سوال :میں ایک تعلیم یافتہ خاتون ہوں۔ہم خواتین کی محفلوں میں اکثر یہ سوال زیر بحث رہتا ہے کہ کیا اسلام میں مرد کا درجہ عورتوں سے زیادہ بڑا ہے،کیا عورتیں واقعتاً مردوں کے مقابلے میں کم درجہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔اسلام میں عورتوں کے حقوق کیا ہیںاور بہت سارے مرد عورتوں کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں ،جس سے لگتا ہے کہ ان کی نظر میں عورت کی حیثیت بہت کم ہے۔کچھ شرعی عمل ایسے ہیں جو صرف مرد کرتے ہیں ،مثلا مساجد میں جماعت کی نماز ،جمعہ و عیدین کی نمازیں،جنازہ اور جہاد کا عمل۔تو اس سے مردوں کی برتری ظاہر ہوتی ہے اور لگتا ہے کہ مردوں کا مقام عورتوں سے اونچا ہے۔اس بارے میں وضاحت فرمایئے۔
ثمینہ کوثر ،سرینگر
اسلام میں مرد و عور ت کا مقام و مرتبہ!
جواب :اسلام کی نظر میںمرد اور عورت دونوں کا اپنا اپنا درجہ ہے اور برتر وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر زیادہ عمل کرے۔اگر کوئی مرد اللہ و رسولؐ کا نافرمان ہو ،بد اخلاق ہو ،حرام کاموں میں مبتلا ہو،بد کردار ہو ،ظلم کرتا ہو ،بُرے کاموں میں مبتلا ہواور اس کی بیوی نیک ہو ،صوم و صلو اۃکی پابند ہو،با حیا ہو تو یقینایہ عورت اس مرد سے بدرجہا افضل اور برتر ہے۔عورت ماں بھی ہے،بہن بھی ہے اور بیٹی بھی ہے۔ان کا درجہ کتنا ہے اس کا اندازہ ان احادیث سے ہوگا جو ماں اور بیٹی کے متعلق اللہ کے نبی علیہ السلام نے بیان فرمائے ہیں۔شرعی احکام میں مرد اور عورت برابر ہیں۔نماز ،روزہ ،زکواۃ ،حج ،حسنِ اخلاق ،عمدہ کردار،حسن مقال اور اکلِ حلال ،ان تمام احکام میں دونوں شریک ہیں۔ہاں نماز اور روزہ میں بعض اعذار میں عورتوں کو تخفیف دی گئی ہے۔مثلاً ایامِ حیض میں عورتوں کو نمازیں معاف کردی گئیں۔اسی طرح جماعت جمعہ اور عیدین میںبھی عورتوں کو رخصت دی گئی ۔اسی طرح جنازہ وغیرہ عورتوں پر لازم نہیںکیا گیا ،تو یہ معافی ان کے لئے رحمت ہے۔یہ ایسے ہی ہے کہ کوئی مرد بیمار ہوجائے تو اس کو جماعت جمعہ اور جنازہ میں چھوٹ دی گئی۔مردوں کو یہ چھوٹ وقتی ہے ۔عورتوں کو نماز ادا کرنا لازم ہے مگر جماعت لازم نہیں ہے۔عورتوں کے اخلاقی حقوق اسی طرح ہیں جس طرح مردوں کے ہیں،ان میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔اسی طرح عورتوں کو مکمل مالی حقوق دئیے گئے ہیں ،عورت کی کمائی اس کی اپنی ملکیت ہے ۔اس کی جائیداد میں کسی کو تصرف کرنے اور چھیننے کا حق نہیں ،نہ باپ بیٹے کو اور نہ شوہر یا بھائی کو۔اس کو وراثت میں ہر ماں کی صورت میں حصہ دیاجائے،یہ حکم قرآن میں ہے ۔عورت ماں ہو،بیوی ہو،بیٹی ہو یا بہن ہو،ہر حالت میں اسے وراثت لینے کا مکمل حق دیا گیا ہے۔اسی طرح مردوں کو حکم دیا گیا کہ اپنی نظروں کو نیچا رکھیںاور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔یہی حکم عورتوں کو دیا گیا کہ وہ اپنی نظروں کی حفاظت کریںاور شرمگاہوں کا حرام استعمال نہ کریں۔
جو مرد یہ سمجھتے ہیں کہ مرد افضل یا برتر ہیں،ان کی یہ سوچ دینی سوچ نہیںبلکہ معاشرے کے غلیظ تصورات کا نتیجہ ہے۔ہاں یہ بات طے ہے کہ قرآن کریم نے گھریلو زندگی میں مرد کو قوام قرار دیا ہے ،یہ ایسے ہی ہے جیسے سکول میں،دفتر میں،ادارے میں اور کسی فورم میں کوئی ہیڈ ہوتاہے ،حالانکہ سارے مرد ہوتےہیں،جیسے مردوں میں کوئی افسر ہوتا ہے اور کوئی ماتحت ۔اور اسی سے نظام زندگی چلتا ہے اس کی گھریلو زندگی میں مردوں پر ذمہ داریاں بھی زیادہ ڈالی گئیںاور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے اس کو قوام بھی بنایا گیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال:اکثر بیماری کی صورت میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس کو نظر لگ گئی ہے یا اس پر کسی نے سحر کرایا ہے۔کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ کسی کی نظر لگ جائے،یا کسی پر سحر کیا گیا ہو تو کیا واقعی سحر کے اثرات ہوسکتے ہیں؟اگر ایسا ہے تو نظر لگنا یا سحر ہونا برحق ہے۔پھر اس کا علاج کیا ہے؟ قرآن و حدیث میں اس کی کیا رہنمائی ہے؟
غلام نبی خان۔بمنہ سرینگر
سحر اور نظرِ بَد کا علاج
جواب:سحر اور نظر لگنا دونوں برحق ہیں۔سحر اور جادو کا تذکرہ تو قرآن کریم میں ہے۔حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانے میں جادو گر سحر کرتے تھےاور میاں بیوی کے درمیان نزاع پیدا کرکے رشتہ ختم کردیتےتھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ خطرناک جادو گروں سے فرعون نے کرایا تھا ،گویا جادو ایک حقیقت ہے جس کا ثبوت قرآن کریم سے ہے۔حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک یہودی منافق، جس کا نام لبید تھا ،نے جادو کیا تھا۔اس کا اثر ختم کرنے کے لئے سورۂ فلق اور سورہ ناس ،جن کو معوزتین کہا جاتا تھا ،نازل ہوئی تھیں اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان آیات کی تلاوت کی اور وہ جادو کے اثرات ختم ہوئے۔
نظرِ بَد لگنا بھی برحق ہے۔حدیث میں ہے ،جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،نظر لگنا حق ہے ۔(بخاری عن ابی ہریرہ)ایک حدیث میں ہے کہ میری امت میں طبعی موت اور اللہ کی قضاسے و نظر بد سے بھی موتیں ہوں گی ۔(مسند بزار عن جابر)اگر کسی انسان کو بلاوجہ جسمانی بے قراری ہو،بھوک نہ لگتی ہو،نیند نہ آتی ہو،چڑچڑاپن ہو،بلاوجہ غصہ آتا ہو،جوڑوں میں اکڑن ہو ،سُستی اور کاہلی ہو،کثرت سے نیند اور غنودگی رہتی ہو،بلا کسی وجہ کے غم و رنج رہتا ہو،جسم میں سرسراہٹ رہتی ہو،خوامخواہ پریشانی طاری ہوتی ہو ،بار بار پیشاب آتا ہو،دل کی دھرکن تیز ہوتی ہوتو یہ عموماً نظرِ بد کی علامت ہوتی ہے یا یہ کسی جسمانی بیماری کی وجہ سے ہوگا۔دراصل کسی انسان کو جب دوسرے کسی کی کوئی چیز اچھی لگے اور اُس کے دل میں حسد اور جلن پیدا ہوجائے اور پھر حسد کی وجہ سے وہ بار بار اُس شخص کو دیکھے اور اُس خوبی کی وجہ سے اس کے دل میں بُرے جذبات اُبھریں ،جلن ہونے لگے اور وہ سوچے کہ اس کو یہ چیز کیوں ملی ہے تو اِس شخص کی نظرِ بد اُس دوسرے شخص پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہےاور اُس میں وہ علامات شروع ہوجاتی ہیں جو اوپر لکھی گئیں۔جادو اور نظر دونوں کا علاج ہوسکتا ہےاور ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔اس میں شرعی جھاڑ پھونک اور تعویز اور رقیہ بھی ہے ۔قرآن کریم کی آیات میں سے سورہ ٔ فلق ،سورۂ ناس ،آیت الکرسی اور اس طرح کی وہ آیات ،جو منزل نام کی چھوٹی کتاب میں جمع کی گئی ہیں،اُن کو پڑھ کر جادو یا نظر بَد میں مبتلا شخص پر دَم کیا جائے ،یا وہ شخص خود پڑھ کر پھر اپنے جسم پر دَم کرے اور کھانے پینے کی چیزوں پر دَم کرکے اُن کا استعمال کیا جائے ۔جو عامل شرعی طریقوں کے مطابق جادو ،نظر بد اور جنات کا علاج کرتے ہیں،اُن سے بھی علاج کرایا جائے۔ بیت الخلاء جانے کی دعا اہتمام سے پڑھی جائے۔بلا غسل کے جنابت کی حالت میں نہ رہا جائے۔صبح و شام کی تسبیحات اور اَوراد پڑھی جائیںاور ہر نعمت میں برکت کی دعا پڑھی جائے۔جو چیز اچھی لگے تو زبان سے ماشاء اللہ ،تبارک اللہ پڑھا جائے۔نمازیں ،تلاوت ،تسبیحات ،استعغفار ،صبح و شام کی دعائیں اہتمام سے پڑھی جائیں۔پاک وصاف رہنے کے ساتھ تقویٰ و طہارت کی زندگی اختیار کی جائے۔توہّم پرستی ،بدعات و شرکیات سے پرہیز کیا جائےتو ان بُرے خطرات سے تحفظ کی فوری امید ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :بچہ پیدا ہونے کے بعد خواتین کو جن ایام کی نمازیں معاف ہوتی ہیں وہ ایام کتنے ہوتے ہیں ۔عموما ًہمارے معاشرے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ چالیس دن ہوتے ہیں ۔ہمیں یہ بتائیے کہ یہ ایام کتنے ہوتے ہیں اور ان ایام میں کیا کیا عبادت جائز ہے اور کیا کیا منع ہے؟
مسرت ناز ۔بارہمولہ کشمیر
بچے کی پیدائش کے بعد نماز کتنے دنوں کے لئے معاف ہے
جواب : بچہ تولد ہونے کے بعد عورت کو ایام زچگی میں نمازیں معاف کردی گئیں ہیں۔جیسے حیض کے ایام میں نمازیں معاف ہیں۔اسی طرح ان ایام کی نمازیں بھی معاف ہیں۔یہ ایام صرف اتنے دن ہیں جتنے دن خون آتا رہے اس کے لئے دنوں کی تعداد مقرر نہیں ہے۔جیسے حیض جتنے دن آئے اتنے دن کی نمازیں معاف ہیں۔لہذا یہ سمجھنا کہ چالیس دن کی تعداد مقرر اور طے ہے،یہ اور چاہے خون بند ہوچکا ہو پھر چالیس دن نمازیں چھوڑے رکھنی ہیں یہ صحیح نہیں ہے۔بس جونہی خون آنا بند ہوجائے ،نمازیں فرض ہوجائیں گی۔ان ایام کو ایامِ نفاس کہتے ہیں۔حیض اور نفاس دونوں کے ایام میں نمازیں معاف ہیںیعنی نہ ادا اور نہ قضا۔روزے ان ایام میں نہیں رکھنے ہیںبلکہ بعد میں قضا کریں گی۔قرآن کریم کی تلاوت منع ہے اور شوہر سے ہمبستر ہونا بھی منع ہے۔تسبیحات ،درود ،استعغفار ،اذکار اور دعائیں کرنے کی اجازت ہے۔کھانا پکانے ،کپڑے دھونے اور دوسرے جو کام وہ کرسکتی ہو،کرنے کی اجازت ہے۔اگر وہ مکہ مکرمہ میں ہو تو طواف کرنے کی اجازت نہیں اور مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔جیسے کوئی مرد اگر بے غسل ہو تو مسجد میں نہیں آسکتا ،اسی طرح حیض و نفاس والی بھی مسجد میں نہیں آسکتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ہسپتالوں میں مریضوں کو خون چڑھایا جاتا ہے ۔یہ خون کسی دوسرے انسان کا ہوتا ہے ،اس میں مرد و عورت اور مسلم غیر مسلم کا بھی کوئی فرق نہیں ہوتا اور کبھی اس کا معاوضہ بھی دینا ہوتا ،چاہے خون ہی معاوضہ میں دیا جائے اور چاہے رقم۔کیا اسلام میں یہ جائز ہے۔جب قرآن و حدیث میں اس کی اجازت کہیں نہیں تو پھر یہ جائز کیسے ہے؟
ڈاکٹر فیروز احمد ۔سرینگر
عطیہ خون جائز ،اصول اجتہاد کو اپنانے کا نتیجہ
جواب:اسلام میں احکام کی بہت بڑی تعداد ان مسائل کی ہے جو اسلامی اصول ِ اجتہاد سے فیصل ہوتے ہیں۔چنانچہ بہت ساری چیزیں حرام ہیں اور اجتہادی فیصلوں سے حرام ہوئی ہیں۔مثلا شراب کے علاوہ جتنی منشیات حرام ہیںوہ بذریعہ شرعی اجتہاد ۔اسی طرح بھینس کا گوشت اور دودھ حلال ہے ۔حالانکہ قرآن و حدیث میں اس کے حلال ہونے کا کہیں تذکرہ نہیں۔اسی طرح خون کا عطیہ جائز ہے اور اس پر پوری امت اور علماء کا اتفاق ہے اور وہ اصولِ اجتہاد کو اپنانے کا نتیجہ ہے۔انسان یعنی عورت کے جسم سے خون کی طرح دودھ پیدا ہوتا ہے تو خواتین کا دودھ ایک اہم ترین نعمت ہے ،یہ دوسرے بچے کو پلانا جائز ہے ۔خود رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حلیمہ کا دودھ پیا تھا ۔جیسے عورت کا دودھ دوسرے بچے کے لئے حلال ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اسی پر عطیۂ خون کا مسئلہ کہاگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ظہر کی اذان سے متعلق ہمارا سوال یہ ہے کہ اس کا وقت کب شروع ہوتا ہے ۔اس کے لئے کہ دوپہر کو زوال کبھی ساڑھے بارہ بجے ،کبھی اس سے پہلے اور کبھی اس کے بعد ہوتا ہے۔بلکہ کچھ ایام میں پونے ایک بجے بھی شروع ہونا میقات الصلو میں درج ہے۔اب ظہر کی اذان کب پڑھی جائے،یہی سوال جمعہ کی پہلی اذان کے متعلق بھی ہے۔بعض مساجد میں پورے سال پہلی اذان ساڑھے بارہ بجے ہوتی ہے۔اس سلسلے میں شرعی رہنمائی کیا ہے؟
ہلال احمد ۔سرائے بالا ،سرینگر
اذانِ ظہر و جمعہ: زوال سے پہلے درست نہیں
جواب:ظہر اور جمعہ دونوں نمازوں کا وقت دوپہر کو زوال کے بعد شروع ہوتا ہے ۔اس لئے زوال سے پہلے نہ ظہر کی اذان درست ہے اور نہ جمعہ کی۔اب اگر ساڑھے بارہ بجے زوال ہوجائے تو ظہر اور جمعہ دونوں کا وقت شروع ہوگیا ،اس لئے ان دونوں نمازوں کی اذان بھی درست ہوگئی اور سنتیں پڑھنا بھی صحیح ہے اور جن ایام میں زوال ساڑھے بارہ بجے کے بعد ہوتا ہے،ان ایام میں ظہر اور جمعہ دونوں اس وقت درست ہیں جب میقات الصلوٰۃ کے مطابق زوال ہوچکا ہو۔لہذا جن ایام میں پونے ایک بجے شروعِ ظہر لکھا ہوتا ہے،ان ایام میں جمعہ اور ظہر دونوں کی اذان پونے ایک بجے ہونی چاہئے ۔اس سے پہلے نہ اذان درست ہے اور نہ سنتیںادا کرنا درست ہے۔یہ بات مساجد کے ائمہ حضرات اور مساجد کے منتظمین کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔