سید مصطفیٰ احمد
میرے خیال میں بہترین رفیق یا دوست کتاب ہے۔ یہ کتاب ہی ہے جو بہت عرصہ پہلے سے ہمارے ساتھ ہے۔ ترقی یافتہ شخصیات میں کتابیں پڑھنے کی خوبی ہوتی ہے۔ وہ اس حقیقت کو جانتی ہیں کہ کسی کی بھی کامیابی کے پیچھے، کتابوں نے سب سے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اگر وہ دنیا کے امیر ترین افراد بن بھی جائیں، تو وہ کتابوں کے رشتے کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔ ولیم بل گیٹس کے گھر میں بہترین لائبریریوں میں سے ایک ہے۔ وہ ہمیشہ فرصت کے اوقات میں کتابوں کی رفاقت کو ترجیح دیتے ہیں۔ بلاشبہ وہ کتاب پڑھنے کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہر شخص کے لیے کتابوں کو پسند کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ہوا، پانی، کپڑے اور خوراک۔ لیکن موجودہ وقت میں معاملہ یہ نہیں ہے۔ پہلے ہی شکست و ریخت کا شکار پڑھنے کی ثقافت کا نظام، انٹرنیٹ جیسے نئے خطرات کا ہدف بن گیا ہے۔ تاہم اس کی واحد وجہ انٹرنیٹ نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جنہوں نے اس مرحلے تک پہنچنا ممکن بنا دیا ہے۔ آئیے ان میں سے کچھ وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پہلی اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے زندگی گزارنے کے مقصد سے ناواقف ہیں۔ ہمارا کوئی مقصد نہیں ہے۔ ہم بے مقصد جانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارتے ہیں۔ ہمارا واحد مقصد اپنے پیٹ بھرنا، بینک بیلنس بنانا، رسم و رواج ادا کرنا وغیرہ ہے۔ جب کسی ملک، قوم یا ریاست کی یہ حالت ہو گی تو انہیں خود بخود علم حاصل کرنے کا شوق نہیں ہوگا۔ ان کا علم بے وقعت ہوگا۔ ان کا واحد مقصد کاغذی ڈگریاں حاصل کرنا ہوگا۔ وہ انہیں ہر حربے سے حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ نصابی کتابوں سے باہر سیکھنے کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔ یہ افسوسناک بات ہے کہ وہ اپنی نصابی کتابیں بھی نہیں پڑھتے؛ بلکہ رٹا لگاتے ہیں تاکہ امتحان پاس کر سکیں۔
دوسری وجہ ہے کہ ہمارا ماحول علم حاصل کرنے کے لیے موافق نہیں ہے۔ یہاں گدھے راج کرتے ہیں۔ فکریت مردہ عادات کے ویران صحرا میں کھو چکی ہے۔ لوگ ان لوگوں سے نفرت کرتے ہیں جو کتابیں خریدتے اور بیچتے ہیں۔ وہ کتاب پڑھنے کو پاگل پن کہتے ہیں۔ وہ اس کے بجائے مادیت پسندی کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ بڑے گھر، کاریں، رنگ برنگے کپڑے وغیرہ زندگی کے بنیادی مقاصد ہیں۔ کتاب پڑھنا ان کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔ ان کے پاس اس کے لیے وقت نہیں ہے۔ وہ اپنا قیمتی وقت بے مقصد باتوں اور گپ شپ میں گزارنا چاہتے ہیں لیکن کتاب کھول کر اس کے کچھ دلچسپ صفحات پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے۔
تیسری وجہ انٹرنیٹ ہے۔ دنیا انگلیوں کی tips پر ہے۔ انٹرنیٹ نے ہمیں وعدہ کیا تھا کہ ہر قسم کا علم وہاں موجود ہے۔ اور یقیناً ہے۔ لیکن اس کے ساتھ آیا زہر اس کے فوائد پر حاوی ہوتا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ پر لاکھوں لائبریریاں موجود ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کے ذہن کو بھٹکا دیتی ہیں۔ گیمز، ٹک ٹاک جیسے ایپس، جوا، ویڈیو بنانا وغیرہ کسی نئی چیز کو سیکھنے کے مواقع کو کم کر دیتے ہیں۔ اس نے ہماری صحت کو بھی متاثر کیا ہے۔ خودکشیاں بڑھ گئی ہیں۔ ذہنی تناؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سماجی فاصلوں میں اضافہ ہوا ہے۔ علیحدگی/بیگانگی عام ہو چکی ہے۔ تقلید کا دور دورہ ہے۔ دیوانگی ہر کسی کا ہنر ہے۔ لہٰذا اس نے ہمارے معاشرے کو تباہ کر دیا ہے۔
چوتھی وجہ حکومت کا نرم رویہ ہے۔ وہ خود ان پڑھ ہیں۔ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔ انہیں طاقت، پیسہ اور شہرت چاہیے۔ ان کا واحد مقصد وعدے ہیں جنہیں توڑنا ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ سیاست تو آنا جانا ہے۔ میں پڑھنے کی ثقافت کی روح کو پروان چڑھانے کے اس مصروف ترین کام میں اپنا دماغ کیوں لگاؤں؟ جو سال قسمت میں ہیں انہیں انجوائے کرنا بہتر ہے۔ یہ اضافی ذمہ داری کیوں اٹھائی جائے؟ لیکن وہ نہیں جانتے کہ عوام کو دنیا اور خود ان کے بارے میں آگاہ کرنا ان کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ لیکن وہ اس اچھے کام کے بجائے پیسہ اور وقت فضول کاموں میں ضائع کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم نے اب تک مثالی سیاست دان پیدا نہیں کیے۔ ابراہم لنکن، جارج واشنگٹن، محمد علی جناح، والٹئر، وغیرہ جیسے سیاست دان کم ہی ملتے ہیں۔ وہ تھے، ہیں اور ہمیشہ بہت زیادہ پڑھنے والے رہیں گے۔ انہوں نے عوام پر گہرا اثر چھوڑا، چھوڑتے ہیں اور چھوڑیں گے۔
میری رائے میں آخری وجہ ہے کہ ہم خود بھی کتابوں میں دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ہم کتابوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ہم بے صبرے ہیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے ہمیں بوریت محسوس ہوتی ہے۔ ہم کچھ پرلطف چیز چاہتے ہیں۔ ہم کچھ پرکشش چاہتے ہیں۔ ہم کچھ دلکش اور رنگین چاہتے ہیں۔ لیکن یہ دھوکہ ہے۔ دلکشی تو دنیا کے بہترین ذہنوں کو پڑھنے اور ان کی تقلید میں ہے۔ اسٹیو جابز، ولیم بل گیٹس، جیف بیزوس وغیرہ اپنے زندگی کے تجربات شیئر کرتے ہیں اور ہمیں زندگی کے حقیقی مقصد سے آگاہ کرتے ہیں۔ لیکن ہم تو جلدی سے پیسہ چاہتے ہیں اور اس کے لیے محنت کرنی گوارا نہیں کرتے۔
اوپر کی سطروں میں، میں نے پڑھنے کی ثقافت پر کچھ روشنی ڈالنے کی پوری کوشش کی ہے۔ یہ کیوں اہم ہے؟ ہمارا کہاں مقام ہے؟ ان تمام چیزوں پر زیادہ یا کم بات ہو چکی ہے۔ آخر میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس دنیا میں ترقی کے لیے پڑھنے کی ثقافت کو ہماری اولین ترجیح ہونا چاہیے۔ دوسری چیزیں اس کے تابع ہونی چاہئیں۔ گھر سے لے کر بازار تک، ہر شخص کو بیدار ہونا چاہیے کہ پڑھنے کی ثقافت اتنی ہی اہم ہے جتنی آکسیجن۔ ایک مزدور اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ایک کتاب پڑھ سکے۔ ایک طالب علم کو ایک سال میں 40 سے زیادہ کتابیں پڑھنی چاہئیں۔ خلیل جبران، جے کے رولنگ، روالڈ ڈال، ولیم ورڈزورتھ، ولیم شیکسپئیر، خالد حسینی، سید عمر، مریم جمیلہ، ایڈورڈ سعید، ہننا آرینڈٹ، ورجینیا وولف، برٹرینڈ رسل، جی بی شا، ارنسٹ ہیمنگوے، موراکامی، نعیم صدیقی، علامہ اقبال، شبلی نعمانی، محمد اسد، مارماڈیو پک تھال، تھامس آرنلڈ وغیرہ کو بہت جلد پڑھ لینا چاہیے۔ وقت کی ضرورت ہے کہ آرام پرستی کو چھوڑ کر پڑھنے کی ثقافت کے راستے پر چل پڑیں۔
[email protected]