سید مصطفیٰ احمد
مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک اور براعظم افریقہ ،وغیرہ کے بعض ایسے خطے ہیں جہاں تواتر کے ساتھ انسانیت کا قتل ہونا ایک طویل عرصے سے معمول بنا ہوا ہے۔ اگرچہ سوائے کشمیر کے باقی تمام جگہیں ہماری نظروں سے لگ بھگ اوجھل ہیں اور ہم آنکھوں دیکھا المناک حال دیکھنے سے قاصر ہیں جبکہ انٹرنیٹ کی سہولت کے باوجود ہم ان ممالک کی اصل اور جیتی جاگتی تصویر دیکھنے کی پوری اہلیت نہیںرکھتے ہیں۔ اس کے پیچھے بے شمار وجوہات کا عمل دخل ہے،جن کا تذکرہ کرنا یہاں ممکن نہیںہوسکتا ،لیکن بحیثیت کشمیری اور کشمیر میں ہی رہتے ہوئے ہم کم و بیش جموں و کشمیر کے حالات کا کافی حد تک صحیح ادراک رکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں کےدوران گگن گیرگاندربل اورگلمرگ میں ماضی کی طرح جس بےدردانہ طریقے پر قریباً ایک درجن لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا اور بہتوں کو زخمی کر دیا گیا،اس کی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں پر میں ایک جامع انداز سےاور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے درمیانی راستے کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی بات سامنے رکھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ ایسا راستہ جس پر چلنے سے بات بھی کافی حد تک سمجھ میں آسکے اور غلط فہمیوںاور بےجا اختلافات کو ہوا نہ لگے۔کہیں ماضی کی طرح پھر سے کشمیر میں موت کی ہولی کھیلنے کا عمل شروع تو نہیں ہونے جارہا ہے۔ میں یہاں پر حکومت کا دھیان اس بات کی طرف مبذول کروانالازمی سمجھتا ہوں کہ میں بھی ایک محب ِ وطن ہونے کے ناطے اپنے ملک کی سلامتی کو اول درجے پر رکھتا ہوں۔ کوئی بھی ملک ہمارے ملک کی سالمیت پر انگلی اٹھاتا ہے تو یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم معتدل انداز میں اور جذبات کی رو میں بہنے سے پرہیز کرتے ہوئے اس کا معقول جواب دیں۔ مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے کسی بھی معصوم کا قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کردینے کے مترادف ہے۔ کشمیر میں لگ بھگ پچھلی تین دہائیوں سے یہی کچھ تو ہوتا چلا آرہا ہے۔ مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی، وغیرہ کی تمیز کئے بغیر یہاں ہزاروں معصوموں کا خون آج تک بہایا جاچکا ہے۔در اصل پورا جنوبی ایشیا متضاد چیزوں کا حسین سنگم ہے۔ انگریزوں اور دوسرے نوآبادیاتی طاقتوں نے پورے جنوبی ایشیا میں ایسے حالات پیدا کردیئےتھے کہ پورا subcontinent اختلافات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ سیاسی غلطیوں کے علاوہ مذہبی جنون نے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو تاریک بنا کر رکھ دیا ہے۔ مذہبی منافرت اور چھوٹے مسائل پر ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کی وجہ سے پورا خطہ جہنم بنا ہوا ہے جس کے منفی اثرات وادیٔ کشمیر پر بھی پڑرہے ہیںاور حالات بدتر ہونے کے سنگین نتائج بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔
اصل میں دوراندیشی اور مخلصانہ خصائل سے دور ہمارے سیاستدان اور شعور سے کورے عام لوگوں نے اپنے پیروں پر کلہاڑی مارتے ہوئے اپنی زندگیوں کے علاوہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی نہ تھمنے والی مصیبتوں کے دروازوں کو ہمیشہ کے لئے کھول کر رکھ دیا ہے۔ 1846 سے لے کر آج تک چھوٹی چھوٹی باتوں کو ہوا دینے کا رواج مسلسل چلتا آرہا ہے۔ آپسی صلح مشوروں سے کبھی بھی ہم نے حالات کی گہرائی میں اترنے کی ٹھوس کوشش نہیں کی۔ اب حالات اس قدر ہاتھ سے باہر ہوگئے ہیں کہ کوئی بھی نامعلوم فرد بندوق اٹھا کر کسی بھی شخص کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا ہے۔ کسی بھی شخص کی جان کی ضمانت ان حالات میں دینا بیوقوفانہ عمل کہلائے گا۔ ہم اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جموں و کشمیر کے باشندوں کی جانیں اتنی سستی کیوں ہیں کہ کوئی بھی اُنہیں مار دیتا ہے، اور باقی دنیا خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہتی ہے۔اصل میں لوگوں کے اذہان پر اتنے دُکھ درد جمع ہوئے ہیں کہ ماضی میں کی گئی اپنوں اور غیروں کی بےوفائیوں نے ہم سب کو ذہنی مریض بنا دیا ہے اور اب جیسےخون خرابے سے ہمارا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ہم سب کی آنکھیں چھلکتی ہیں جب بھی کسی کا خون بہایا جاتا ہے۔ مذہب و ملت کی تمیز کئےبغیر میں عام انسان ہونے کے ناطے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا بھی خون ابلنے لگتا ہے جب کسی معصوم کو دن دہاڑے یا پھر رات کی تاریکی میں موت کی نیند سلایا جاتا ہے۔اگر ہم تاریخ میں تھوڑا ساجھانکیں، تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ بہت سارے وجوہات کے علاوہ معاشی مفادات اور مذہبی اجارہ داری وہ بنیادی اسباب ہیں جن کی وجہ سے کشمیر کے حالات آج تک دگرگوں ہیں۔
جیسے کہ مضمون کے آغاز میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ میرا یہ مضمون حساسیت کا عنصر اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ،اس لیے میں پھر سے اس بات کو دہرانا چاہتا ہوں کہ اصل میں کشمیری لوگوں کا کافی نقصان ہوچکا ہے۔ ہم اپنی بات کہنے سے گھبراتے ہیں۔ ہر وقت یہی ڈر ہے کہ سننے والاہماری بات کو کس انداز سے سمجھتا ہے۔ کیا پتہ سننے والے کا معیار بہت حد تک گرا ہوا ہو اور سنی سنائی بات کو توڑ مروڑ کر کہاں سے کہاں تک پہنچا یاجائے، اس بات کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ہمارے اولاد، بھائی بہن، جائدادیں، تعلیمی ادارے اور وسائل کا اتنا زیادہ نقصان ہوا ہے کہ نہ ہم ادھر کے رہے کہ نہ ادھر کے۔ افسردگی کا اتنا بڑا عالم ہے کہ ہر چہرہ زرد پڑا دکھائی دے رہا ہے۔ دل میں بےقراری اور دن اور رات کا سکون ختم ہوچکا ہے۔
میں اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی اور کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سے درخواست کرتا ہوں کہ ماضی میں جو ہوا سو ہوا۔ اب آنے والے کل کی سب کو فکر کرنی چاہیے۔ جائز شکایتوں کا ازالہ مرکز اور سرکاری حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ سب کی بات سننے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ تخلیقی اورپائیدار ڈپلومیسی کی لگام کو تھام کر کسی بھی پیچیدہ مسئلے کا حل ڈھونڈا جاسکتا ہے۔ نوجوانوں کی دادرسی کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ماحول کو سازگار بنانا بھی ساری ترجیحات میں اول ترجیح ہونی چاہیے۔ راستہ مشکل ہے لیکن منزل خوبصورت ہے۔ سب کو ساتھ چلا کر جموں و کشمیر میں پھر سے خوشیوں کی رونقیں بحال کی جاسکتی ہے ۔ میں ایک نوجوان ہونے کے ناطے امید لگائے ہوئے بیٹھا ہوں کہ اب حالات میں کچھ حد تک سدھار آئےگا اور ہمارے زخموں کا کچھ مداوا ہوجائے گا۔ امید پے دنیا قائم ہے اور ہم اب نرگس کی طرح خزاں کے موسم کو برداشت کرکے بہار کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں اور مجھے قوی امید ہے کہ وزیراعظم اور نئے منتخب جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ ہمیں مایوس نہیں کرینگے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے۔
(رابطہ ۔ 7006031540)
syedmustafaahmad9@gmail.