نشاط یاسمین خان
ایس معشوق احمد کا تعلق کولگام کشمیر سے ہے۔ پاکستان میں ان کی کتاب میں نے دیکھا کو انہماک انٹرنیشنل پبلکیشنز نے چھاپا ہے۔اس کتاب میں انشائیے اور خاکے شامل ہیں اور یہ ان کی اولین تصنیف ہے۔فیس بک کی آمد سے پہلے تو ہم کشمیر کے کسی مصنف کو نہیں جانتے تھے۔ وجہ خالص سیاسی تھی۔ ہندوستان کی فلموں، گیتوں اور اداکاروں کی ساری معلومات تو ہمیں ازبر تھیں مگر ہم کشمیری ادیبوں سے واقف نہیں تھے کہ وہ کیا لکھ رہے ہیں، کیا خیالات و جذبات رکھتے ہیں یا رکھتے بھی ہیں یا نہیں مگر بھلا ہو سوشل میڈیا کا اس نے نہ صرف ہمیں ایک دوسرے سے متعارف کروایا بلکہ ان کی تخلقات پڑھنے کا موقع بھی میسر رکھا۔ ایس معشوق احمد سے تعارف فیس بک بنا اور ان کے فکاہیہ مضامین ہم فیس بک پر ہی پڑھتے رہتے ہیں۔پڑھ کر انہیں داد بھی دیتے ہیں کہ وہ ایسا ادیب ہے جو مشکل حالات میں بھی جینے کی راہ نکال رہا ہے اور اداس چہروں پر مسکراہٹ بکھیر رہا ہے۔ کتابی صورت میں ان کے انشائیوں اور خاکوں کا مجموعہ اب پڑھنے کو ملا۔ یہ مجموعہ کافی عرصہ پہلے ملا تھا مگرکتابوں کے ڈھیر میں گم ہوگیا تھا۔ کچھ دنوں پہلے کتابوں کی چھانٹی کرتے ہوئے دستیاب ہوا تو میں نے ایک دو نشستوں میں پورا پڑھ ڈالا اور اسے بے انتہا دل چسپ پایا ۔ کچھ مضامین تو بے انتہائی لاجواب ہیں جیسے ’’کشمیر میں سب کچھ ہے پیارے‘‘، ’’شاعر اور بیوی‘‘ مرزا غالب کے خلا ف مقدمہ اور کام۔کام تو ہے ہی بڑا اور کام بابا بھی تو بڑے کام کے ہیں۔
ان کے ایک مضمون کا نام رحمان کاک ہے جو ایک کردار کے نام پر ہے۔انہوں نے رحمان کاک کا کردار اگر خود گڑھا ہے تو خوب گڑھا ہے، اگر ایسا کردار موجود ہے تو واقعی محفل جمعی رہتی ہوگی۔ ایس معشوق احمد نے اپنی کتاب کا نام ’’میں نے دیکھا ‘‘ رکھا ہے یعنی جو کچھ دیکھا اس کو حوالہ قرطاس کیا ورنہ بغیر دیکھے اتنا کچھ لکھ دینا ممکن نہیں۔ اس کے لیے عمیق اور گہرے مشاہدے کی ضرورت ہوتی ہے ،ساتھ ہی الفاظ کے ذخیرے کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ مصنف کے پاس یہ دونوں موجود ہیں۔
[email protected]