غور وفکر
قیصر محمود عراقی
کتاب ، علم اور انسان کا رشتہ بڑا قدیمی اور گہرا ہے۔کتب کے پڑھنے سے نہ صرف انسان کو اپنی پہچان نصیب ہوتی ہے بلکہ وہ اس سے حاصل علم ومعلومات کے ذریعے اللہ کی پہچان بھی کرتا ہے۔ قلم، تحریراور کتاب نے انسانی تہذیب وتمدن، مذہبی ، معاشی اور سائنسی ایجادات کے ارتقاء میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ انسانی فکر وخیال کی راہوں کو اجالا دیا، دنیاوی کتابوں کے علاوہ آسمان ومقدس کتب بھی انسان کی بھلائی اور کامیابی کیلئے اتاری گئیں، جس میں توریت، انجیل، زبوراور سب سے بڑھ کر قرآن مجید ہے جو سرِ چشمۂ علم وعرفان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم دیکر اسے تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی۔ کتاب کی اہمیت اس بات سے عیاں ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب کے پاس اپنی مقدس کتب موجود ہے، علم کے حصول کے ذرائع میں کتاب کو بنیادی و مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ قرآن ومجید کو انسان کیلئے سرچشمہ ہدایت اور خزینہ حکمت سے موسوم کیا گیا ہے، جو ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، اس کا پڑھنا رہنمائی، ثواب اور راہِ ہدایت کا موجب ہے۔
قدیم چین میں کاغذکے ایجاد کے ساتھ ہی کتاب کا وجود عمل میں آیا ،کتاب انسان میں فکر وشعور ، قابل فہم نظریات کی آگہی کو جلا ودیعت کرتی اور مظاہرہ کائنات کو اس پر منکشف کرتی ہے۔ ماضی میں جب علم اور معلومات کے الیکٹرونک اور ڈیجیٹل ذرائع نہ تھے تو کتاب کو ہی علم، معلومات، تعلیمی وذہنی سطح کی بلندی اور رہنمائی کا واحد ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ماہرین ، نامور، محققین ، مفسرین، مفکرین، مصنفین اور محدثین نے اپنے علم ، بھائی چارہ ، روحانی قدروںاور تجربوں کوکتابوںاور اپنی تصانیف کے ذریعہ عام کیا، ماہرین طب نے کتابوں کو عوام الناس کی صحت کے بارے میں معلومات اور علاج فراہم کئے۔ روحانی شخصیات نے مختلف زبانوں میں کتابوں کے ذریعے اسلام کاپرچار کیا، سائنس کے ماہرین نے کتابوں سے سائنسی علم کو فروغ دیا۔ ماضی میں کتب بینی کی اہمیت ، فوائد اور ضرورت کے پیش نظر بڑے بڑے کتب خانے اور لائبریریاںتعمیر کی گئیںجو کسی بھی ملک وملت کی عملی ، ثقافتی اور تہذیبی فروغ کا بہت بڑا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں۔ خواتین کے جہیزمیں کتب کی موجودگی جزولازم تھا، بقول کارلائل:دنیا میں صرف کتابیں ہی حکومت کرتی ہیں، کتابیں ذہنی تفریح، انٹرٹینمنٹ، تعمیری سوچ میںوسعت، ظلمت کی جگہ نوراور گھٹاٹوپ اندھیرے میں تجلی اور مشعل کی مثل ہیں۔ کتابیں قوموں کو عروج سے ہمکنار کرتی ہے جبکہ ہمہ قسمتی زوال سے بچاتی ہے۔ فرانسیسی لیڈر نیپولین بوناپارٹ کا خیال ہے کہ جو لوگ مطالعہ کتب کرتے ہیںوہ ذہنی واخلاقی طور پر اس قدر مضبوط ہوتے ہیں کہ دنیا کی باگ وڈور سنبھال سکتے ہیں۔ شعرا نے اپنی تخلیقی کتابوں سے اپنی قوم قبیلے کو جہالت ، مایوسی، غم اور غلامی کی قعرِ مذلت سے نکال کر کامیاب انسان بناکر اوج کمال تک پہنچادیا۔ کتابیں تنہائی کا ساتھی اور کشیدہ خاطر میں ڈھارس بندھاتی ہیں، کتاب کے قاری میں استقلال اور اولعزمی کے جواہر خواص پیدا ہوتے ہیں۔ دانا لوگ کتب بینی کو ہر نعمت اور آسائشات پر ترضیح دیتے ہیں۔ یونان کے معروف طبیب اور فلسفی ، روم کے شہنشاہ مارکس آرمی لس کے شاہی طبیب ماہرحیاتیات ’’حکیم جالنیوس‘‘سے کسی نے پوچھا آپ علم وحکمت میںدوسروں سے آگے کیسے نکلے؟ انہوں نے جواب میں کہامیں نے کتاب پڑھنے کیلئے چراغ کے تیل پر اس سے زیادہ خرچا کیا جتنا کہ لوگ کھانے پینے پر خرچ کرتے ہیں۔ افسوس عصر حاضرمیں انٹرنیٹ اور دیگر الیکٹرونک انٹرٹینمنٹ ذرائع نے قوم کو کتب کے مطالعہ سے دور کردیا، ہزاروں لائبریریوںمیں پڑی نایاب اور کردار کی تعمیر واصلاح کرنے والی کتابیں دیمک اور دھول کی نذر ہوچکی ہیں۔ آج صرف کتابوں کا مطالعہ زیرِ تعلیم طالب علموں کا حصہ بن چکی ہیں، کتب بینی میں اسلام کی عظمت رفتہ کی یاد مضمر ہیں، اپنے اصلاف اور اسلام کی پرُشکوہ بڑائی کے نشاۃ ثانیہ میں لوٹنے کیلئے کتابوں کو رفیق وہمنوابنانے ، کتب بینی میںشوق پیداکرنے اور کتب خوانوں کی رونقیں بحال کرکے قابل رشک صاحب علم وعمل افراد سے مزین معاشرے کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔ مطالعہ کو لازم سمجھتے ہوئے علامہ اقبالؔ نے اسی لئے فرمایا تھا’’تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ، کہ تو کتاب خواں ہے صاحب کتاب نہیں‘‘
آج اکیسویں صدی میں کتب بینی کے شوق میںنمایاں تبدیلی آئی ہے، اب لوگوں کی اکثریت کتابوں سے زیادہ اپنے موبائل فون اور سوشل میڈیاں کے ذریعے معلوم کا حصول چاہتی ہے، تاہم ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں میںشوق مطالعہ دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے ، لوگوں کی ایک بڑی تعداد بسوں، گاڑیوںاور پبلک مقامات پر کتابوں کا مطالعہ کرتی نظر آتی ہے، وہاں کی عوام اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کتب بینی کا براہ راست تعلق ملک کی ترقی وخوشحالی سے ہے۔ لہذا جو قومیں اپنا وقت فضول کی سرگرمیوں میں ضائع کرنے کی بجائے کتابوں سے اپنا رشتہ مضبوط کرتی ہیںتو وہ ترقی کی دوڑ میں کبھی پیچھے نہیں رہتیں۔ معیاری کتابوں کا مطالعہ نہ صرف اخلاق سازی اور تربیت کیلئے ضروری ہے بلکہ اپنے آپ کو بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ میں اپنے کالم کا اختتام ایک دانشور کے قول سے کرنا چاہونگا ، اس نے کہاکہ اگر کسی ملک کی ترقی سے متعلق جانکاری مقصود ہو تو ہاں پر موجود تعلیمی اداروں کو پرکھا جائے اور اگر وہاں کے تعلیمی اداروں کا معیار جانچنا ہو تو وہاں کے کتب خانوں کا معیار دیکھا جائے، کسی بھی معاشرے میں کتب خانے جتنے آباد ہونگے وہاں کے تعلیمی ادارے بھی تعلیم وتحقیق کے میدان میں اتنے ہی فعال اور منظم ہونگے جس کا لازمی نتیجہ معاشی اور سماجی ترقی کی خوشحالی کی صورت میںسامنے آئیگا۔
رابطہ۔6291697668