مفتی نذیر احمد قاسمی
سوال :آج کے دور میں مساجد کے اماموں کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا جاتا ہے وہ سب دیکھتے ہیں ،جبکہ بہت ساری مساجد میں اماموں کابہت احترام اور اُس کے حقوق ادا کرنے کا بھی خوب اہتمام ہوتا ہے۔ بہت سارے اماموں کا حال یہ ہے کہ مسجد کی انتظامیہ نے بہت معمولی بہانہ پکڑا اور امام کو مسجدکی امامت سے ہٹا دیااور مسجد کے تمام نمازی بھی اس کو محسوس کرتے ہیں مگر یہ سوچ کر چُپ رہتے ہیں کہ کیوں ان کے منہ لگیںاور ہم کیوں اپنے تعلقات تلخ بنائیںاور یہ سمجھ کر کبھی اس پر توجہ نہیں دیتے۔اب شرعی طور پر بتایئے کہ وہ کیا امور ہیں، جن کی بنا پر امام کو معزول کرنا جائز ہے اور وہ کون سے امورہیں جن کی بنا پر معزول کرنا جرم ہے۔
منجانب۔ تنظیم الائمہ،سرینگر
امام مسجد کی معزولی ،غیر شرعی فیصلہ کا مواخذہ ہوگا!
جواب :شرعی نقائص کسی شخص میں نہ ہوں اور امامت کے لئے جو اوصاف مطلوب ہیں ،وہ امام میں پائے جاتے ہوںتو پھر اُس کو معزول کرنا ہی شرعاً غلط ہےاور اگر کسی انتظامیہ نے ایسےامام کو معزول کیا جو واقعتاً معزول ہونے کا مستحق تھا تو انتظامیہ نے اپنا فریضہ ادا کیا۔اور اگر امام معزول ہونے کا مستحق نہ تھا ،نہ ہی شرعاً اُس کے اندر کوئی ایسا عیب تھا جس کی بنا پر وہ امامت کا اہل نہ ہو تو ایسے امام کو معزول کرنا جرم بھی ہے اور ظلم بھی،اور دنیا میں اگرچہ انتظامیہ کو اس غیر شرعی فیصلہ سے روکنا بظاہر مشکل ہے مگر آخرت میں مواخذہ ہوگا۔امام مقتدیوں کی کوئی منشا ء پوری نہ کرے یا اُس سے کوئی غلطی ہوجائے مگر وہ غلطی اس درجہ کی نہ ہو کہ وہ معزول ہوسکے ،پھر بھی امام کو ہٹایا دیا گیا تو کمیٹی کو اس کا حساب دینا ہوگا۔امام کے اندر یہ اوصاف ہونے چاہئیں:
(۱) عقائد درست ہوں۔(۲) قراان کریم کی صحیح تلاوت کرتا ہو۔(۳) ضروری مسائل ِ نماز سے واقف ہو۔(۴) گناہِ کبیرہ سے محفوظ ہو۔(۵) شرعی لباس اور وضع قطع ہو۔یہ پانچ اوصاف ہوں تو اسکو امام مقرر کرنے کے بعد ہٹانا غیر شرعی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :نکاح اور شادیوں میں شوہر کی طرف سے بیوی کو تحفے دیئے جاتے ہیں،جن کو گفٹ بھی کہتے ہیں اور کشمیری سماج میں اُس کو’ تھان‘ بھی کہتے ہیں۔اکثر تو یہ سونا ہوتا ہے،کبھی پونڈ اور کبھی زیورات اور کہیں نقد بھی اور اسی طرح مہنگے کپڑوںوغیرہ صورتوں میں بھی۔اب سوال یہ ہے کہ یہ کس کا حق ہے۔خاص کر جب رشتہ کسی وجہ سے مقطع ہوجائے تو یہ کس کا حق ہے۔شوہر کا یا زوجہ کا۔طالق یا مطلقہ کا۔ہم ایک انتظامیہ کمیٹی چلاتے ہیں اور اس لئے اس طرح کے معاملات کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔لہٰذا ہماری رہنمائی فرمایئے۔
ایک رکن کمیٹی ۔بمنہ سرینگر
شادی میں دلہن کو دیئےجانے والے تحائف کس کی ملکیت؟
جواب :نکاح میں رشتہ شروع کرنے سے لے کر رخصتی ہونے تک دونوں طرف سے قسم قسم کے تحائف لینے اور دینے کا رواج قدیم دور سے چلا آرہا ہے ۔ان میں اکثر لوگوں کی نیت تو تحفہ دینے کی ہوتی ہے مگر ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ اس نیت سے بھی دیتے ہوں کہ جب چاہیں ،دی ہوئی چیز ہم واپس لیں گے۔اگر دیتے وقت نیت تحفہ ،ہدیہ،عطیہ ،گفٹ یا حسبِ رواج دینے کی ہو ئی تو پھر وہ خاتون اس کی مالک بن گئی۔اب یہ رشتہ برقرار رہے تو شوہر کو تحفہ میں دی ہوئی چیز واپس لینے کا حق نہیںہے اور نہ ہی رشتہ ختم ہونے کے بعد واپس لینے کا حق ہے۔ اور اگر یہ تحفہ یا ہدیہ چاہے اس کو تھان کہہ کر دیں یا کسی اور نام سے دیں،دیتے وقت یہ نیت تھی کہ یہ صرف عاریت یا امانت کے نام پر دے رہے ہیں اور جب چاہیں یہ واپس لینے کا اختیار ہوگا تو اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ چیز دیتے وقت صاف صاف ،صراحت سے یہ کہہ دیا جائے کہ یہ تحائف چاہے زیورات ہیں یا پونڈٖ یا کچھ اور،صرف بغرض استعمال ہیں اور آئندہ شوہر جب چاہے واپس لینے کا حق رکھتا ہے،تو یہ مجلس ِ نکاح میں واضح کرنا ضروری ہےاور نکاح کی دستاویز پر بھی اس کا اندراج کرنا چاہئے۔اگر مجلس نکاح میں یہ صراحت اور وضاحت نہیں کی گئی ہے تو رشتہ ختم کرنے کے بعد اس کی واپسی کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہےاور نہ ہی کمیٹی والے طلاق کی صورت میںواپس دلانے کا حق رکھتے ہیں۔ہاں اگر کسی نزاع میںخلع ہو اور اس میں فریقین یہ طے کریں کہ تحائف و ہدایا کے عوض خلع ہورہا ہے تو پھر لینا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :خدا تعالیٰ اولاد عطا کرتا ہے تو خوشی ہونا فطری امر ہے۔احباب ،اقارب اور نزدیک و دور کے رشتہ دار مبارک بادی کے لئے آتے ہیںاور کچھ رقم بھی دے جاتے ہیں۔ یہ رقم دودھ پیتے بچے کی جیب میں،کبھی ہاتھ میںاور کبھی ماں کے ہاتھ میں دی جاتی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ رقم کس پر خرچ کی جائے۔کیا والدین اپنے اوپر یہ رقم خرچ کرسکتے ہیں یا یہ رقم اُس بچے پر ہی خرچ کرنا لازم ہے۔تفصیل سے جواب دیجئے گا۔
صائمہ پروین ،بانڈی پورہ
بچے کی تولید پر ملنے والی رقوم اور اشیاء کا استعمال!
جواب :بچے کی تولید پر مبارک بادی کے لئے لوگ آتے ہیں اور مبارک بادی کے ساتھ رقوم بھی دیتے ہیںاور چیزیں بھی۔اس میں کھانے پینے کی چیزیں بھی ہوتی ہیں۔یہ تمام رقوم و اشیاء حقیقت میں والدین کو دی جاتی ہیں،اس لئے کہ آنے والے افراد مرد ہوں یا خواتین،اُن کا تعلق بچے سے نہیں ہوتا ،اُس کے والدین سے ہوتا ہےاور اگر والدین سے تعلق نہ ہو تو کوئی بھی اس بچے کو کچھ نہ دے گا۔اس لئے بچے کو دیئے گئے تحائف اور رقوم کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ بچے پر خرچ ہوںاور یہ بھی جائز ہے کہ والدین اپنی ضروریات میں خرچ کریں۔دونوں طرح سے عمل کرنے کی شرعاً جازت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :اگر والدین اپنے بچے کا نام صرف محمد یا احمد رکھیںتو کیا یہ دُرست ہے؟کچھ لوگ کہتے ہیں کہ صرف محمد نام رکھنا صحیح نہیں ہے۔جواب عنایت ہو۔
صائمہ پروین۔بانڈی پورہ
بچے کا نام محمد رکھا جائے تو احتیاط لازم
جواب :حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،میرا نام رکھو۔یعنی جب اپنے بچے کا نام رکھنا ہو تو میرا نام یعنی محمد رکھنا۔اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے دیکھا گیا کہ امت مسلمہ نے سب سے زیادہ یہی نام رکھا ہے۔حتیٰ کہ دس دس نسلوں تک یہی نام بھی پایا گیا ۔اس لئے یہ کہنا کہ یہ نام صحیح نہیں یا یہ کہنا کہ یہ نام بھاری ہے،جہالت ہے۔البتہ جب یہ مبارک نام اپنے بچے کو رکھیں تو پھر اُس بچے کو نام سے خطاب کرتے وقت بہت محتاط رہنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :میں ایک کمانے والی خاتون ہوں ،اچھی خاصی ملازمت ہے۔میری سیلری پر میرے میکے کا یامیرے شوہر کا یا میرے سسرال کا کوئی حق ہے یا نہیں؟ میرے شوہر کبھی اشارتاً،کبھی کھل کراور میرے ساس وسسربھی دبے لفظوں میں میری آنے والے سیلری کا مطالبہ کرتے ہیں۔میںاگر گھر کے لئے کوئی چیز لائوں تو اس کا شرعی حکم کیا ہے۔
ایک خاتون ۔سرینگر
خاتون کی کمائی اُسی کاحق،کوئی مطالبہ نہیں کرسکتا
جواب :خواتین کی کمائی کا کوئی بھی ذریعہ ہو،بہر حال اُس کی آمدنی پر اُسی کا حق ہے۔کسی دوسرے فرد ،باپ،بھائی ،شوہر ،سسر ،ساس ، ماں ،بہن اور بیٹا و بیٹی اُس پر اپنا حق نہیں جتلا سکتے۔اگر شوہر یا باپ یا ساس وسسر سیلری میں اپنا حق جتلا کر اُس کا مطالبہ کرتے ہیں تو یہ غیر شرعی مطالبہ ہے۔ہاں! اگر عورت اپنی رضامندی سے اپنے گھر پر کچھ خرچ کرے،یا اپنی خوشی سے بطور ہدیہ اپنے شوہر یا ساس سسر کو کچھ رقم دے تو جائز ہوگا،مگر یہ نہ لازم ہے نہ اس کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔اسی طرح خاتون اپنے گھر کے لئے اگر کوئی کھانے پینے کی چیز لائے اور اپنی خوشی سے سارے گھر والوں کو کھلائے تو حرج نہیںلیکن اگر اُس نے کوئی استعمال کی چیز خریدی ،مثلاًفرج،واشنگ مشین ،سکوٹی ،قالین ،برتن وغیرہ، تو یہ اُس کی ذاتی چیز ہوگی ،وہ سب اہل خانہ کو استعمال کی اجازت دے تو استعمال کرسکتے ہیںمگر یہ شٔے اُسی خاتون کی مملوکہ چیز کہلائے گی۔یہ مشترکہ گھر کی چیز تب بنے گی جب وہ خاتون اپنی زبان سے یہ کہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :بہت سارے بے اولاد افراد کسی سے بچہ لے کر اُسے اپنا بیٹا بنا لیتے ہیں ،اس کو ہمارے عرف سے ’’منگتہ‘‘ کہتے ہیں۔شریعت اسلامیہ میں اس کی حیثیت کیا ہے؟
محمد عثمان ،نسیم باغ سرینگر
منہ بولے بیٹے(منگتہ)کی شرعی حیثیت
جواب:کسی بھی ایسے شخص ،جو بے اولاد ہو،’’منگتہ‘‘ یعنی بیٹا لانا ہرگز جائز نہیں ہے۔ہاں ’منگتہ‘ بمعنیٰ بھائی لانے کی اجازت ہے۔یعنی جب کوئی بچہ لایا جائے تو اُس کی اپنی اصل ولدیت برقرار رکھی جائےاور لانے والا اُس کو اپنا بھائی بنائے،پھر اُس کی تعلیم ،پرورش وغیرہ کرےاور اُس کو آئندہ املاک و جائیداد چونکہ بطور وراثت لینے کا حق نہیں ہے،اس لئے یا تو اس کے نام وصیت کی جائےیا ہبہ لکھا جائےاور اس کی تصدیق شریعت اور قانون دونوں طرح کراناضروری ہے۔
عربی میں اس لڑکے کو ’ متبنیٰ‘ اور اردو میں ’لے پالک‘ بچہ کہتے ہیں۔جو شخص ’لے پالک ‘بچہ لانے کا ضرورت مند ہو اور جو شخص اپنا بچہ دینے پر آمادہ ہو ،اُن دونوں کے لئے لازم ہے کہ وہ اس سلسلے میں پہلے کسی ماہر مفتی اور ماہر و ہمدرد قانون دان سے پوری رہنمائی لیں،پھر یہ قدم اٹھائیں اور جو شخص کسی کو متبنیٰ بنا چکا ہے اُس کی بھی اور اُس بچہ جو متبنیٰ بن کر گیا ہے اور اُن کی بھی جنہوں نے بچہ دیا ،ذمہ داری ہے کہ وہ آج ہی اس کے متعلق شرعی احکام معلوم کریں،پھراس کے مطابق آگے عمل کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال :ہمارے معاشرے میں بے شمار لوگ حتیٰ کہ پڑھے لکھے بھی معمولی گھریلو نزاعات میں غصہ میں اگر طلاقیں دیتے ہیں اور پھر جونہی غصہ ختم ہوجاتاہے اور طلاق کے نتائج کو سوچنے لگتے ہیں تو ندامت ہوتی ہے اور پھر یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح ہمارا رشتہ ختم ہونے سے بچ جائے۔اب پریشانی کے عالم میں علماء و مفتیان کرام سے رشتہ بچانے کی کوئی سبیل ڈھوندتے ہیں۔اس صورت ِ حال کے متعلق کچھ لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ غصہ میں طلاق ہوتی ہی نہیں ہے۔اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں۔
عاشق حسین۔شیخ باغ سوپور
غصّہ میں دی گئی طلاق ،اہم مسئلے کی وضاحت
جواب :طلاق غصّہ میں دی جائے یا عام حالات میں،جب طلاق دینے والے کو طلاق دینا یاد ہے اور وہ لڑائی کی ساری تفصیل اور غصہ میں بولے گئے طلاق کے الفاظ خود بول رہا ہے تو یہ طلاق یقیناً واقع ہوگئی۔نیت ہو یا نہ ہو ،ارادہ چاہے طلاق دینے کا ہو یا نہ ہو،باہوش ،عاقل، بالغ شخص کی زبان سے نکلنے والے طلاق کے الفاظ لغو نہیں ہیں، بلکہ یہ طلاق لازمی واقع ہوگی۔اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ غصہ میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی ،وہ غلط سمجھتا ہے۔ہاں اگر غصہ میں کوئی شخص بالکل بے قابو ہوجائے اور وہ سوچ کر یا ارادہ کرکے کچھ نہیں بولتا اور اُسے یہ بھی پتہ نہیں کہ غصہ میں اُس نے کیا کیا کہا ہےاور کیا کیا حرکتیں کی ہیں،ایسے غصہ میں دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی،کیونکہ وہ ایک قسم کے جنون کا شکار ہوا ہے۔اور اگروہ معمولی غصہ میں تھا اور اُسی میں طلاق دے گیا ،پھر پچھتاوا ہوا اور کسی مفتی کے سامنے یہ ظاہر کیا کہ میں نارمل غصہ سے زائد سخت ترین غصہ میں تھا،اور اس کے بیان کی بنا پر کسی مفتی نے طلاق واقع نہ ہونے کا فتویٰ دیا تو اس فتویٰ کی بنا پر اللہ کے یہاں یہ زوجین نہیں بلکہ طلاق یافتہ ہوں گے۔شریعت اسلامیہ نے عورت کے ہاتھ میں طلاق اس لئےنہیں دی ہے کہ وہ جذبات میں بے قابو ہوکر اس کا غلط استعمال نہ کرے گی،پھر طلاق کا لفظ بول دیتے ہیں ،وہ اپنے آپ کو ایک خطرناک مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔طلاق مان لیں تو گھر ٹوٹے گا ،خاندان بکھر جائے گا اور طلاق نہ مانیں تو زندگی بھر گناہ کا ارتکاب رہنے کا خطرہ ہے ،چاہے وہ خوداور اُن کے احباب و اقارب یہ سمجھتے رہیں کہ ہمارا نکاح نہیں ٹوٹا مگر اللہ کے یہاںوہ ٹوٹ چکا ہوگا ۔خلاصہ یہ کہ غصہ کو قابو میں رکھیں اور طلاق کا لفظ ہرگز استعمال نہ کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔