محمد ایان سروڑی
ہم انسان ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کی اعلیٰ مخلوق ہیں لیکن سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کی زندگی کا اصل مقصد کیا ہے اور اس دنیا میں ہمیں کیوں اشرف المخلوقات قرار دیا ہے۔اللّٰہ تعالیٰ قرآنِ حکیم میں واضح طور پر فرماتے ہیں کہ،’’ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُون‘‘ • جسکا ترجمہ ہے کہ میں نے جن اور انسان کو پیدا کیا ،اپنے عبادت کے لیے۔اس آیت کے ترجمہ سے واضح ہوجاتاہے کہ ہماری زندگی کا مقصد اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت کرنا ہے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف اسلام کے پانچ ارکان کو ادا کرنا ہی صرف عبادت کہلاتا ہے؟ اگر ہم آج اس کے معاشرے پر نظر ثانی کرے، تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کچھ مسلمان انہیں پانچ ارکان کے ارد گرد اپنی زندگی بسر کرتے ہی اوراسکو ادا کرنے کو ہی مسلمانیت قرار دیتے ہیں لیکن ان پانچ ارکان سے باہر نکل کر بات کریں تو حقوق العباد انسان پر لازماً فرض ہیں، کوین کی حقوق العباد سے ہی انسان حقوق اللّٰہ تک پہونچ سکتا ہے ۔لیکن ہمارے دینِ اسلام میں اللّٰہ تعالیٰ کی اتات کرنا یہ پھر خدمتِ خلق دونوں کرنا اہمیت کےحامل ہیں۔ آج ہم رہتے ہیں اسمیں ہمیں ہرطرح عبادت چاہے وہ خدمت خلق ہو یا پھر اللّٰہ تعالیٰ کی بندگی دونوں کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دين اسلام محدود نہیں ہے بلکہ قرآن اور حدیث کے ایک وسیع دائرے میں عمل کرنے کا نام ہے،البتہ آج ہم مسجدوں میں دیکھیں تو نمازی کم ہیں، مدرسوں میں دیکھیں تو طالبِ علم اپنے معیارِ کھو بیٹھیں ہیں اور اگر ہم بازاروں پر نظر ڈالیں تو وہاں ہر طرف چہل پہل نظر آتی ہے ،ہم انسانیت کو بھول چکے ہیں اور شیطان کی ہر کوشش نظر آرہی ہوتی ہے خاص طور پر مسلمان نوجوان لڑکیاں اور لڑکے اپنی زندگی کی مقصد کو بھول چکے ہیں،اب سوال پیدا ہوتا ہے کی ہے ان سب مرحلوں میں کس طرح کام لینا چاہیے اور وقت کی ضرورت کیا ہے،ہمیں حقوق العباد کےدائرےمیں کیسےرہناچاہیے؟ ہم سب کو اُس تخلیق کرنے والا اللّٰہ تعالیٰ کے فرمان اور اس کے رسول حضرت نبی کریمؐ کی سیرت پر بھی قائم رہنا چاہیے اور کافی حد تک بہت سارے مسلمان قائم ہیںلیکن کمی ہماری یقین اور اس ذاتِ مقدس کی عبادت کو پوری طرح سرانجام دینے میں ہے اور ہم ان چیزوں سے کوسوں دور ہیں۔اللّٰہ پر تو ہمارا یقین ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے دنیا بنائی ہے لیکن جس دن ہمیں یہ یقین ہوجائے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، اُس دن ہم اللّٰہ پر واقعی میں یقین فرمہ ہوں گے کیونکہ آج کے مسلمان صرف نماز کے ادا کرنے ،لوگوں کے ساتھ ہمدردی جتانے،غریبوں کی مدد کرنے کو ہی پورا دین ِ اسلام سمجھتے ہیں اور سب سے بڑی کمی یہ ہے کہ ہم اپنے نبی کریم ؐ کی زندگی کے طریقہ سے کوسوں دور ہیں، اسکی وجہ ہے کہ ہمارے گھروں میں ویسٹرن کلچر داخل ہو چُکا ہے ۔وقت کی ضرورت ہے کی ہم سیرتِ طیبہ کو اپنی زندگیوں میں داخل کریں اور قرآنِ کریم کو اپنے زندگی میں پیش پیش رکھیں،اس میں کامیابی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اسی میں کامیابی رکھی ہے۔
[email protected]
��������������������