہلے پوری گہرائی کے ساتھ صحیح طور پر سمجھنا اور پھر اس کے جائز ،ناجائز ہونے کا درست فیصلہ آسان نہیں۔اس لئے ہر عالم اس طرح کے مسئلہ کا جواب نہیں دے پاتااور جواب دے تو غلطی کا امکان رہتا ہے۔اس لئے عرض ہے کہ اس نئے سسٹم این ایف ٹی کی تفصیل بھی بتائیںاور اس کا جائز ناجائز ہونے کا شرعی حکم بھی۔یاد رہے کہ ہمارے علاقہ کے کچھ علماءبھی یہ بزنس کررہے ہیں۔
مزمل احمد ۔ترال کشمیر
این ایف ٹی اور کرپٹو کرنسی ۔کیا شرعی طور جائز ہے؟
جواب :سوال میں N.F.Tکا مفہوم ،تشریح اور حکم پوچھا گیا ہے۔اس کے معنیٰ NON FUNGIBALE TOKANہوتا ہے۔کسی بھی چیز کی تصویر چاہے وہ پُرانی ہو یا آج کی،کسی بھی منظر، چاہے، وہ انسانوں کا ہو ،جانوروں کا ہو یا نیچر کی کسی بھی انوکھی اور دلچسپی کی چیز کا ہو،اس کی منظر کشی کرکے پھر اس کی تصویر کی خریدو فروخت ہوتی ہے ۔اس کو DIGITAL ASSETS کہہ سکتے ہیں۔اس میں موسیقی ،تصاویر اور قسم قسم کے ویڈیوز کی تجارت ہوتی ہے ۔اس کی ایک آسان مثال یہ ہےکہ کسی شخص کے پاس کسی عظیم شخص کی نایاب تصویر ہے ،اُس نے اس کی NFTبنانے کے لئے ایک مختصر سا سسٹم اختیار کرنا ہے جس میں کمپیوٹر کا استعمال ہوتا ہے اور اُس کے ذریعہ آپ کی وہ خاص ویڈیو پہلے ایک اعداد پر مشتمل سرمایہ بنے گا ،اُس کو DIGITAL ASSETSکہیں گے۔یہ صرف اُس شخص ، جو کچھ علامتی نمبرات سے ذریعہ مشخص ہوگا۔اُن علامتی نمبرات کو ٹوکن کہیں گے ۔یہ ٹوکن نان منیجبل NON FUNGIBALEہوگا ،یعنی اس کی جگہ دوسری کوئی بھی چیز استعمال نہیں ہوسکتی ۔ہمارے ہاتھوں میں جو کاغذی کرنسی یعنی نوٹ ہمارے ہاتھوں میں ہے ،یہ FUNGIBALEہے،جبکہ زیر نظر مسئلہ میں ٹوکن NFTہےجو کسی متبادل کا متحمل نہیں ہے۔N.F.T.کی مزید تفصیل کسی ایسے شخص سے سمجھی جاسکتی ہے جو اس کا ماہر ہو۔اب اس کا شرعی حکم ملاحظہ ہو۔
شرعی ضوابط پر گہری نظر رکھ کر زیربحث مسئلہ کا حکم طے کرتے ہوئے غوروخوض کے بعد یہ واضح ہورہا ہے کہ اس پورے سسٹم میں چونکہ چند خرابیاں ہیں ،اُن مفاسدکی وجہ سے یہ شرعاً ناجائز ہے۔پہلی خرابی یہ ہے کہ اس میں جاندار اور غیر جاندار دونوں طرح کی تصاویر اور ویڈیوز فروخت ہوتے ہیںجبکہ شریعت میں فوٹو صرف محدود ضرورت کی صورتوں میں جائز ہے۔عممومی طور پر فوٹو گرافی منع ہے ،خصوصاً جانداروں کی تصاویر کے متعلق احادیث میں جو سخت وعید یں آئی ہیں، اُن کی بنا پر بلا شبہ تصویر کشی اور تصویر سازی جو بلا ضرورت ہو، کا جواز ہو ہی نہیں سکتا۔تو پہلی خرابی تصویر سازی اور اس تصویر کو فروخت کرنا ہے ۔یہ دونوں وجوہ وجۂ عدم جواز ہیں۔
دوسری خرابی یہ ہے کہ بیچنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ چیز مال ہو۔اگر بکنے والی چیز مال نہیں ہے اور مال نہ ہونے کے باوجود اس کو فروخت کیا جارہا ہے،تو سوال یہ ہے کہ خریدنے والے کے ہاتھ میں کیا آیاہے۔یہاں NFTمیں صرف کچھ نمبرات خریدنے والے کو ملتے ہیں۔یہ نمبرات اُس تصویر کی ملکیت کی نمائندگی کرتے ہیں۔اب صورت حال یہ سامنے آئی کہ ایک ایسی چیز جو مال نہیں ،اُس کو مال بناکر فروخت کیا جارہا ہےاور خریدنے والے کے ہاتھ پر صرف کچھ نمبرات آتے ہیں ،یہی نمبرات ٹوکن ہےاور یہی ٹوکن فروخت کرنا ہے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے گا کہ یہ فضولیات اور لغویات کی خریدو فروخت ہے۔اس کی اجازت میں اسلام پہلے یہی دیکھے گا کہ یہ سب کچھ فائیدہ کا کام ہے یا لغو اور فضول کا م ہے۔
تیسری خرابی یہ ہے کہ اس میں جو ٹوکن ملتا ہے ،اُس ٹوکن کا مطلب ملٹی لیول مارکیٹنگ ہے ،یعنی یہ چیز پہلی مرتبہ جس شخص نے فروخت کی، آئندہ جب بھی یہ فروخت ہوگی ،پچھلے فروخت کرنے والوں کو بھی اس میں سے کچھ نفع فیصدی کے اعتبار سے ملتا رہے گااور یہ وہ ناجائز عمل ہے جس کی بنا پر نیٹ ورک مارکیٹنگ ناجائز قرار پائی ہے۔اور چوتھی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں صرف ڈیجیٹل کرنسی کے ذریعہ یہ سارا بزنس چلایا جارہا ہے اور یہ طے ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی شرعی طور پر معتبر کرنسی نہیں ہے۔اس لئے کہ کرنسی کے لئے جو اوصاف اور شرائظ ضروری ہیں وہ اس کرپٹو کرنسی میں نہیں ہیں۔یہ ایک فرضی کرنسی ہے جو صرف اعداد کی شکل میں ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :زکوٰۃ کس مسلمان پر فرض ہے؟(۲) زکوٰۃ کس کس مال پر فرض ہے؟(۳) زکوٰۃ کس مال پر فرض نہیں ہے؟(۴)زکوٰۃ کے مستحق کون لوگ ہیں؟(۵)خواتین کے پاس سونا ہوتا ہے اُس کی زکوٰۃ کون دے گا؟
محمد اقبال میر ۔کپوارہ
زکوٰۃ کا جواز اور اس کی مقدار کے مسائل
جوابات:(۱) ہر وہ مسلمان جو عاقل ہو ،بالغ ہو اور زکوٰۃ لازم ہونے والےمقدار ِ نصاب ِ مال کا مالک ہو تو اُس پر فرض ہے کہ وہ اس مال کی زکوٰۃ ادا کرے۔زکوٰۃ لازم ہونے والا نصاب یہ ہے:اگر سونا ہو تو (۸۷)ستاسی گرام،(۴۸۰) چار سو اَسی گرام مقدار نصاب ہے۔ چاندی ہو تو (۶۱۲) چھ سو بارہ گرام ،(۳۶۰) تین سو ساٹھ گرام ہو تو ،یہ مقدار نصاب ہےیا اس کی قیمت کے بقدر رقم ہیں۔یہ دراصل عہد نبویؐ میں بیس مثقال سونا اور دو سو درہم چاندی تھی۔جو آج کے پیمانوں سے وہ مقدار ہے جو اوپر لکھی گئی۔سونے چاندی کے بجائےاگر کسی کے پاس رقم ہو تو اتنی ہونی چاہئے جس سے چاندی نصاب کے بقدر خریدی جاسکے۔اس مقدار نصاب پر جب سال گذر جائے تو زکوٰۃ کی ادائیگی لازم ہوگی۔پھر ہر سال اُسی ماہ کی اُسی تاریخ کو حساب کرکے زکوٰۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔مثلاً کسی شخص کو پہلی مرتبہ محرم کی دس تاریخ کو اتنی رقم آگئی کہ وہ صاحبِ نصاب بن گیا ہو،تو اب محرم کے مہینے میں یہ صاحب ِ نصاب شخص اگلے سال محرم کی دس تاریخ میں دیکھے کہ اُس کے پاس کتنی رقم ہوئی ہے،جتنی رقم ہوگی اُس پوری رقم پر کوٰۃ لازم ہوگی البتہ اگر قرضہ بھی ہو تو قرض کو کم کردےاور بقیہ رقم کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی۔سال گزرنے کا مطلب اسلامی سال ہےنہ کہ انگریزی سال۔ اُس شخص کا سال اُس وقت سے شروع ہوگا جب اُس کے پاس پہلی بار مقدار ِنصاب مال آیا اور یہ تاریخ اُسے ہمیشہ یاد رکھنا ضروری ہےکہ فلاں تاریخ سے میں صاحب ِ نصاب بن گیا ہوں۔
(۲) زکوٰۃ جن اموال پر لازم ہے ،وہ یہ ہیں: سونا ،چاندی ،کرنسی ،مال ،تجارت ،گائے، بیل بھینس (جب تعدادتیس عدد ہو ) بھیڑ ،بکریا ں(جب تعداد چالیس عدد ہو)،اونٹ (جب تعداد پانچ عدد ہوں)شیئر پر زکوٰۃ ،فروخت کرنے کے لئے زمین خریدی تو اُس پر زکوٰۃ لازم ہے۔اس کی مزید تفصیل فقہ کی کتابوں میں ہے۔
(۳) جن اموال پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے ،وہ یہ ہیں: مکان ،مکان کے اندر استعمال کا سامان مثلاً برتن،بستر،کپڑے،قالین ،واشنگ مشین ،فرج،گاڑی ،موبائیل ،صوفے،فرنیچروغیرہ،ان پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے۔کرایہ کا مکان یا کرایہ پر چلنے والی گاڑی پر بھی زکوٰۃ نہیں ہے۔فیکٹری میں زمین ،مشینیں ،مشینوں کے استعمال ہونے والے پُرزے ،اُن پر بھی زکوٰۃ لازم نہیں،البتہ خام مال اور تیارشدہ مال دونوں پر زکوٰۃ لازم ہے،سود پر نہیں۔
ملازمین کے جی پی فنڈ،سی پی فنڈ،ای پی فنڈکی رقوم،جوابھی وصول نہیں ہوئی ہیں،اُن پر بھی زکوٰۃ لازم نہیں۔وہ قرض جو کسی کو دیا گیا اور واپس آنے کی امید ہے،اُس پر بھی زکوٰۃ لازم ہے۔اور جس قرضے کے واپس آنے کی امید نہ ہو ،اُس کی زکوٰۃ ادا کرنا لازم نہیں ہے۔بینک میںجو رقوم ہوتی ہیں اُس میں جو اصل رقم ہے اُس پر زکوٰۃ لازم ہے اور جو زائد رقم یعنی جو سود اس کے اکاونٹ میںآیا ہے اُس پر زکوٰۃ لازم نہیں،اور سود اپنی ذات پر صرَف کرنا بھی حرام ہے۔ایف ڈی کرانا حرام ہے ،البتہ اپنی جمع کردہ رقم پر زکوٰۃ لازم ہے،سود پر نہیں۔
(۴) زکوٰۃ کے مستحق قرآن کریم کےارشادات کے مطابق غرباء،مساکین ،یتیم ،بیوہ ہیں،نیز چند دیگر صارف بھی ہیں جن میں سے کچھ آج مفقود ہیںمثلاً غلاموں کو آزادکرانا ،اسی طرح عاملین یعنی زکوٰۃ وصول کرنے والے خلافتِ،اسلامیہ کے ملازمین وغیرہ ہیں،وہ دینی مدارس جن میں زکوٰۃ اسلامی اصول کے مطابق صرف کی جاتی ہو،اُن دینی مدارس میں بھی زکوٰۃدرست ہےبلکہ ایسے دینی مدارس میں زکوٰۃ دینے کے دوہرے فائدےہیں۔ایک زکوٰۃ کی ادائیگی ہوگی اور دوسرا تعلیم ِدین کی اشاعت میں تعاون دینا۔
(۵) خواتین کے پاس زیورات میں اُن کی زکوٰۃ خواتین پر بھی لازم ہے۔اب یا تو اُن زیورات میں سے کچھ کچھ فروخت کرکے زکوٰۃ اداکرے،یا کسی شخص مثلاً شوہر،بھائی ،بہن سے قرضہ لے کر زکوٰۃ ادا کرے۔یا شوہر اپنی رضا مندی اور خوشی سے اُس کی طرف سے زکوٰۃ ادا کرےاور یہ شوہر کا اُس پر احسان ہوگا۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ عورت اپنے زیورات میں سے کچھ کچھ آئیٹم مثلاً انگوٹھی ،کنگن شوہرکو فروخت کرے ۔شوہر وہ سونے کا آئیٹم خرید کر مالک بن کرپھر اُسی زوجہ کو بغرض استعمال دے۔عورت اُس فروخت شدہ آئیٹم کی قیمت سے زکوٰۃ ادا کرے ۔پھر شوہر کو بیچی گئی اُس چیز کو یہ سوچ کر استعمال کرے کہ اب یہ چیز میری نہیں بلکہ میرے شوہر کی ہے اور شوہر بھی ذہن میں رکھے کہ میری خریدی ہوئی چیز میری بیوی کے استعمال میں ہے۔وہ جب چاہے واپس لے سکتا ہےاور جہاں چاہے خرچ کرسکتا ہے۔اس کے لئے زوجہ بھی ذہناً تیار رہے۔خواتین کے پاس زیورات ہوں اور نقد رقم نہ ہو ،اُس صورت حال میں اگر عورت نے بھی اپنے زیورات کی زکوٰۃ ادا نہ کی اور شوہر نے بھی بطورِ احسان یا بطور ِ قرضہ اُس کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو آخرت میں یہ زیورات زہریلا ناگ بن کر اس عورت کو ڈسے گا،یا یہ سونا چاندی گرم کرکے اُس کے جسم کو داغا جائے گا ۔جیساکہ حدیث سے ثابت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :جب کسی عورت کے شوہر کی وفات ہوجائے تو اس عورت کو عدت گزارنی ہوتی ہے ۔یہ عدت کیا ہے اور کتنے دن؟اور اس میں کیا کیا کرنا ہے اور کیا کیا نہیں کرنا ہے۔
ایک مسلمان خاتون۔سرینگر
شوہر کی فوتیدگی کے بعد ایامِ عدت
جواب :جب کسی عورت کا خاوند فوت ہوجائے تو اس عورت کو چار ماہ دس دن عدت گذارنا لازم ہے۔ ان ایام میں بنائو و سنگھار نہ کرے،زیورات نہ پہنے،دوسرا نکاح نہ کرے،گھر سے باہر نہ نکلے،تقریبات میں نہ جائے،سفر نہ کرے ،جس گھر میں شوہر کی وفات ہوئی ہو ،اسی گھر میں عدت کا یہ عرصہ گذارے۔ہاں! علاج و معالجہ کے لئے ڈاکٹر کے پاس جانا پڑے تو جاسکتی ہے اور گھریلو سامان لانیوالا کوئی نہ ہو تو ضرورت کا سامان لینے کے بقدرِ ضرورت گھر سے باہر جا سکتی ہے۔غم ہلکا کرنے کے لئے رشتہ داروں کے یہاں جانا یا کسی کے یہاں تعزیت کے لئے جانا یا نکاح و شادی کی تقریبات میں جانا بھی درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ہسپتالوں میں مریضوں کو خون چڑھایا جاتا ہے ۔یہ خون کسی دوسرے انسان کا ہوتا ہے ،اس میں مرد و عورت اور مسلم غیر مسلم کا بھی کوئی فرق نہیں ہوتا اور کبھی اس کا معاوضہ بھی دینا ہوتا ،چاہے خون ہی معاوضہ میں دیا جائے اور چاہے رقم۔کیا اسلام میں یہ جائز ہے۔جب قرآن و حدیث میں اس کی اجازت کہیں نہیں تو پھر یہ جائز کیسے ہے؟
ڈاکٹر فیروز احمد ۔سرینگر
عطیہ خون جائز ،اصول اجتہاد کو اپنانے کا نتیجہ
جواب:اسلام میں احکام کی بہت بڑی تعداد ان مسائل کی ہے جو اسلامی اصول ِ اجتہاد سے فیصل ہوتے ہیں۔چنانچہ بہت ساری چیزیں حرام ہیں اور اجتہادی فیصلوں سے حرام ہوئی ہیں۔مثلا شراب کے علاوہ جتنی منشیات حرام ہیںوہ بذریعہ شرعی اجتہاد ۔اسی طرح بھینس کا گوشت اور دودھ حلال ہے ۔حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کے حلال ہونے کا کہیں تذکرہ نہیں۔اسی طرح خون کا عطیہ جائز ہے اور اس پر پوری امت اور علماء کا اتفاق ہے اور وہ اصولِ اجتہاد کو اپنانے کا نتیجہ ہے۔انسان یعنی عورت کے جسم سے خون کی طرح دودھ پیدا ہوتا ہے تو خواتین کا دودھ ایک اہم ترین نعمت ہے ،یہ دوسرے بچے کو پلانا جائز ہے ۔خود رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حلیمہ کا دودھ پیا تھا ۔جیسے عورت کا دودھ دوسرے بچے کے لئے حلال ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اسی پر عطیۂ خون کا مسئلہ کہاگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔