موسم سرما کے دوران طویل خشکی کی وجہ سے ریاست کے دریائوں اور ندی نالوں میں پانی کی متواتر کمی کے نتیجہ میں بجلی کی پیدوار جس عنوان سے متاثر ہوئی ہے، اُس نے ریاست بھر ، خاص کر وادیٔ کشمیر میں لوگوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ایامِ سرما کا قابل فہم اور اعلان شدہ کٹوتی شیڈول تو ماضی کی بات بن گیا ہے اور اب نہ تو کوئی کٹوتی شیڈول ہی سالم وثابت ہے اور نہ ہی متعلقہ محکموں کے اعلانات پر ہی کوئی اعتبار باقی رہاہے کیونکہ بجلی کی فراہمی کے دوران تخفیف کے حوالے سے وقت وقت پر جو بھی بیانات سامنے آئے ہیں ، وہ سب مذاق ثابت ہوگئے ہیں اور یہ ایک افسوسناک امرہے کہ وادی کے بیشتر علاقوں میں برقی رو کی فراہمی میں کوئی بہتری نہیں آرہی ہے۔ جو ایک ٹارچر سے کچھ کم نہیں ہے۔ اس ستم ناک صورتحال کے خلاف شہرودیہات میں روزانہ احتجاج کیا جارہاہے مگر انتظامیہ نے بس ایک چپ سادھ رکھی ہے ، صرف پانی کی سطح گرجانے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں تخفیف کے دلائل پیش کرکے صارفین کو خاموش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ سردیوں کے ایام میں وادی کے دریائوں اور ندی نالوں میں پانی کی سطح ہمیشہ کم ہوجاتی ہے اور حکومت اس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لئے بجلی کی درآمد کا بندوبست کرتی رہی ہے اور تھوڑی بہت پھیر بدل کے ساتھ برقی رو کی فراہمی یقینی بنا کر سردیوں کے ایام میں صارفین کی پریشانیوں کا خیال رکھا جاتا تھا مگر اب کی بار یہ سارے انتظامات دھرے کے دھرے کیوں رہے ، اس کی ایسی تاویلات پیش کی جارہی ہیں ، جو پاور سیکٹر میں ریاستی انتظامیہ کی ساٹھ سالہ کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان لگاتی ہیں۔ ایک طرف محکمہ کا ہی دعویٰ ہے کہ 1050میگاواٹ کی ضرورت کے مقابلہ میں عمومی طور پر صرف750 میگاواٹ کے آس پاس کی سپلائی میسر رہتی ہے ، جس میں ریاست کے اپنے پروجیکٹوں سے حاصل ہونے والی بجلی کی مقدار برائے نام ہے اور لگ بھگ سارا زورشمالی گرڈسے درآمد کرنے پر مرکوز ہے ، مگر محکمہ کے پاس اس درآمد کے لئے بھی بنیادی ڈھانچہ میسر نہیں ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے چار نئے ریسوینگ سٹیشن زیر تعمیر ہیں ، جو نامعلوم وجوہات کی بناء پہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے پارہے ہیں۔شمالی گرڈ اکثر وبیشتر ریاست کے نام بقاجات کی عدم ادائیگی کی آڑ میں اکثر سردیوں کے لئے درکار اضافی سپلائی کی فراہمی سے منکر رہتی ہے اور اگر تھوڑا بہت اضافہ ہوتابھی ہے تو مزید بجلی کی درآمدگی کے لئے محکمہ کے پاس ترسیلی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔ موجودہ صورتحال کودیکھتے ہوئے آنے والے ایام میں بجلی کی سپلائی میں مزید ابتری کا اندیشہ ہے ، جو یقینی طور پر اس قیامت خیز سرما میں صارفین کیلئے اضافی مصائب کا سبب ہوگا۔کیونکہ صارفین پہلے ہی گیس سپلائی کے بحران سے زبردست پریشانیوں کا شکار ہیں۔ ایسے حالات میں عام لوگوں کاسڑکوں پر آکر احتجاج کرنا نہ صرف منطقی ہے بلکہ ان کی مجبوری بھی ہے۔اسی وجہ سےرواں ایام میں شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتاہے ہوگا جب بجلی کی نایابی ،ٹرانسفارمروں اورترسیلی لائینوں کی خرابی اور اس پر محکمہ بجلی کی طرف سے مدعی سست گواہ چست کے مصداق،بجلی فیس میں پے در پے اضافہ اور برقی رو کی نایابی کے باوجود میٹرینگ کے بے ہنگم سلسلہ کے خلاف سڑکوں پر عوامی احتجاج نہ ہوتا ہو۔یہ بدقسمتی کی انتہا ہے کہ گرم گرم دیوان خانوں میں بیٹھ کر قوموں کی تقدیریں لکھنے والے حکام ،خواہ وہ سیاستدان ہوں یا انتظامی افسران ، کو مہنگائی کی مار جھیل رہے عام لوگوں کی مشکلات کا احساس چھوکر بھی نہیں گیا ہے۔ حکومت کو چاہئے کو وہ عذرخواہی کا روّیہ اختیار کرنے کی بجائے صارفین کی مشکلات کا ازالہ کرنے کے لئے سنجیدہ کوشش کرے ، کیونکہ جلد یا بدیر ہرحکومت کو اس طرح کے معاملات عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتاہے۔