ہفتہ عشرہ قبل پریس کالونی سری نگر میں اپنی نوعیت کا پہلا مظاہرہ ہو ا۔ یہ مظاہرہ مظفر آباد کی اُن بیٹیوں نے کیا جو کشمیری نوجوانوں کے ساتھ بیاہی گئی ہیں مگر ان کی خرماں نصیبی کہ یہاں یہ بیٹیاں طرح طرح کے خانگی، نفسیاتی اور سماجی مسائل سے دوچار ہیں اور چاہتی ہیں کہ میکہ لوٹ کر اپنے دکھ درد کا بوجھ ہلکا کریں ۔ ان کا ٹھوس شکوہ ہے کہ نہ انہیں ریاست میں مستقل باشندگی کا حق دیا جاتا ہے اورنہ وطن واپسی کا راستہ دیا جاتاہے۔ اس پیچیدہ مخمصے سے دوچار یہ کم نصیب خواتین نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق دو حکومتوں کی عدم شنوائی کے بیچ اٹک کر ذہنی تعذیب میں پھنسی ہوئی ہیں ۔ سری نگر میں اپنے بچوں سمیت ان کا مظاہرہ کر نا کوئی سیاسی چیستاں نہیں بلکہ محض ایک انسانی مسئلے کی طرف اربا ِبِ اقتدار کی توجہ مبذول کرانے کی چیخ وپکار ہے تاکہ ان کی بپتا سنی جائے ۔ یاد رہے کہ عمر عبداللہ کے دور ِحکومت میں پار بیٹھے سابقہ ملی ٹینٹوں کے بارے میں ریاستی حکومت کی تجویز پر مرکزی حکومت نے ایک پالیسی وضع کی تھی جس کے تحت ان کشمیری نوجوانوں کو گھر واپسی کا موقع دیا گیا جو وطن لوٹ کرپُرامن زندگی گزرانے کے خواہش مند تھے ۔ ان دنوں بحالی ٔ اعتماد اور نارملسی کا نام دے کر اس ا قدام کا کافی طمطراق سے چرچا کیا گیا ، بلکہ عمر عبداللہ کی حکومت اسے اپنی ایک بڑی کامیابی جتلاتی رہی۔ ایسے نوجوانوں کو مرکز کی منظور شدہ پالیسی کی جانب رجھانے کے لئے حکومتی امدادکی یقین دہانیاں بھی دی گئیں مگر عمل ندارد۔ یہ الگ بات ہے کہ پار گزر بسر کر رہے کشمیری نوجوانوں کی بازآبادکاری سے موسوم اس پالیسی پر اُس وقت کی اپوزیشن بی جے پی نے حکمران کا نگریس کی اُسی طرح جم کر مخالفت کی جیسے ایک زمانے میں resettlmemt bill کے خلاف دلی میں ایکاکیا گیا تھا۔بایں ہمہ کئی ایک کشمیری نوجوان اس پالیسی سے فائدہ اُٹھانے کے لئے یکے بعد دیگرے نیپال کے رُوٹ سے گھر لوٹ آئے ۔ بلاشبہ یہ خیر سگالی کے جذبے سے اُٹھایا گیا موزون حکومتی قدم ثابت ہوتابشرطیکہ اس پالیسی پر صدق دلی اور ثابت قدمی کے ساتھ عمل درآمد کیا جاتا۔ اسی صورت میں مذکورہ اسکیم کے مثبت نتائج برآمد ہوتے ۔ بہر حال متعدد کشمیری نوجوان براستہ نیپال دستاویزی ثبوتوں اور سرکاری اجازت ناموں کے ساتھ یہاں لوٹ تو آئے مگر اُن کی تمام اُمیدیں بہت جلد خاک میں مل گئیں کیونکہ ریاستی حکومت سے انہیں جو توقعات وابستہ تھیں وہ بالشت بھر بھی پوری نہ ہوئیں بلکہ اُلٹا قدم قدم پر مسائل کا شہمار پھن پھیلائے ان کو ڈَس رہا ہے ۔ ا س معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ گھرواپسی کرنے والے نوجوان چونکہ زیادہ تر پار کی بیٹیوں سے شادیاں رچا چکے تھے ، بال بچے والے تھے ،اس لئے ظاہر ہے وہ اپنی فیملیوں کے ساتھ ہی پارسے لوٹ کر واردِکشمیر ہوئے ۔ یہاں ان کی ا زدواجی زندگیاں کامیابی کے ساتھ چل رہی ہیں مگر کئی ایک کوتاہ قسمت خواتین ایسی بھی ہیں جو اپنے شوہروں کی بے اعتنائیوں یا سسرالیوں کی سردمہری کی شکار بتائی جاتی ہیں ۔ اس بارے میں کئی ایک دلخراش قصہ کہا نیاں پہلے ہی مقامی اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔ ایسی ہی ایک کم نصیب خاتون مظفرآباد کی ستائیس سالہ کبریٰ گیلانی ہیں جن کے بارے میں بتایا جاتاہے کہ ُا ن کا نکاح پار ہی جنوبی کشمیر کے کوکر ناگ علاقہ سے تعلق رکھنے و الے کسی سابقہ ملی ٹینٹ سے ہوا تھا مگر سالوں تک بچہ نہ ہونے کے سبب اس محترمہ کو اپنے خاوند نے مبینہ طور سر راہ چھوڑ دیا ۔ اب یہ خاتون اپنا گزارہ گھریلو خادمہ بن کر چلا رہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق کبریٰ اپنی زندگی کا درد کم کرنے کے لئے واپس اپنے میکہ مظفر آباد لوٹنا چاہتی ہیں ۔ اس ضمن میں ان کے پاسپورٹ کوپاکستانی ہائی کمیشن نئی دلی توسیع بھی دے چکا ہے مگر جب یہ مصیبت کی ماری خاتون واگہہ سرحد کے راستے پاکستان واپس جانے کے لئے وہاں پہنچیں تو حکام نے ان کے پاس’’ ناکافی دستاویزات‘‘ ہونے کے بہانے انہیں سرحد سے بے نیل ومرام واپس لوٹادیا۔کبریٰ گیلانی کا دعویٰ ہے کہ اُن کی طرح کشمیری نوجوانوں کے ساتھ بیاہی گئیں پار کی ایسی کم ازکم دوسو خواتین ہیں جو وادیٔ کشمیر چھوڑ کروطن واپس لوٹنا چاہتی ہیں مگر ان کی سنی اَن سنی کر دی جاتی ہے ،اس لئے یہ ایک درماندہ قافلے کی طرح یہ کشمیر میں سڑ گل رہی ہیں ۔ ا س میں دورائے نہیں کہ یہ ایک ایسا انسانی مسئلہ ہے جس کا حل سیاسی عینک لگاکر قیامت تک بھی نہیں نکل سکتا بلکہ ا س کے لئے صرف اور صرف انسانیت کی فراوانی درکارہے اور انسانی نقطۂ نظر سے سوچ کر ہی اس کا کوئی عمدہ حل نکالا جاسکتا ہے ۔ شومی قسمت نئی دلی ا ور اسلام آباد کے درمیان سال ہا سال سے تعلقات بہت خراب چلے آرہے ہیں ، گفت وشنید کے دروازے مقفل ہیں، راہ و رسم کے راستے مسددو ہیں ،ٹریک ٹو سلسلے کا بھی کہیں اَتہ پتہ نہیں ،اس لئے دل اور ضمیر کے شیش خانے پر بھاری انسانی مسائل بھی ہمارے اربابِ بست وکشاد کی توجہ اپنی جانب کھینچ نہیں پا رہے ہیں ۔ کبریٰ گیلانی کا المیہ اسی سنگ دلی کا نتیجہ ہے۔ اس پتھر دلی کا ایک اور ثبوت وہ غم انگیز واقعہ بھی پیش کرتا ہے جو بتاتا ہے کہ آر پار کی حکومتیں کس قدر رقابت و کدورت کے بلیک ہول میں گم ہو چکی ہیں ۔ رواں ماہ کو کامران آفتاب نامی ۲۱؍ برس کے نوجوان کوٹلی مظفر آباد سے امن گاڑی میں چکاں دا باغ کراس کر کے پونچھ میں پڑاؤ ڈال گیا ۔اس نوجوان کو بہروٹ پونچھ میں اپنی دادی اماں اور چچا سے ملنے کا اَرمان پورا کرنا تھا مگر فوجی حکام نے اس نوجون پر ممانعت عائد کردی ، حالانکہ ڈپٹی کمشنر پونچھ نے فو جیوں کے نام اپنے خط میں نوجوان کو اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی سفارش لکھ دی مگر ’’سیکورٹی ‘‘ کے بہانے کامران کو اپنے رشتہ داروں سے ملنے کی حسرت پوری کئے بغیر کئی دن بعد گھر کی راہ لینا پڑی ۔ یہ واقعات بتاتے ہیں کہ عام انسان کے جذبوں کی یہاںکوئی قدر وقیمت نہیں ہے ۔ پو چھا جاسکتا ہے اگر وزیراعظم مودی بنا کسی ویزے کے کابل سے لوٹتے ہوئے اپنے طیارے کو موڑ کروقت کے وزیراعظم نواز شریف کے یہاں جاسکتے ہیں تو کیا قانون کی حکمرانی اور جمہوری مساوات کا تقاضا ہے کہ کبریٰ گیلانی اور دیگر خواتین کو انسانی بنیادوں پر اپنے میکہ لوٹنے اور کامران جیسوںکو باضابطہ دستاویز اپنے رشتہ داروں سے ملنے میں کوئی ذہنی تحفظ ہو نا چاہیے؟ خدا را! سیاست سے بالاتر ہوکر فقط انسانیت کے ناطے عام آدمیوں کو ایسے مسائل کے دلدل سے نکلنے میں اپنی انسانی ذمہ داریاں محسوس کر نے میں تاخیر نہ کیجئے ۔