وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے ریاست کے دورے کے فوراً بعد کانگریس پارٹی کا اعلیٰ سطحی وفد سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت میں وادی کے دورے پر پہنچا، حسب روایت وفد کا دعویٰ تھا کہ وہ ریاست کے لوگوں کی بات سننے اور اُن کا درد بانٹنے کیلئے آیا ہے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اہل کشمیر اب اپنا قصہ درد سناتے سناتے تھک گئے ہیں لیکن بد نصیبی یہ ہے کہ ان کے پاس اپنی بات ہر بار دہرانے کے سو ا کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ہے ۔ تعجب اور حیر ت نئی دلی سے آنے والے ہر لیڈر اور وفد پر ہے جو سب کچھ جاننے کے با وجود بھی ہر بار کشمیریوں کو ایسے یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ بتائو آپ کیا چاہتے ہیں جیسے کہ وہ انسان نہیں بلکہ پُر اسرار مخلوق ہوں اور ان کیلئے کشمیر کی سر زمین کسی عجوبے سے کم نہیں ہو۔ کون نہیں جانتا کہ کشمیر مسئلہ راتوں رات کھڑا نہیں ہوا بلکہ 1947ء سے اب تک اس ناسور نے پورے بر صغیر کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے ۔ بہر حال قومی سطح کے لیڈران کی دلی سے آمد کا سلسلہ اپنی جگہ زمینی سطح پر اگر کانگریس اور بی جے پی کے درمیان مسئلہ کے مختلف پہلوئوں کے متعلق کوئی اتفاق رائے پیدا ہو جاتا ہے تو شائد سبھوں کیلئے مسئلہ کے حل کی بات کرنا کچھ با معنیٰ دعویٰ بن سکتا ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو تمام ملکی جماعتوں نے قومی مسئلہ تو کہا لیکن اس سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کیلئے استعمال کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا گیا۔ جب بھی حکمران جماعت نے پاکستان یا کشمیریوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی کوشش کی تو پیچھے سے حزب اختلاف نے آسمان سر پر اٹھا کر سودا بازی اور ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کا واویلا مچانا شروع کیا۔ اگر یوں کہا جائے کہ جس طرح کشمیر میں ہر اس شخص کو شعوری اور غیر شعوری طور سے تنقید کا نشانہ بننا پڑا جس نے مذاکرات کیلئے نئی دلی یا پاکستان کے ساتھ پہل کی ،بالکل وہی حال قومی سطح کی جماعتوں کا بھی ماضی قریب تک ہوا ہے ۔ کانگریس قیادت کو یہ بات ماننی پڑے گی کہ جہاں بی جے پی کے نظریہ اور اہداف میں کچھ زیادہ تضاد نہیں ہے وہا ں کانگریس نہ صرف ابہام کا شکار ہے بلکہ مسئلہ کو طول دینے اور کشمیر اور ہندوستان کے درمیان الحاق کی بنیادی شرطوں کو پامال کرنے کی براہ راست ذمہ دار ہے ۔ مرحوم شیخ صاحب سے لیکر آج تک کے بیشتر سیاسی لیڈروں کے ساتھ ذلت آمیز اور منافقانہ رویہ اپنانے کے الزام سے کانگریس ہرگز نہیں بچ سکتی ۔ من موہن سنگھ کے دورے کی اہمیت کو اگر چہ یکسر نظر انداز کرنا نادانی ہوگی لیکن آج وہ چاہیں بھی تو شائد کچھ خاص نہیں کر سکتے۔ مسلسل دو بار ملک کے وزیر اعظم رہتے ہوئے انہوں نے عملاً افضل گورو کو پھانسی دینے کے سوا کوئی بھی بڑا قدم نہیں اٹھایا ۔ صرف سیکولر ازم کی دہائیاں دیکر اور مسلمانوں سے ہر بار ہمدردیاں جتا جتا کر کانگریس نے اپنی سیاست کو زندہ رکھا۔ بہر حال ماضی پر واویلا کرنے سے شائد ہی کچھ حاصل ہو سکتا ہے اور بی جے پی کی موجودہ قیادت کو بھی سمجھنا ہوگا کہ وہ تمام الزامات کانگریس پر لگا کر مسئلہ کشمیر کے حل سے بھاگ نہیں سکتی ہے کیونکہ سرکاریں تسلسل سے چلتی ہیں اور یہ بی جے پی کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف کشمیریوں کیلئے بلکہ ہندوستان کے بہرین مفاد میں مسئلہ کا پائیدار حل ڈھونڈنے میں پہل کرے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ کیا بی جے پی کیلئے ایسا کرنا تب تک آسان یا ممکن بھی ہے کہ جب تک نہ کانگریس اس سے اپنا پُر خلوص اور سنجیدہ حد تک تعاون دے۔ نریندر مودی سے لاکھ اختلافات سہی لیکن اچانک لاہور جا کر انہوں نے سب کو حیرا ن کر دیا۔ مگر ابھی وہ وہاں سے واپس بھی نہ پہنچے تھے کہ کانگریس نے آسمان سر پر اٹھا نا شروع کیا اور بی جے پی سرکار کو دفاعی رخ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ۔ اس کے بعد حالات گواہ ہیں کہ کانگریس نے ہر چھوٹے بڑے معاملے کو لیکر دلی، جموں اور سرینگر میں متضاد موقف اختیار کرکے مفاہمت کے بجائے انتشاری کیفیت کو ہوا دی۔ ایسا ہرگز ممکن نہیں کہ کانگریس کشمیر میں بی جے پی کو مسلمانوں کی قاتل کے طور پیش کرکے ہمدردیاں بٹورنے کی کوششیں بھی کرے اور ملکی سطح پر بی جے پی کو ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام لگا کر اقتدار میں واپس آنے کی کوششیں بھی کرے۔ اگر واقعی کانگریس سنجیدہ ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ پارٹی مفادات سے اوپر اٹھ کر تمام فریقین کے وسیع تر مفادات میں موجودہ سرکار کو کشمیر مسئلہ کے حل میں اپنا بھر پور تعاون دے۔ سرینگر میں وقت ضائع کرنا تب تک فضول ہے جب تک نہ نئی دلی میں کشمیر کے حوالے سے مکمل اتفاق رائے ہو۔ اگر کانگریس قیادت کشمیریوں سے ملنے سے پہلے نریندر مودی کو معاملے کو پائیدار حل نکالنے کیلئے اپنا تعاون پیش کرے تو تاریخ کا رخ بدل سکتا ہے اور پورا بر صغیر امن کے فوائد سمیٹ سکتا ہے ۔ جہاں کانگریس ملکی سطح پر سیاسی نقشہ سے غائب ہونے کیلئے خود ذمہ دار ہے وہاں کانگریس کی لیڈر شپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کشمیر مسئلہ کے حل میں رکاوٹیں پیدا کرنے سے زیادہ تعاون دینے میں اس کا فائدہ ہے ۔ ماضی میں اگر بی جے پی کا رُخ کشمیر تنازعہ کو لیکر بے حد جارحانہ ہے لیکن سرکار میں آکر اب کہیں نہ کہیں داخلی اور خارجی حالات کو وہ یکسر نظر انداز نہیں کر سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ کہیں نہ کہیں بی جے پی کو اپنے سخت گیر رویہ میں لچک لانی پڑ رہی ہے ۔ لہذا یہ نا مناسب بات ہوگی کہ کانگریس صرف اس لئے بی جے پی کے اقدامات کی مخالفت کرے کیونکہ ماضی میں بی جے پی نے کانگریس کو کشمیر کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔ بہر حال یہ تصویر کا ایک پہلو ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر کانگریس بھی واقعی مسئلہ کے حل کیلئے تعاون دیتی ہے تو ایسی صورتحال میں معاملے کی بنیادی فریق کشمیریوں کا موقف اور طرز عمل کیا ہونا چاہئے۔ ظاہر سی بات ہے کہ معاملے کے تینوں فریقین میں سب سے زیادہ کمزور فریق اہل کشمیر ہیں جو کہ مالک ہونے کے باوجود ہر طرف سے مار کھا رہے ہیں اور ہندوستانی اور پاکستانی ایجنٹوں کی لیبلیں لگا کر ان کی پوزیشن کو مضحکہ خیز بنا دیا گیا ہے ۔ لیکن اس مایوس کن اور بے بسی کی حالت سے باہر نکالنے کی زیادہ ذمہ داری بھی خود کشمیریوں پر ہی عائد ہوتی ہے ۔ اگر کوئی یہ سمجھے کہ نئی دلی اور اسلام آباد کشمیریوں کو مفت میں راہداری دے دیں گے تو ایسا آسان بات نہیں کیونکہ دونوں مالک کی ترجیحات اپنے اپنے ممالک کے مفادات ہیں۔ یہ کشمیریوں کی قیادت کے خلوص، تدبر ، صلاحیتوں اور اتحاد پر منحصر ہے کہ وہ دونوں ممالک کو کس حد تک اہل کشمیر کی قربانیوں کا صلہ کشمیر تنازعہ کے تاریخی پس منظر کی روشنی میں دینے کیلئے مجبور یا مائل کر سکتے ہیں۔ ایسا تبھی ممکن ہے اگر ہر ایک اپنی اوقات کو خلوص اور قومی مفاد کے تابع رکھ کر قوم میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی پہل کرے اور مین اسٹریم ، علیحدگی پسند اور ایسی دیگر اصطلاحات کو ردی کی ٹوکری میں ڈال کر ایک نئے عزم کے ساتھ کشمیریوں کی قربانیوں ، اُن کے جذبات اور ان کے احساسات کو ضرورت کے مطابق مناسب رُخ دے۔