میں حسب معمول صبح سویرے سیر کرنے کو نکلا.دوڑتے دوڑتے پارک میں پہنچا، لیکن آج پارک خالی تھی کیونکہ ہلکی ہلکی بارش اور سردی کی وجہ سے لوگ شاید ابھی لحافوں کے اندر ہی دبکے ہوئے تھے۔ آج میں بالکل تنہا تنہا تھا۔ان تین سالوں میں یہاں بہت سارے لوگوں سے جان پہچان ہوئی..پاس کے انور خان، سامنے والی کالونی کے لہر سنگ،انکے لنگوٹیا یار احمد جان،سشیل کمار اور میری کالونی کے رجب صاحب۔ الگ الگ شکلیں الگ الگ مزاج،لیکن سبھوں کو میری طرح کتوں کا ڈر۔چھڑی کے بغیر کوئی مارننگ واک کے لئے نہیں نکلتا۔میرے ہاتھ میں بھی میرے آنگن کے شہتوت کے پیڑ کی لچک دار چھڑی تھی۔میدان بالکل خالی تھا.اب بارش تیز ہونے لگی،تو میں نے گھر کی طرف واپس جانا مناسب سمجھا۔میں ابھی چلتے چلتے بیچ میدان میں ہی پہنچاتھا کہ میدان کے اندر دو کتے گھس آئے۔وہ ایک دوسرے کو چھیڑ رہے تھے۔کبھی ایک دوسرے کے پیچھے کبھی دوسرا پہلے کے اوپر ، کبھی دونوں میدان کی گیلی زمین پر لوٹیں لگانے لگتے۔میرے دل میں ڈر تو تھا کہ کہیں مجھ کو آج تنہا پا کر کاٹ نہ کھائیں۔ لیکن لاٹھی کا سہارا تھوڑی ہمت بندھا رہا تھا۔ مجھے کالونی کے وانی صاحب یاد آنے لگے۔ کچھ مہینہ پہلے ایک پاگل کتیا نے انکی انگلی ہی کاٹ کھائی تھی اور زیبا صاحبہ، اپنے نثار صاحب کی بیگم کی زخمی ٹانگ یاد آکر بد میں جھر جھری آئی ۔کتے نے انہیں کچھ ایسے کاٹا کہ ٹانگ کی ہڈی تک نظر آرہی تھی۔ ہمارے شہر میں تو انسانوں سے زیادہ کتے نظر آتے ہیں اب..اسپتالوں،ٹریفک پولیس بیٹوں میں،اور اسکولوں میں بھی کتیاں بچے جنتی ہیں۔
میں پارک کے گیٹ کے قریب پہنچا ہی تھا کہ ایک کتا مجھ پہ بھونکنے لگا۔میں تھرتھراتے وجود کے بکھرے تنکوں کو ابھی سمیٹ ہی رہا تھا کہ کالا کتا اپنے دانت دکھا تے ہوے میری طرف دوڈا آیا،،،،،میں لاٹھی دونوں ہاتھوں سے ایسے سنبھالنے لگا کہ گویا میدان جنگ میں دشمن کا سر تلوار سے قلم کرنے کی تیاری کر رہا ہوں۔ٹانگیں تو تھر تھر لگاتار کانپ رہی تھیں۔جسم پسینے سے تربتر اور ہاتھوں کے کانپنے سے لاٹھی بھی ہاتھوں میں ایسے تھرک رہی تھی کہ جیسے زلزلے کے وقت زمین پہ کھڑے پیڑ کانپتے ہیں.اب کتا کچھ ہی میٹر کی دوری پر آکر میرے ہاتھوں میں لاٹھی دیکھ کر رک گیا.لیکن وہ شیر کی طرح حملے کی تاک میں تھا۔اسکی زبان لٹک رہی تھی اور منہ سے لال ٹپک رہی تھی۔وہ گول گول گھوم کر میرے گرد چکر کاٹنے لگا،میں بھی ویسے ہی کرنے لگا.وہ دو تین قدم آگے آیا تو میں نے زور سے لاٹھی زمین پر ماری۔ کتا تھوڑا سا پیچھے ہٹ گیا..میں شان سے اور ہمت کے ساتھ رفون چکر ہونا چاہتا تھا مگر کتا ایسا کرنے دے تب نا…موا میری بوٹیاں نوچنے کے فراق میں تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے دوسرا کتا بھی میری طرف لپکا۔اب میں زور زور سے چلانے لگا.."وانی صاحب….گلزار صاحب……محمود بھائی……ارے کہاں ہیں آپ…ارے بچاوئو مجھے…‘‘.میں چلا رہا تھا مگر..میدان دور دور تک خالی تھا ..میرا چلانا صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوا…دونوں کتے اپنی دمیں ہلا رہیں تھے…جیسے ایک گھبر سنگھ دوسرا کالیا تھا… اور کالا کتا جیسے بول رہا ہو"…ناچ بسنتی ناچ….اور میں گویا ناچ ہی رہا تھا ..لاٹھی کو لئے…..ایک کتا زور سے بھونکا تو میں گیلی مٹی پہ پھسل گیا اور لاٹھی میرے ہاتھوں سے گرگئی..اور میں کمر کے بل زمین پر گر گیا…اور کچھ ہی دیر میں کتا میرے سینے پر تھا..مرتا کیا نا کرتا،میں نے اسکی گردن جھکڑ لی.وہ میری ناک کاٹنے کی کوشش میں تھا..بھاری بھرکم بوجھ کی وجہ سے میرا دم گھٹ رہا تھا..کبھی میں اوپر اور کتا نیچے..کبھی میں نیچے اور کتا اوپر….اور دوسرا کتا شاید اپنی پوری ٹیم کو بلانے گیا تھا..کتے کی خونی آنکھیں میری مظلوم اور بیکس آنکھوں سے ٹکرا رہی تھیں ..اُس نے پنجوں کے وار سے میرا چہرہ زخمی کردیا اور اس سے پہلے کہ وہ میری ناک کو کاٹ کر اُکھاڑلیتا..میں نے جلدی سے اسکا کان اپنے دانتوں میں دبا لیا….اور زور زور سے دبانے لگا…کتا درد سے کرہانے لگا..چلانے لگا…مگر یہ کیا ..کتا انسانی آواز میں چلا رہا تھا..میں حیرت زدہ اسے دیکھ رہا تھا.اچانک ٹھپ ٹھپ میرے چہرے پہ تھپڑ پڑنے لگے…اور مکے بھی…"ارے پاگل ہو گئے ہو کیا جی…..راجو..کا کان چھوڈو…میری بیوی کی آواز تھی..میری آنکھ کھلی تو دیکھا کہ راجو زار و قطار رو رہا تھا..اسکا کان بھی زخمی تھا…وہ میرے پاس ہی سوتا ہے..بیوی نے ایک اور زور دار تھپڑ دے مارا.."اور چلا کر بولی"خواب میں کتے بن گئے تھے یا بھالوں…..یا جن…؟
میں حیران ہوکر سب کو دیکھ رہا تھا …اور معصومیت سے سب کو بولا …"میں نے کتے کو کاٹا تھا"_____
چھترگام،کنی پورہ ، چاڈورہ، فون :9797705582
email:[email protected]