سوال:۱-قربانی کس پر لازم ہے اور جس پر قربانی لازم نہ ہو اگر وہ قربانی کرے گا تو کتنا ثواب ہوگا او رجس پرقربانی لازم ہو وہ نہ کرے تو اس کے لئے شریعت کا کیا حکم ہے ؟
سوال :۲-آج کل بہت سے دینی ادارے بھی اور فلاحی امدادی یتیم خانے قربانی کا اجتماعی نظام کے لئے اپیلیں کرتے ہیں ۔کیا اس طرح قربانی ادا ہوجاتی ہے ؟ اگر کسی کو اس طرح کے ادارے سے قربانی کرنے کی ضرورت ہوتو اس بارے میں کیا حکم ہے اور اگرکوئی بلاضرورت صرف رقم کم خرچ کرنے کے لئے ایسا کرے تو کیا حکم ہے ؟
عبدالعزیز خان ……کپوارہ،کشمیر
قربانی کن پر واجب ؟
جواب: جس شخص کے پاس مقدارِ نصاب مال موجود ہو اُس پر قربانی واجب ہے ۔ نصاب 612گرام چاندی یا اُس کی قیمت ہے۔ اس کی قیمت آج کل کشمیر میں ساڑھے پینتیس ہزار روپے ہے ۔اب جس شخص کے پاس عیدالاضحی کے دن صبح کو اتنی رقم موجود ہو تو اُس شخص کو شریعت اسلامیہ میں صاحبِ نصاب قرار دیا گیا ہے ۔ ایسے شخص پر مرد ہو یا عورت اُس پر قربانی کرنا لازم ہے ۔ اگرایام قربانی میں اُس نے قربانی نہ کی تو اُس کے بعد اُس کو اتنی رقم صدقہ کرنا لازم ہے ۔ اگر قربانی بھی نہ کی اور بعد میں صدقہ بھی نہ کیا تو وہ گنہگار ہوگا۔اب جس پر قربانی لاز م ہے جب وہ قربانی کا عظیم عمل کرتاہے تو اسے بے انتہا فضیلت حاصل ہوتی ہے ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قربانی کے جانور کاخون زمین پر گرنے سے پہلے پہلے قربانی کرنے والے کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ایک حدیث میں ہے قربانی کے جانور کے جسم پر جتنے بال ہوتے ہیں اُتنی نیکیاں اُس کے نامۂ اعمال میں لکھی جاتی ہیں ۔ ایک حدیث میں عیدالاضحی کے دن قربانی سے زیادہ اور کوئی مکمل اللہ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے ۔
قربانی وکالتاً دُرست
جواب:۲-اجتماعی قربانی کا یہ سلسلہ جویہاں بہت سے دینی مدرسے اور کچھ ادارے انجام دیتے ہیں ، یہ دُرست ہے ۔ یہ دراصل وکالتاً قربانی ہے ۔ جیسے کہ وکالتاً صدقہ وزکوٰۃ اداہوتی ہے ۔اسی طرح قربانی بھی ادا ہوتی ہے ۔جب زکوٰۃ دینے والا کسی معتمدادارے کو زکوٰۃ دیتاہے او روہ ادارہ اُس زکوٰۃ دینے والے شخص کی طرف سے وکیل بن کر مستحقین پر زکوٰۃ صرف کرتاہے۔ اس طرح کوئی ادارہ قربانی کرنے والوں کی طرف سے وکیل بن کر قربانی کرتاہے ۔
حضرت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی قربانی (جو حج کی قربانی تھی)کے 100اونٹوں میں سے 63اونٹ خود ذبح فرمائے اوربقیہ اونٹ حضرت علی ؓ نے قربانی کئے ۔ یہ حضرت علی ؓ کا حضور صلی اللہ علیہ سولم کی طرف سے وکالتاً قربانی کرنا تھا۔اسی طرح خواتین کی طرف سے اُن کے مردذبح کرتے ہیں یا اکثر مسلمان خود اپنے ہاتھ سے ذبح نہیں کرتے بلکہ قصائی سے ذبح کراتے ہیں ۔ یہ سب وکالتاً قربانی ہوتی ہے ۔ اس طرح وکالتاً قربانی کرنے کا یہ سلسلہ پورے عالم میں حتیٰ کہ حرمین الشریفین میں بھی ہمیشہ جاری ہے اور آج بھی لاکھوں قربانیاں وکالتاً ہوتی ہیں۔ اس لئے یہ مکمل طور پر دُرست ہے ۔اس میں رقم کم نہیں برابر خرچ ہوتی ہے۔بڑے جانورمیں سات حصے ہیں ۔
صاحبِ نصاب میاں بیوی پر الگ الگ قربانی لازم
سوال:۱- کیا قربانی کرتے وقت ان تمام افراد کا نا م لینا ضرروری ہے یا نہیں؟
سوال:۲- کیا ایک قربانی پورے گھر کی طرف سے کافی ہوجاتی ہے یا گھر کے ہر فردکو الگ الگ قربانی کرنا ضرور ی ہے ۔کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ صرف ایک قربانی کرنے سے پورے گھر والوں کی قربانی ادا ہوجاتی ہے ، کیا یہ صحیح ہے ۔
منظور احمد…کنگن گاندربل
جواب:۱-قربانی کرتے وقت ان افراد کا نام لینا ہرگز لازم نہیں ۔ بس صرف نیت یعنی دل میں ارادہ ہو کہ یہ جانور فلاں فلاں شخص کی طرف سے قربان کیا جارہاہے اور ذبح کرنے کی نیت لفظوں میں پڑھ کر پھر ذبح کیا جائے۔ جن افراد کی طرف سے جانور ذبح ہورہاہے ان کا ارادہ کرنااور پھر جانور کی قیمت ادا کرنا اور گوشت لے کر خود کھانا یا تقسیم کرنا کافی ہے ۔ بوقت ذبح نام بنام لے کر ذبح کرنے کا شریعت سے حکم نہیں ہے ۔
جواب:۲-جس فرد پر قربانی لازم ہوگئی جب اس نے قربانی کی تو وہ صرف اس ایک فرد کی طرف سے ادا ہوگی۔ سارے گھروالوں کا فریضہ اس سے ہرگز ادا نہ ہوگا۔اور یہ ایسا ہی ہے کہ اگرگھر کے کئی افراد پر زکوٰۃ لازم ہو تو صرف ایک فرد کے زکوٰۃ ادا کرنے سے سب کی طرف سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔ یا صدقۂ فطر شوہر پر لازم ہے اور بیوی پر بھی ۔اب شوہر صرف اپنا صدقہ فطر ادا کرے تو اس سے بیوی کا صدقۂ فطر ادا کئے بغیر کیسے ادا ہوجائے گا یا مثلاً گھر کے دو افراد پر کسی کا قرض ہوتو صرف ایک فرد اپنا قرضہ ادا کر ے تو دوسرے کا اداکئے بغیر کیسے اداہوگا۔اسی طرح مثلاً مرد پر اس کے اپنے صاحب مال ہونے کی بناء پر قربانی لازم ہواور اس کی زوجہ پر خود اس کے صاحب مال(مہر ، زیورات وغیرہ) ہو نے کی وجہ سے قربانی لازم ہو تو اب صرف شوہر کے قربانی کرنے سے بیوی کا فریضہ ہرگز ساقط نہ ہوگا اور اگر بیوی قربانی کرے تو شوہر کی طرف سے ہرگز وہ قربانی ادا نہ ہوگی بلکہ دونوں کو الگ الگ قربانی کرنا لازم ہے۔
دراصل ایک گھر میں اگر صرف ایک فرد پر قربانی لازم تھی اور اس نے وہ کی تو اس ایک قربانی کی برکات ، اثرات اور اس کے گوشت سے فائدہ اٹھانے میں سبھی گھروالے شریک ہو جائیں ، اس کے معنی ہرگز یہ نہیں ہیں کہ ایک فرد کا ادائیگی فریضہ سبھی گھروالوںپر لازم ہونے والا حکم اورقربانی کیسے ادا ہوجائے ۔
س:- کیا مقررہ وقت سے پہلے کوئی بھی نماز ادا کی جاسکتی ہے ؟
علی محمد بٹ…منی گام ،گاندربل
وقت سے پہلے نماز ادا نہیں ہوتی
جواب:-قرآن کریم میں صاف اور واضح ارشاد ہے جس کا ترجمہ یہ ہے ۔ بلاشبہ نماز اہل ایمان پر وقت پر فرض ہے ۔ حدیث میں ہے حضرت نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا گیا کہ افضل ترین عمل کون سا ہے ؟ آپؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا: نماز اپنے وقت پر پڑھنا۔اس لئے احادیث کی کتابوں میں بھی اور فقہ کی کتابوں میں بھی اوقات نماز کا مستقل بیان ہوتاہے ۔ اُس میں ہر ہر نماز کا وقت آغاز اور وقت اختتام بتایا گیا۔ اگر وقت آغاز سے پہلے نماز پڑھی جائے تو وہ نماز ہی ادا نہ ہوگی ۔ یہ ایسا ہی ہے کہ صبح صادق سے پہلے فجر ، یا غروب آفتاب سے پہلے مغرب کی نماز پڑھی جائے ۔اسی طرح غروب شفق سے قبل نمازِ عشاء پڑھی جائے تو وہ عشاء ادا ہی نہ ہوگی ۔ جیسے غروبِ آفتاب کا وقت جنتریوں سے معلوم ہوجاتاہے اسی طرح غروب شفق کا وقت بھی معلوم ہوجاتاہے اور یہی شروعِ عشاء کا وقت ہے ۔ اگر وقت مقررہ کے بعد نماز پڑھی جائے تو وہ قضاء ہوگی ۔بہرحال ہر نماز اپنے وقت پر پڑھنا ضروری ہے ۔