سرینگر// حریت (گ)چیرمین سید علی گیلانی نے کانپور ریلوے حادثے میں ہوئے بھاری جانی نقصان پر اپنے گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کل دنیا میں ہر طرف موت کا رقص جاری ہے۔ کہیں انسانی شکل وصورت والے درندوں کا کردار ادا کرکے انسانوں کو اپنی جھوٹی انا اور تسکینِ شکم کے لیے تہہ وتیغ کرتے ہیں تو کہیں قدرتی آفات کی صورت میں موت کا اژدھا انسانوں کو نگل لیتا ہے۔ پیر کو اخبارات کے لیے جاری اپنے ایک بیان میں گیلانی نے کہا کہ ایسے حادثات میں جہاں کہیں بھی انسانی جان کی ارزانی ہو یا اس کی تذلیل ہو، باحس اور باضمیر انسان اس پر خاموش رہ نہیں سکتا۔ بلکہ اس کا دل خون کے آنسو روتا ہے، اُس کا چہرہ افسردہ اور ذہن مفقود ہوجاتا ہے۔ اس کے باوجود یہ غمزدہ اور حساس انسان بے بس ہے، کیونکہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس خون خرابے کو روکنے کی سکت نہیں رکھتا۔ انہوں نے کہا کہ قدرتی حادثات کے برعکس انسانی ہاتھوں اور ذہنوں سے ہورہے خونِ ناحق کو روکا جاسکتا ہے لیکن جو لوگ اس کی دسترس اور اس کی طاقت رکھتے ہیں وہ اپنے ملکی مفادات اور اکثریتی طبقے کی تسکین کے لیے اس قتل وغارت گری کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے ہیں، بلکہ اس کو سندِ جواز بھی فراہم کرتے ہیں۔ گیلانی نے کہا کہ ہم بحیثیت قوم امن پسند ہیں ہم کسی بھی انسانی جان کے زیاں پر خوش نہیں ہوسکتے ہیں اور کہیں بھی کسی بھی ناانصافی اور انسانی خون کے ارزانی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا یوپی کانپور میں قدرتی حادثے میں لوگوں کی چیخ وپکار اور زخمی بچے بوڑھوں پر گزری قیامت صغریٰ کو الفاظ میں بھی سمیٹا نہیں جاسکتا اور اس پر جتنا بھی غم والم کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے۔ انہوں نے ہلاک شدگان کے لواحقین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہوئے زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے بھی دعا کی۔ آزادی پسند رہنما نے کہا کہ اگرچہ قدرتی حادثات انسان کے حداختیار میں نہیں ہوتے ہیں اور اس میں وہ واویلا اور اظہارِ ہمدردی کے سوا کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا ہے، لیکن خود انسان کی طرف سے ہورہی تباہی اور بربادی کو تو روکا جاسکتا ہے۔ اس طوفانِ بدتمیزی کے شکار معصوم بچے اور بزرگ انسانیت کے نام نہاد غمخواروں سے چیخ چیخ کر فریاد کرتے ہیں کہ آخر ہمارا قصور کیا ہیَ کس جرم کی پاداش میں ہمیں خون میں نہلایاجارہا ہے؟ کس غلطی کی سزا کے طور ہمیں بینائی سے محروم کیا جاتا ہے؟ کس قانون کی خلاف ورزی کے لیے ہمیں جیلوں میں سال ہا سال سے سڑایا جارہا ہے؟ دنیا کے کونے کونے میں عمومی طور اور مسلمانوں کی آبادی والے ممالک میں خصوصی طور موت کے فرشتوں نے ڈھیرا ہی ڈالا ہوا ہے۔ بڑی طاقتوں کی آپسی رسہ کشی ہو، مذہب کے نام پر ابھری ہوئی نئی گروہ بندیاں ہوں یا پھر ہندتوا کے پرچارکوں کے ہندو راشٹر بنانے کے عزائم ہوں، ہر جگہ اور ہر منصوبے کو عملانے کے لیے مسلمانوں کے خون کی لالی بنیادی ضرورت بن گئی ہے۔ لیکن اس جبر وقہر پر ہر طرف خاموشی ہی خاموشی ہے۔ عالمی برادری ہو، انسانی حقوق کی علمبرداری کے دعویدار ہوں یا پھر خود کٹتے، مرتے اور جلتے مسلمانوں کی بے حس اور بے عمل تنظیمیں ہوں۔ سب کے سب ذاتی، ملکی اور گروہی مفادات کی خاطر اپنے ہونٹ سی چُکے ہیں۔ انہوں نے اس ساری صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چاہے فلسطین کا مسئلہ ہو، کشمیر کا مسئلہ ہو یا مشرق وسطی کی تازہ اور قیامت خیز صورتحال ہو، اخباری بیانوں اور کاغذی دھمکیوں کے علاوہ اس زخمی اور کراہتی انسانیت کی مدد کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے۔