Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

کا سۂ گدائی ۔نہ علاج تنگ دستی نہ دوائے مفلسی ہے فہم و فراست

Mir Ajaz
Last updated: March 27, 2025 10:19 pm
Mir Ajaz
Share
15 Min Read
SHARE

بشارت بشیر

ایک فلاحی اسلامی معاشرہ جن بنیادوں پر قائم رہتا ہے اُن میں ایک دوسرے کے تیئں رحم،شفقت ،محبت و مودت اور ہمدردی و غم خواری کو اہم تر مقام حاصل ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ میدان معیشت میں ہر شخص بر سرجدو جہد نظر آتا ہے لیکن قدرت کے ازلی قانون کے تحت حصول سرمایہ میں سب برابر نہیں ہوسکتے اور معاشرہ میں اقتصادی لحاظ سے اونچ نیچ ایک لازمی اور فطری عمل ہے اور سماج کا وہ طبقہ جو کافی جدوجہد کے بعد بھی جینے کی حد تک اپنی ساری ضروریات پوری نہیں کرسکتا۔اسلام نے اُن سے آنکھیں نہیں پھیر لی ہیں اور نہ انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے بلکہ اسے اپنے اسباق کا اہم ترین موضوع بناکران کی امداد و عانت کوصاحب ثر و ت لوگوں اور متوسط طبقہ پر لازم ٹھہرائی ہے۔
یہاں یہ بات بھی ملحوظ نظر رہے کہ انتہائی کٹھن اورد شوار گذار حالات میں بھی اسلام اپنے پیرو کاروں کے ہاتھ میں گدائی کا کشکول دیکھنا نہیں چاہتا کہ اس سے ان کی عزت نفس کی موت بُری طرح ہوتی ہے،وہ ہر لحاظ سے ایک مومن کو صابر،محنتی اور جفاکش دیکھنا چاہتا ہے اس لئے اُس نے دن بھر حلال ذرائع سے خون پسینہ ایک کر کے شام کو اپنے اہل خانہ کو کھلانے والے ہر لقمہ تک کو صدقہ سے تعبیر کیا ہے۔جفاکشی کی تعلیم اسلام کس انداز سے دیتا ہے کہ خود حضور اکرم ؐ نے سوال کرنے والے ایک انصاری صحابی سے اُس کا پیالہ اور کمبل فروخت کروا کر کچھ پیسے غذا اور کچھ سے کلہاڑی خرید نے کا حکم فرمایا اور پھر اس کلہاڑی میں خود اپنے مبارک ہاتھوں سے دستہ لگایا ۔اُسے یہ فرماکر جنگل سے لکڑی کا ٹنے کا راستہ دکھایا کہ توپندرہ دن تک میری مقدس نگاہوں سے نہ گذرے۔سائل گیا ،مشقت شروع کردی ،کاٹی ہوئی لکڑی شام کو بازار میں فروخت کرنے لگا،کچھ پیسہ مل گیا۔ضروریات زندگی کی کچھ اشیاء خریدیں ۔پندرہ روز کے بعد حاضرخدمت ہوکر سرگذشت سنائی تو زبان و حیٔ ترجمان گویا ہوئی۔یہ(یعنی مشقت کا یہ عمل)اس سے کہیں بہتر ہے کہ تم کسی سے بھیک مانگو۔اور قیامت کے دن ذِلت اٹھاو،فرمایا:’’سوال کرنا تین حالتوں میں درست ہے۔سخت افلاس یا قرض میں یا خون ناحق کے تاوان میں‘‘۔
غرض اسلام دستِ سوال دراز کرنے کے ہر عمل کو انتہائی ناپسند کرتا ہے،کچھ حضرات جو محنت سے جی چرانے اور پاؤں پسارے کوئی کام کئے بنا کھانے کے عادی ہوتے ہیں اور کام کاج سے بچنے کے لئے اس حدیث نبوی کو دلیل بناتے ہیں اور اس کو تو کل کا نام دیتے ہیں کہ ’’ اگر تم خدا پر بھروسہ کرو تو وہ تم کو پرندوں کی طرع رزق عطا کرے گا ،تم دیکھتے ہو کہ وہ صبح خالی پیٹ گھونسلوں سے نکلتے ہیں لیکن شام کو آسودہ ہو کر واپس آتے ہیں‘‘ دراصل وہ اس مقدس ارشاد کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں دانستہ غلطی کے مر تکب ہوتے ہیں۔حدیث کی اصل روح تو یہی ہے کہ پرندے شام کو شکم سیر ہو کر جب ہی آتے ہیں جب وہ دن بھر حصول رزق کی تلاش میں رہتے ہیں اور یہ حدیث نبوی تو معاشی جدو جہد کوجاری رکھنے پر دال ہے۔یہاں ایک انتہائی سبق آموز حکایت بھی اس حوالہ سے سپرد قلم کروں ،جو ہمیں حصول معاش کے لئے جدو جہد اور بے بسوں کی امداد کے تعلق سے بھی درس زریں فراہم کرتی ہے۔ایک مشہور بزرگ جب اپنے ایک ہم عصر بزرگ کے پاس سفر تجارت پر روانہ ہونے کے لئے پھر رخصت حاصل کرنے گئے دعائیں لے کر رخصت ہوئے تو تو قع کے خلاف چندہی روزبعد رخصت کرنے والے بزرگ نے اُنہیں مسجد میں دیکھ کر اندار ہی اندر تاسف کا اظہار کیا کہ یاالٰہی بس تھوڑے سے دنوں میں حضرت کو نسی تجارت کر کے آئے ہیں؟جانے والے صاحب پھر حاضر خدمت ہوئے اور فوری واپسی کے وجوہات بیان کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ حضرت دوران سفر ایک تاریک جنگل میں ایک بے بس معذوراور اندھے پر ندے کو دیکھ لیا اس کی زندگی کی گاڑی کیسے چلتی ہوگی۔گذر بسر کیسے ہوتی ہوگی،بھلا اس جنگل میں اُس کی غذائی ضروریات کون پوری کرتا ہوگا اسی سوچ میں مگن تھا کہ ایک اور پرندے نے اپنی چونچ میں کوئی شئے لاکر اس کے سامنے رکھدی اور خود فضاؤں میں اُڑ کر رفوچکر ہوا،ادھراس معذور اور اندھے پرندے نے اس کے سامنے ڈالے ہوئے دانے کھاکر شکم سیری کا سامان کر ہی لیا۔تو پھر کیا ہوا؟بزرگ نے سوال کیا ۔حضرت پھر کیا ہونا تھا۔میر اتو تجارت کا ارادہ ہی بدل گیا اور سوچا کہ ان کھنڈرات میں بھی اللہ رازق ورزاق اگر ایک معذور واندھے پرندے کے رزق کا اہتمام کرتا ہے تو میں کیوں حصول رزق کی تلاش میں صحراو بیابان اور شہر و دیہات کی خاک چھانتا پھروں،دوسرے بزرگ نے جواب میں کہا: اچھا تم نے اس واقعہ سے یہ سبق حاصل کیا ،بزرگ نے پوچھا۔اصل میں اس واقعہ میں جو فلسفہ پوشید ہ ہے وہ تم سمجھے ہی نہیں ہو‘‘۔تم نے کیوں وہ پرندہ بننا پسند کیا جو انتہائی معذورو بے بس ہے اور دوسروں کے دانہ پانی کا محتاج ہے۔وہ پرندہ بننے میں تم خوش کیوں نہیں جو دن بھر خود معاش ورزق کی تلاش میں رہا ،خود بھی آسودہ ہوا اور ایک اور بے بس پرندے کی شکم سیر ی کا سامان بھی کردیا۔یہ سن کر ان صاحب کی آنکھیں کھل گئیں۔بزرگ کے ہاتھوں کو چوما، ایستادہ ہوئے اور سفر تجارت پر روزانہ ہوئے‘‘۔
ہاں۔اسلام زبردست جفا کشی اور محنت کا درس دیتا ہے اور خوامخواہ گداگری اور دست سوال دراز کرنے کے عمل سے اسے شدید نفرت ہے۔اس لئے حضور ؐ کا فرمان ہے۔’’تم میں سے جو بھیک مانگتا ہے وہ جب خدا کے سامنے جائے گا تو اس کے چہرے پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی‘‘۔(بخاری)۔ایک اور دفعہ ارشاد فرمایا’’جس نے پائی پائی جوڑنے کے لئے لوگوں سے سوال کیا وہ درحقیقت روپے کا نہیں آگ کا سوال کرتا ہے اب یہ اس کا کام ہے کہ آگ کے اس ڈھیر کو کم کرے یا زیادہ کرے‘‘۔(مسلم)۔ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا’’جس نے بھیک مانگنے کا راستہ اختیار کیا ِ،خدا اُس کے لئے غربت اور افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے‘‘۔دیکھا آپ نے۔خدا کا یہ آخری رسولؐ جو بلاوجہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے ہیںسے کس وجہ ناراض ہیں۔ہاں جیسا کہ عرض کر چکا کہ اسلام انتہادرجے کی محنت کے بعد بھی اپنی ضروریات پوری نہ ہونے والے اپنے پیرو کا ر کویوں ہی نہیں چھوڑ تا بلکہ غربت وتہی دستی کے شکاران لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کا ایک مربوط اور مضبوط قاعدہ بنا کے رکھ دیا ہے،اور صاحب نصاب لوگوں کی اس حکم کی تعمیل میں پہلوتی کو اُن کے لئے شدید عذاب کا موجب گرد انتا ہے اور زکوٰۃ کی اس بروقت ادا ئیگی کو سورہ مومنون میں کامیابی کی دلیل سورہ نمل میں موجب ہدایت و خوش خبری قرار دیتے ہوئے سورہ فصلت میں اس کی ادائیگی سے انکار کرنے والوں کو یہ وعید سناتا ہے۔’’کہ بُرا ہو مشرکوں کا یہ نہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور نہ ہی آخرت پر ایمان لاتے ہیں‘‘۔
قرآن نے ملت و قوم کے صاحب ثروت لوگوں کو یہ باورکرادیا ہے کہ یہ دولت کی ریل پیل ،یہ باغات ،یہ عالی شان محلات،یہ آرام دہ سواریاں ،تمہاری ذہنی اُپج اور زور بازو کا کمال نہیں بلکہ یہ تم پر اللہ تعالی کا فضل و احسان ہے۔اس دولت و مال میں مصیبت اور غربت کے ماروں کا خاص حق ہے جس کی عدم ادائیگی تمہیں بُرے انجام سے دوچار کرکے ہی رہے گی۔چشم فلک نے ان احکامات پر عمل پیرا معاشرہ کو بھی دیکھ لیا کہ بہت مدت تک پھر لاکھ ڈھونڈے میں بھی کوئی زکوٰۃ لینے والا مل نہیں پایا۔یہ بھی واضح رہے کہ اسلام نے زکوٰۃ کے حقداروں کے مدات بھی مقرر کئے ہیں اور اس کے لئے ہم سبھوں باالخصوص صاحبان ثروت و نصاب لو گوں کے لئے قرآن حکیم کی سورہ توبہ کی آیت ۶۰ کو بہ نظر غائیر دیکھنا اور پھر اس کی تشریح و توضیح سے مستفید ہونا لازم بن جاتا ہے۔ان میں پیشہ ور گداگروں اور ہمیشہ دست سوال دراز کرنے والوں کا کوئی ذکر نہیں جن کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اور ہمیشہ ایک کے بعد ایک دوسرے بہانے بناکر اور آنسوں بہا کر لوگوں کے دلوں کو تڑپاترسا کر اُن کی جیبوں کو آسانی سے ہلکا کرتے ہیں۔
کام چوری ،بے وجہ بھک منگی ،کہالت و سستی تو ایک عرصہ سے ان لوگوں کی فطرت ثانیہ بن کے رہ گئی ہے،یہ بس آج کی صورت حال نہیں سینکڑوں برس قبل بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی۔’’امام غزلی ؒ نے ان جیسے لوگوں اور ان کی بہانہ بازیوں کو خوب جانچا پرکھا تھا۔فرماتے ہیں۔’’یہ لوگ اپنی مسکینی و محتاجی اور لا چاری کو ثابت کرنے کے لئے طرح طرح کے ڈھونگ رچاتے ہیں،ان کی بعض حرکات ایسی ہیں جو اُنہیں قابل رحم بناتی ہیں کچھ سچ مچ اندھے بن جاتے ہیں اور کچھ اندھوں کے سرپر ست اور بعض کسی فالج زدہ،پاگل یا اپاہج یا بیمار کا روپ دھار لیتے ہیں۔یہ لوگ سچے جھوٹے قصے مقفیٰ عبارتیں اور جوشیلی نظموں کا سہارا لیتے ہیں۔ان کی تاثیر اُس وقت زیادہ ہوجاتی ہے جب اُن میں مذہب کی آمیزش یا حسن و عشق کا سوزو گداز شامل ہوتا ہے۔کچھ لوگ ساز وآواز کا سہارا لیتے ہیںاور چنگ و رباب سے لوگوں کو مسحور کرلیتے ہیں‘‘(احیاء علوم دین۔صفحہ ۱۹۸۔۱۹۷ جلد ۔۳) دیکھا آپ نے حضرت امام غزالیؒ نے بہت پہلے اس قبیل کے لوگوں کی جعلسازیوں کا بھانڈ ابیچ چورا ہے پر کیسے پھوڑ دیا ہے اور تا ایں دم یہ صورت حال کچھ نئی شکلوں کے ساتھ جاری و ساری ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ رمضان المبارک ۱۴۴۶؁ھ اپنے جوبن پر ہے اورگداگروں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ ہر طرف نظر آرہے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کی یہ بھیڑہمیں زکوٰۃ کی ادائیگی کے وقت اصل حقدار تک رسائی حاصل کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہو ۔یاد رہے کہ ہزاروں لاکھوں ہمارے بھائی بہن اس وقت خون کے آنسو رور ہے ہیں،رمضان کے ایام میں جانے کتنے کھروں میں پتہ نہیں کتنے دنوں چولہا تک نہ جلا ہو،جو مساکین و فقراء کے زمرے میں آتے ہیں۔ستم ہائے روز گار کے شکار تہی دست لوگوں کا یہ کارواں اپنی داستان درد سنانے پہ آئے تو پھر پہاڑوں کا سینہ بھی شق ہو جائے مگر چہرے پر زردی اور مردنی چھائے یہ لوگ ہماری نظریں بچا کے اور راستے بدل کے چلے جاتے ہیںانہیں اپنی پریشان کُن بپتا سنانا آتاہی نہیں اور ہمارے دروازوں پر آکر اپنی حمیت کا سودا کرنا نہیں چاہتے۔ہمیں انہیں تلاشنا ہوگا۔ڈھونڈنا ہوگا اور پھر تلاش کرکے ان کی ہر نوع کی دل جوئی کے سامان کرنا ہمارے فرائض میں شامل ہے۔اور یقیناً یہی لوگ ہماری امداد اور زکوٰۃ کے اولین مستحق ہیں یا درہے،یہ کام پہلے اپنے اقرباء سے ہو اور پھر یہ سلسلہ آگے بڑھے ،یہی روح اسلام ہے۔ہاں یہ بھی واضح رہے،آج اگر ہم نے کسی کی مدد و اعانت کی توکل اُس کی کسی حرکت سے اگر ہمارے دل کو کوئی ٹھیس پہنچی ،ردعمل میںہم نے امداد کا احسان جتلایا تو پھر خسارہ ہی خسارہ ہے۔مختصر اً یہ زکوٰۃ سے جہاں ہمارے مال کا تزکیہ ہوتا ہے وہاں یہ حب جاہ مال ختم کرنے کا ایک اہم ترعمل اور ملت میں مساوات قائم کرنے کا کار گرذریعہ ہے۔یہی بات زکوٰۃ کے حوالہ سے علامہ اقبالؒ نے یوں کہی ہے۔
حب دنیا را فنا ساز زکوٰۃ
ہم مساوات آشنا ساز زکوٰۃ
رابطہ۔7006055300

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
۔ ₹ 2.39کروڑ ملازمت گھوٹالے میںجائیداد قرق | وصول شدہ ₹ 75لاکھ روپے 17متاثرین میں تقسیم
جموں
’درخت بچاؤ، پانی بچاؤ‘مشن پر نیپال کا سائیکلسٹ امرناتھ یاترا میں شامل ہونے کی اجازت نہ مل سکی ،اگلے سال شامل ہونے کا عزم
خطہ چناب
یاترا قافلے میں شامل کار حادثے کا شکار، ڈرائیور سمیت 5افراد زخمی
خطہ چناب
قومی شاہراہ پر امرناتھ یاترا اور دیگر ٹریفک بلا خلل جاری
خطہ چناب

Related

کالممضامین

! دُنیا میںحقائق کو مٹانے کا بڑھتا ہوا رُجحان دنیائے عالم

July 9, 2025
کالممضامین

وادیٔ کشمیر میں امرناتھ یاترا کی دائمی روح| جہاں ایشورتاپہاڑوں سے کلام کرتی ہے آستھا و عقیدت

July 9, 2025
کالممضامین

! موسمیاتی تبدیلیوں سے معاشیات کا نقصان

July 9, 2025
کالممضامین

دیہی جموں و کشمیر میں راستے کا حق | آسانی کے قوانین کی زوال پذیر صورت حال معلومات

July 9, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?