سرینگر//اے آئی پی کے چار رکنی وفد نے انجینئر رشید کی صدارت میں من موہن سنگھ کی سربراہی میں کانگریس کے اعلیٰ سطحی وفد سے سرینگر میں ملاقات کے دوران اُن پر زور دیا کہ کشمیر مسئلہ کے حل میں کانگریس اپنا مثبت اور موثر کردار نبھا ئے ۔ اس موقعہ پر انجینئر رشید نے وفد کے اراکین سے کہا کہ چونکہ کانگریس مرکز اور جموں کشمیر دونوں جگہوں پر سب سے زیادہ مدت کیلئے اقتدار میں رہی ہے لہذا کشمیر مسئلہ کو طول دینے کی ذمہ داری بھی کانگریس پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ انجینئر رشید نے کہا ”کانگریس کی قیادت کو یہ بات ہرگز نہ بھولنی چاہئے کہ ملک کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے کشمیریوں سے رائے شماری کا وعدہ کیا تھا اور اس وعدے کو پورا کرنے کا مطالبہ کرنا ہرگز ملک دشمنی نہیں ہے ۔ خود ہندوستان کی پارلیمنٹ کی قرارداد جس کے مطابق آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی ہندوستان کا حصہ ہے کو عملانے کا بہترین طریقہ رائے شماری کروانا ہے ۔ کشمیریوں سے خود جواہر لعل نہرو سے لیکر نریندر مودی تک نے بے شمار وعدے کئے لیکن بات وعدوں سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔ کشمیری ہندوستا ن کے دشمن نہیں لیکن انہیں طاقت کے بل پر اپنے جائز حقوق سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ ریاست کے لوگ ہرگز مذہبی بنیادوں پر مسئلہ کا حل نہیں چاہتے ہیں بلکہ مسلمہ اصولوں کی بنیاد پر انصاف چاہتے ہیں“۔ انجینئر رشید نے وفد کے اراکین پر زور دیا کہ مسئلہ کا حل کشمیریوں کے پاس نہیں بلکہ نئی دلی اور پاکستان کے پاس ہے۔ انہوں نے کہا ”کانگریس کو چاہئے کہ وہ موجودہ BJPسرکار کو کشمیر مسئلہ کے حل میں تعاون دے اور مخالفت برائے مخالفت سے اجتناب کرے۔ جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی لاہور نواز شریف سے ملنے کیلئے گئے کانگریس کی طرف سے اس وقت اس کی مخالفت کرنا بے حد غلط بات تھی ۔ اگر ملک کی تمام بڑی جماعتیں کشمیرکے مسئلہ کو اقتدار کے حصول کے بجائے انسانی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو بہتر ہوگا“۔ انجینئر رشید نے کہا کہ کشمیری ہرگز مذاکرات کے خلاف نہیں لیکن مذاکرات کو با اعتبار بنانے کیلئے کانگریس اور BJPکے درمیان لازمی ہے۔