عموماً یہ کہا جا تا ہے کہ کتابیں لکھی تو جا تی ہیں ، چھپ بھی جا تی ہیں لیکن انہیں پڑھا نہیں جا تا یا اتنی تو جہ نہیں دی جا تی جتنی دینی چاہئے ۔ لیکن یہ بات غلط ہے اور دلیل یہ ہے کہ اگر کتابیں پڑھی نہ جا تیں تو ملک بھر کے ہزاروں پبلشرز کو یہ ضرر رساں کا روبار کر نے کی کیا ضرورت تھی ۔ ویسے اس میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ہمارے یہاں روغن غذا ئیں ضرور بکتی ہیں ، کتابیں کم بکتی ہیں مگر بکتی ضرور ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر کتابیں بک رہی ہیں تو پڑھنے والوں کی بنیاد پر بک رہی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے یہاں پڑھنے والے موجود ہیں ، لیکن مقبول وہی کتابیں ہو تی ہیں جو زیادہ جاندار ہوں ۔ جس طرح ہوا اور پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں، اُسی طرح کتاب کے بغیر انسانی بقاء اور ارتقاء محال ہے ۔ کتاب نے علم کے فروغ اور سوچ کی وسعت میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔ دنیا جب تحریر کے فن سے روشناس ہو ئی تو انسان نے چٹانوں ، درختوں کی چھالوں ، جانوروں کی ہڈیوں اور کھالوں ، کھجور کے پتوں ، ہاتھی کے دانت اور کاغذ غرض ہر شئے لکھنے کے لئے استعمال کی ،جس سے وہ اپنی بات دوسروں تک پہنچا سکے ۔ کتابوں کی داستان بھی عجیب ہے ۔کبھی انہیں آگ لگائی گئی تو کبھی دریا بُرد کیا گیا ، کبھی چرا لیا تو کبھی دفنا دیا گیا ، کبھی یہ شاہی دربار کی زینت بنیں تو کبھی فٹ پاتھ پر کوڑیوں کے دام فروخت ہو ئیں ۔
بحیثیت مسلمان ہمارا کتاب کے ساتھ ایک خاص تعلق رہا ہے ، اس سلسلے میں ہم ایک شاندار تاریخ کے مالک ہیں کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ علم سیکھنا مسلمان کی میراث ہے ، لیکن ہم اس میراث کو کھوتے جا رہے ہیں۔ تاتاریوں نے مسلمانوں کے سروں کے مینار بھی تعمیر کئے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے قیمتی کتب خانوں کو بھی دجلہ کی گہرائیوں میں غرق کر دیا تا کہ مسلمان فکری، علمی اور ادبی لحاظ سے مفلس اور اپاہج ہو کررہ جائیں ۔
وہ کتابیں جو ہمارے اسلاف کی تحقیقات کا نچوڑ تھیں اور اُن کی سائنسی تحقیقات کی بنیادوں پر انہوں نے فلک بوس ایوان تعمیر کرتے گئے۔ حالانکہ اہل مغرب کی سائنسی تب و تاب میں ہمارے ہی آبا و اجداد کے خون جگر کی سرخی جھلکتی ہے ۔ کتاب ایک قوم کی تہذیب و ثقافت اور معاشی ، سائنسی اور عملی تر قی کی آئینہ دار ہو نے کے ساتھ ساتھ انسان کی بہترین دوست بھی ہوتی ہے، لیکن بد قسمتی سے ہمارے آنے والی نسل اس بہترین دوست سے د ور ہو تی جا رہی ہے اور ہمارے یہاں لکھنے اور تحقیق کا کام محدود ہو تا جا رہا ہے ۔ ہمارے طالب علم نصابی کتب میں اُلجھ کر رہ گئے ہیں ۔ ہماری شاندار تاریخ اور روایات ان کی نظروں سے پوشیدہ ہو تی جا رہی ہیں ، وہ مغرب کی دل فریبیوں میں کھو کر اپنے اسلاف کے سنہرے کارناموں سے بے خبر ہو تے جا رہے ہیں اور ہمارے کتب خانے ویران ، مٹی اور دھول سے اَٹے پڑے ہیں اور کتابیں چند لکڑی اور لوہے کی شلفوں میں مقید ہو کر رہ گئی ہیں جو کہ نہایت افسوس کا مقام ہے ۔
فی زمانہ کتاب سے دوری کے حوالے سے کئی لوگ یہ دفاعی دلیل بھی دیتے نظر آتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی تر قی نے ہمارے نوجوانوں سے کتاب چھین کر انہیں موبائل اور بائیک تھما دی ہے، جس کی وجہ سے اس کے شوق اور مشغلے ہی بدل کر رہ گئے ہیں اور کسی حد تک اس دلیل میں وزن بھی ہے ، لیکن صرف اس کو ہی مطالعے سے فرار کی واحد وجہ نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ ہم سے کئی گنا جدید تر قی یافتہ ممالک جیسے جر منی ، انگلینڈ ، فرانس اور امریکہ نے تو کتاب اور مطالعے سے اجنبیت کو جنم نہیں دیا ہے اور وہاں آج بھی لوگ اپنے فارغ اوقات کو گرازنے کے لئے کتاب پڑھنے کو تر جیح دیتے ہیں ۔ اس کے بر عکس ہماری لائبریریاں جو کبھی علم کے لا زوال خزانوں کا مرکز ہو تی تھیں، آج ویران اس لئے نظر آتی ہیں کیونکہ ان کی جگہ نیٹ کیفوں نے لے لی ہے ۔ ایک طرف یہ کہا جا تا ہے کہ علم کسی کی میراث نہیں ، لیکن دوسری طرف اسی تعلیم کو اس قدر مشکل بنایا جا رہا ہے جو مطالعے کے زوال کا ایک بہت بڑا سبب بنتا جا رہا ہے
۔ مسلم معاشرے کی دیگر لائبریریوں میں تعلیم کی اگر یہی صورت حال رہی تو شاید یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ہماری نوجوان نسل کتب سے مزید دور ہو تی جا ئے گی جس کی وجہ سے ہماری قومی نمود و نمائش کا عمل مرجھا جا ئے گا ۔
کتب خانے کسی قوم کی ذہنی رفعت کا نشان ہو تے ہیں ، جس قوم کے کتب خانے قیمتی اور نایاب کتابوں سے پرُ ہو نگے اس قوم کا ذہنی شعور بھی اسی قدر پختہ ہو گا ۔ یہ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ ہماری قوم کے مخیر حضرات ، دانشور حضرات ، علما حضرات اور والدین اپنی نوجوان نسل کو کتب بینی کی طرف راغب کر نے کے لئے اپنے حصے کا کردار نبھائیں ،ورنہ انٹر نیٹ کے دور میں ہماری نسل نو اپنے تاریخی ورثہ سے نا آشنا ہو جائے گی ۔ اس کے لئے ہر سطح پہ موجود اہل نظر اور صاحبان اختیار اور بالخصوص اساتذہ اور والدین کی اس جانب تو جہ دینی ہو گی اور نئی نسل میں مطالعے کا شغف پیدا کر نا ہو گا ۔ کتاب سے یہ بیزاری خصوصاً نوجوان نسل میں قومی المیے سے کم نہیں ۔ اس لئے نئی نسل میں کتابوں سے رغبت پیدا کر نے کی اشد ضرورت ہے۔
موبائل ۔6291697668
کتاب سے بیزاری ایک المیہ | قیصر محمود عراقی
