جموں کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست جموں وکشمیر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے درمیان لوگوں کے آنے جانے اور تجارت کے لئے چار اور راستے کھولے جائیں۔ اس وقت صرف ایک ہی بس سرینگر اور مظفرآباد کے درمیان چلتی ہے۔ کشمیر کے منقسم حصوں میں لوگوں کی رشتہ داریاں ہیں۔ کئی تو سکے بھائی ہیں، ایک اِدھر رہ گیا اور ایک اُدھر چلا گیا۔ ملنے کی تمنائیں بہت ہیں لیکن ہفتے میں ایک بس اُن کو پورا نہیں کرپاتی۔اس پر مستزاد یہ کہ راہداریاں بآسانی نہ ملنے سے لوگوں کو پریشانیاں لاحق ہوتی ہیں ۔ بس کی اکثر سیٹیں خالی رہ جاتی ہیں۔ ’’کاروانِ امن‘‘سے موسوم بس سروس کو سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے7 ؍اپیریل 2005 ء کو سرینگر سے ہری جھنڈی دکھا کر روانہ کیا تھا۔ روانگی کی تقریب میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور جموں کشمیر کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید شامل تھے۔ حریت (گ) نے بس سروس کی یہ کہہ کر مخالفت کی تھی کہ یہ کشمیر حل نہیں ہے لیکن منقسم لوگوں کو ذہنی سکون کا احساس ملا۔ کئی بار رکاوٹیں آنے کے باوجود یہ بس مسلسل چل رہی ہے۔ دونوں طرف لوگوں کی ہزاروں درخواستیں پرمٹ کے لئے پڑی ہیں، بہت ساری درخواستیں قانونی اڑچنوں، دستاویزی مشکلوںکی بھینٹ چڑھ کرصرف ٹال مٹول میں پھنسی ہیں۔ اکثر وہ لوگ جنہیں پرمٹ نہیں ملتا ، دلّی جا کر پاکستانی ہائی کمیشن سے ویزا لے کر ہزارں روپے کا اضافی خرچہ پر واگہہ کے راستے پار جاتے ہیں۔ بیتے دو سال میں اس بس میں4365 مسافر سفر کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پار والے کشمیر سے48,226 درخواستیں آئی ہوئی ہیں۔ سرسری چھان بین کر کے انہیں انسانی بنیادوں پرمنظور کیاجانا چاہیے۔
دنیا کے بہت سے ملکوں نے ایک قاعدہ بنایا ہے کو اگر کسی کی ویزا کی درخواست پر ان کے اپنے شہری کی ضمانت ہو کہ ویزا کے خاتمے پرآنے والا پردیسی واپس دیس چلا جائے گا تو اسے ویزا دے دیا جاتا ہے۔اُس شہری کی نوکری، تنخواہ اور جائیداد کی معلومات بھی قبل ا زوقت حاصل کی جاتی ہیں۔ ایسا ہی قانون ادھر بھی بنایا جا سکتا ہے، کچھ اور ضمانتیں بھی لی جا سکتی ہیں۔ فرض کریں باہر کا بندہ کبھی ملک میں قدم رکھ کرغائب ہو لیکن اپنا ملکی شہری اپنی نوکری اور گھر مکان چھوڑ کر کہاں بھاگ سکتا ہے؟ ہر اچھے کام میں کچھ risk لینے پڑتے ہیں، کچھ دلیری دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اچھے نتائج کی توقع رکھی جانی چاہیے ۔
کنٹرول لائن کے آر پار تجارت بھی چل رہی ہے جو کئی بار گڑبڑ کی وجہ سے رُکتی بھی رہی ہے ۔کئی طرح کی پریشانیوں کے باوجود بیتے سال 2500ء کروڑ روپے کا تجارتی لین دین ہوا۔ اس دوطرفہ تجارت میں سرحد کی گولہ باری سے بھی پریشانی پیدا کرتی ہے، جب کہ کچھ لوگ سمگلنگ سے باز نہیں آتے۔ کل ملا کر اس تجارت کا دونوں طرف کے لوگوں کو فائدہ ہواہے۔ اگر اس کا حجم کچھ اور بڑھا دیا جائے تو نہ صرف کچھ مقامی لوگوں کو روزگار اور ضروری اشیاء بھی کم داموں پر مہیا ہو سکتی ہیں بلکہ اس سے راحت کے ساتھ ساتھ رشتے داریاں اور نزدیکیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔جیسا کہ ہر جگہ دیکھا جا تا ہے کہ ایک ہی زبان اور کلچر والے لوگ دو ملکوں میں تقسیم ہو ں توانہیں تکلیف ہوتی ہے۔جموں اور کشمیر کے درمیان خط ِتقسیم کو کنٹرول لائن کہاجاتا ہے لیکن عملاً یہ دو ملکوں کی سرحد بن گئی ہے۔ اس پر بہت مضبوط اور گھنے کانٹے دار تاریںبچھائی گئی ہیں اور آئے دن دونوںا طراف سے اس پر گولہ باری بھی ہوتی رہتی ہے۔ جس راستے سے سری نگر مظفرآبادبس چلتی ہے ،وہاں سرحد پر ایک ندی ہے جس پر بنے پُل کو ’’امن سیتو‘‘ کہا جاتا ہے۔امن عربی زبان کا لفظ ہے اور سیتو سنسکرت کا۔اسی ندی پر ایک جگہ دونوں طرف ذر اکھلی جگہ ہے۔ وہاں دونوں طرف کے لوگ باگ دن کے مقررہ وقت آ کر ندی کے آر پار کنارے پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنے اپنے رشتہ داروں کو پہچان کر زور زور سے ہاتھ ہلاتے ہیں۔ وہ اونچی آوازوں میں بولتے بھی ہیں لیکن ندی کے شور میں کچھ سنائی نہیں دیتا۔دوپہر ڈھلتے ہی حفاظتی دستے ان کو وہاں سے واپسی کے آدیش دیتے ہیں۔ قدرتی بات ہے کہ وہاں کھڑے لوگوں کی آنکھوں میں اشک بھی ہوںگے، ان آنسوؤں میں پیار، خوشی، غم، لاچاری اور غصہ بھی شامل ہوگا۔ کچھ ایک کی سسکیاں لگ سکتی ہیں اور کچھ کی سرد آہیں ،جو ندی کے شور میں آر پار سنائی نہیں دیتیں۔ اس سے بھی بڑھ کر دکھ کی بات ہے کہ یہ سسکنا اور ڈسکنا دونوں اطراف کے سیاسی رہنمائوں کو بھی نہیں دکھائی دیتا۔محبوبہ مفتی نے مزید راستے کھولنے کی جو مانگ کی ہے اس میں جموں سے سیالکوٹ کا راستہ بھی شامل ہے جو تقسیم سے پہلے کا پرانا راستہ تھا۔ اس راستے سے ریل گاڑی بھی چلتی تھی۔ اب وہ ریل کی پٹری غائب ہے اور ریلوے سٹیشن کا بھی نشان نہیں بچا ہے۔ کبھی پنجاب سے کشمیر جانے کا یہی راستہ ہواکرتا تھا اور سکھ حکومت کے وقت جموں سے لاہور کا یہی راستہ تھا۔ حال ہی میںوزیر اعلیٰ نے’’ آزاد کشمیر‘‘ کے طلبہ وفد کو بھی اِدھر آنے کی دعوت دی ۔ انہوں نے دونوں طرف کے اسمبلی ممبران کے مشترکہ اجلاس کی تجویز بھی دی ہے۔ یہ بات تو ابھی دور کا ڈھول لگ رہی ہے پھر بھی اس حسین خواب کے لئے مبارک اور ان خوب صورت خیالات کے لئے بھی مبارک۔ خواب پورا ہونے کی پہلی شرط ہے کہ اسے سنجیدہ لیا جائے۔ دنیا کا ہر قلعہ پہلے ہوا میں ہی بنتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ کام اتنا مشکل تو نہیںاور پھراس میں حرج بھی کیا ہے؟ اگر چار راستے یا اس سے زیادہ شاہرائیں کھلتی ہیں تو لوگوں نے اپنا کرایہ بھاڑا خرچ کرنا ہے۔ بس مالکان کو منافع ہوگا۔ لوگ ویزا یا پرمٹ فیس بھی اداکریںتو سرکاروں کا فائدہ ہوگا۔ بے شک تھوڑی فیسیں بڑھا دو مگر ایک دوسرے ملک کے زیر انتظام علاقوں میں لوگوں کو انسانیت کے ناطے جوق درجوق آنے جانے دیجئے۔ وہ خریدوفروخت کریںگے، کچھ تحفے تحائف لے کرآئیں جائیںگے۔ اس سے تاجروں اوردوکانداروں کا فائدہ ہوگا۔جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ انہونی باتیں ہیں، غیر ممکنات میں سے ہیں،ان کو راقم اپنا ایک ذاتی تجربہ بتاتاہے۔ یہ ایک آنکھوں دیکھی بپتا ہے۔فرانس اور جرمنی کے بارے کہا جاتا ہے کہ بیتے ایک ہزار سال میںان دو ملکوںکو ایک دوسرے کا خون بہانے کے بغیر کوئی اور کام نہ کر ناآیا۔ دونوں ملک ایک کے بعد دوسری جنگ میں مبتلا رہے۔ دو سال پہلے کی بات ہے کہ میں جرمنی کے ایک شہر سے پیرس گیا تو بارڈر پر کسی نے ہماری بس کو نہیں روکا۔ کسی نے پاسپورٹ اور ویزے نہیں دیکھے، لگی ہوئی مہروں کی باریک بینی سے چھان بین نہ کی، کسی نے سامان کی تلاشی نہیں لی بلکہ بس اپنی رفتار پر چلتی رہی۔ یورپ کے 20 ؍ملکوں نے اسی طرح آمدورفت کے لئے سب راستے کھول دئے ہیں۔ میرے جیسے بندے کی آنکھیں اس صورت حال سے نم ہو جانا قدرتی ہے ۔اے کاش! جنوبی ایشیا میں بھی ایسا ہو جائے، کاش کبھی امرتسر اور لاہو ر کے بیچ اسی طرح بلاوسوسہ بسیں چلیں۔چلو اگر یہ فی الحال ممکن نہیں تو پاسپورٹ دیکھو، ویزے دیکھو، پرمٹ دیکھو لیکن تما م بند پڑے راستے کھلے من سے کھول کے رکھ د و۔ ہم انگلینڈ، امریکہ کا ویزا لیتے ہیں تو سارے ملک کا ویزا ملتا ہے کہ آپ کہیں بھی آئو جائو لیکن جب پاکستان اور ہندوستان کا ویزا لگتا ہے تو اس پر شہروں کے نام لکھے ہوتے ہیں۔ پتا نہیں کیا فرق پڑتا ہے اگر کوئی بندہ سارا ملک گھوم آئے۔ فی الحال سرینگر سے مظفرآباد کے درمیان چلنے والی بس صرف جموںکشمیر کے پشتینی باشندوں کے لئے ہے ،اسے بلاروک ٹوک چلنے دیجئے ۔اس بس میں ایک مبارک دن کو اُدھر سے دولہا آیا اور اِدھر راجوری سے دولہن پار گئی۔ کتنااچھا ہو اور بھی براتیں آئیں جائیں، ڈولیاں آئیںڈولیاں جائیں۔ دونوں اطراف کے ادیبوں، افسانہ نگاروں، شاعروں اور صحافیوں کے مشترکہ جلسے ہو ں تو سونے پہ سہاگہ او ر چلتے چلتے کبھی سیاست دانوں کے درمیان تبادلہ ٔ خیالات ہوں تو کیا کہنے۔دھرتی کے سینے پر لکیر در لکیر کھینچنے والوںکو یہ سب لکیریں، تاریں اور فلک بوس دیواریں مبارک،بس ان میں کچھ دروازے رکھ دیجئے، کچھ کھڑکیاں کھول دیجئے، کچھ اُجالا ہونے کے لئے روشن دان رکھئے ۔ یہ آپسی ملنا جلنا، آنا جانا ہی امن کی ہوائیں چلائے گا، اسی سے حالات بہتر بنیںگے اور اسی سے آپ کے تمام پیچیدہ مسائل حل ہوں گے۔
رابطہ09878375903