امتیاز خان
ہر شخص زندگی میں کامیابی چاہتا ہے اورہمارے ہاں لوگوں نے اپنے اپنے لحاظ سے کامیابی کے مختلف معیار مقرر کر رکھے ہیں ، کسی کے نزدیک مالدار ہو جانا کامیابی ہے ، کسی کے نزدیک شہرت مل جانا کامیابی ہے ، کوئی منصب اور عہدہ مل جانے کو کامیابی خیال کرتا ہے ، غرض ہر ایک نے کامیابی کے الگ الگ معیار مقرر کر رکھے ہیں اور ہر کوئی اپنے معیار کے مطابق کامیابی کے پیچھے دوڑتا چلا جا رہا ہے لیکن اصل میں کامیابی کا معیارکیا ہے ؟
ہم اگر اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں بلکہ خود اپنے دل و دماغ میں جھانک کر دیکھیں تو صاف نظر آجائے گا کہ اس دور میں کامیابی اور ناکامی کا اصل معیار یا تو مال و دولت یا زمین و جائیداد ہے یا دنیوی دبدبہ ، اقتدار یا جاہ و جلال ، عزت و شہرت یا نام و نمود۔سب لوگ ان ہی چیزوں کی طلب میں لگے ہوئے ہیں اور ان ہی کیلئے اپنی ساری جدو جہد اور محنت اور مشقت کو صَرف کر دیا ہے۔ اکثر طالب علموں کے ذہنوں میں بھی یا تو کسی ایسے فن کا حصول ہے جس سے خوب دولت کمائی جا سکے یا پھر کسی حیثیت والی پوزیشن کا حصول ہے اور ان چیزوں کو حاصل کر لینا ہی ان کے نزدیک کامیابی ہے اور حاصل نہ کرنا ناکامی۔یہ دنیا عالم اسباب ہے اور ہم اس سے لازماً متاثر ہوتے ہیں اور جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں آرام وآسائش عزت و شہرت روپے پیسے اور اسباب و وسائل ہی سے وابستہ ہے تو ہم بے اختیار ان چیزوں کے حصول کیلئے کوشاں ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط، کیا جائز ہے اور کیا ناجائز اور کیا حلال ہے اور کیا حرام۔ گویا اس دنیا کی زندگی میں ہمارے رویے اور طرزِ عمل کی درستی کا تمام تر انحصار اسی بات پر ہوتاہے کہ ہمارا کامیابی اور ناکامی اور نفع و نقصان کا معیار بدل جائے۔
انسانی فطرت میں ترقی اور آگے بڑھنے کی جستجو قدرتی طور پر موجود ہوتی ہے لیکن کامیابی کی ایک قیمت ہوتی ہے جو بہت کم لوگ ادا کرنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔یہ کامیابی کیا ہے؟ یہ کیسے حاصل کی جاتی ہے؟ اس کو حاصل کرنے کا فارمولا کیا ہے؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کون شخص کامیاب ہے اور کامیابی کا تعین، پیمائش یا اندازہ کیسے کیا جائے؟یہ ایک اہم بات ہے کوئی بھی انسان زندگی میں نہ تو مکمل طور پر کامیاب ہوتا ہے اور نہ ہی مکمل طور پر ناکام۔ ہر انسان کو دنیا میں کئی دفعہ کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے اور ناکامی کا سامنا بھی ہوتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ زندگی کے اس سفر کے اختتام پر اس کے حصے میں کتنی کامیابیاں آئیں اور کتنی ناکامیاں۔درحقیقت کامیابی کی تعریف اور پیمائش ہی اصل مسئلہ پیدا کرتی ہے کیونکہ ہر شخص کامیابی کی پیمائش کیلئے اپنا اپنا ترازو لے کر ، اپنے پیمانے کے مطابق دوسروں کی کامیابی کو ماپنے کی کوشش کرتا ہے، جو سب سے بڑی اور بنیادی غلطی ہے جو کامیابی کے تصور کو مصنوعی بنا دیتی ہے۔
مذہب، فلسفہ، نفسیات، سائنس اور سماج ہر ایک کی نظر میں کامیابی کا تصور بالکل مختلف ہے۔ ہزاروں سالوں سے انسان اس پر گفتگو کرتے آئے ہیں کہ کامیابی کا معیار کیا ہے۔ ایک بچے، ایک نوجوان اور ایک بزرگ کے لئے کامیابی کا تصور مختلف ہو گا۔ ایک عام دیہاتی کسان کیلئے اور شہر میں ایک کاروباری انسان کیلئے کامیابی کا تصور اور پیمانہ ایک نہیں ہو سکتا ۔ کامیابی کا تصور، نظریہ اور پیمائش ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہے اور سوچ، حالات، واقعات اور چیزوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا نظریہ الگ الگ ہوتا ہے اور یہی قدرت کی خوبصورتی ہے کہ انسان مختلف اور منفرد ہے۔ کامیابی کوئی بھی حتمی نہیں بلکہ چند اصول یا ضابطے ہو سکتے ہیں جن کی بنیاد پر ہم کسی شخص کو کسی حد تک کامیاب کہہ سکتے ہیں لیکن پھر بھی ہر انسان کو اپنی کامیابی کے تصور کے مطابق اپنے اصولوں پر کامیابی کو پرکھنے کی ضرورت ہے۔
پہلا بنیادی اور اہم اصول یہ ہے کہ کیا وہ انسان جسے ہم کامیاب کہتے ہیں وہ خود کو کامیاب سمجھتا ہے اور وہ اپنی کامیابی سے خوش اور مطمئن ہے۔کیا وہ اپنی کامیابی سے اپنے قریبی لوگوں کو متاثر کر پایا ہے۔ کیا وہ اپنی کامیابی کو دوسروں کے لئے قابل تقلید مثال تصور کرتا ہے اور بھی بہت سارے اصول اور سوالات ہو سکتے ہیں لیکن یہ وہ بنیادی اور اہم سوال ہیں جو ہمیں کامیابی کے تصور کو وسیع کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ باقی کامیابی کا جو معیار اور پیمانہ ہمارے معاشرے میں ہے۔ اس کے بارے میں صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ صرف مالی حیثیت تک محدود ہوچکی ہے جبکہ کامیابی بہت اعلیٰ چیز ہے۔
اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ مصروف ہیں ۔کوئی امورِ خانہ داری میں مصروف ہے توکوئی دفتری معاملات میں، کوئی طویل مسافت پر گامزن ہے تو کوئی بیٹھے بیٹھے ہی مصروف ہے۔ ہمارے پاس کرنے کو بڑے بڑے کام ہیں ،انجام دہی کیلئے طویل منصوبہ اور مقاصد ہیں غرض کہ ہم انسانوں کے پاس خیالات سے ذرائع تک ہرچیز وافر مقدار میں دستیاب ہیںلیکن اگر قلت ہے تو وقت کی! آجکل لوگوں کی عادت بن چکی ہے کہ وقت کی قلت کی وجہ سے کام نہیں ہوپارہے ہیںلیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ جن کے کام وقت پر مکمل ہوجاتے ہیں اُن کے لئے قدرت نے الگ نظام الاوقات طے نہیں کر رکھے ہیں۔ظاہر ہے پوری دنیا کیلئے ایک دن24 گھنٹے کا ہی ہے۔ پوری دنیا کے افراد کیلئے ایک سال میں 365دن ہی دستیاب ہیں۔ پھر اکثر لوگ اپنے کاموں کی تکمیل میں ناکام کیوں؟ انسان کے معمولات کی بے ترتیبی اسے کئی کاموں میں ناکام بنانے کے ساتھ ساتھ زندگی میں بھی ناکام بناتی ہے۔ وقت کا صحیح استعمال کرنے کے چند نکات سے استفادہ حاصل کرکے بھی کامیاب زندگی گزاری جاسکتی ہے۔
درج ذیل چند نکات کو اپنی زندگی میںشامل کرکے ہم وقت کو مؤثر طریقے سے استعمال کرسکتے ہیں اور کامیاب زندگی گزار سکتے ہیں۔
مقصد سے واقفیت : اپنے نظریات اور مقاصد واضح کیجئے۔ جب انسان بامقصد رویہ اختیار کرتا ہے تو غیر ضروری کام خود اس سے دور ہونے لگتے ہیں کیونکہ ایک بامقصد شخص کی اولین چاہت مقصد کا حصول ہوتا ہے اور بامقصد شخص اپنی زندگی یونہی نہیں گزارا کرتے۔
ترجیحات کا تعین : ترجیحات کے تعین کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں کیا، کتنا اور کیوں اہم ہے۔ جو قوم و افراد ناقص حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے درست ترجیحات کا تعین نہیں کرپاتے وہ ناکام و نامراد ہو جاتے ہیں اور تمام وسائل ہونے کے باوجود ناکامی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ لہٰذا اپنی ترجیحات میں وہ شامل کریں جو مقصد کے حصول اور زندگی کیلئے ضروری ہے۔ جن کے بغیر زندگی گزاری جاسکتی ہے ان کاموں اور لوگوں سے دور رہیں تو بہتر ہے۔
منصوبہ بندی اور محاسبہ : اپنے دن کا آغاز صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ کیجئے۔ کم از کم آپ یہ ضرور طے کریں کہ آج کا دن کس طرح گزارنا ہے۔ ضروری کاموں کی فہرست تیار کریں اور انہیں وقت پر انجام دینے کی مکمل کوشش کریں۔ ساتھ ہی آپ کی منصوبہ بندی میں محاسبہ بھی ہونا چاہئے تاکہ آپ اپنی کارگزاری پر کڑی نظر رکھ سکے۔
کاموں کو نہ ٹالیں اور فیصلے کرنے سے نہ گھبرائیں : کہتے ہیں ’’جو ہوا کا رْخ دیکھتا رہتا ہے وہ بوتا نہیں اور جو بادلوں کو دیکھتا ہے وہ کاٹتا نہیں‘‘۔ اِس سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ اگر ہم ایک کام کو ٹالتے رہیں گے تو اِس سے نہ صرف ہمارا وقت ضائع ہوگا بلکہ وہ کام بھی اپنے انجام کو نہیں پہنچے گا۔ غور کریں کہ اگر ایک کسان موسم کے اچھا ہونے کا اِنتظار کرتا رہے گا تو وہ نہ تو بیج بو سکے گا اور نہ ہی فصل کاٹ سکے گا۔ لہٰذا حالات کے اعتبار سے تدبر کا استعمال کرتے ہوئے جو کام فوری کرنے والے اور اہم ہیں انہیں وقت پر ہی کرلیا جائے تاکہ چھوٹے چھوٹے کام آخر میں پہاڑ نہ ثابت ہوں۔
سوشل میڈیا کیلئے مخصوص وقت متعین کرنا : آج جہاں ہم سب سے زیادہ اپناوقت صرف کرتے ہیں تو وہ سوشل میڈیا ہے۔ اس نے ہمارے وقت کو ایسے قید کرلیا ہے کہ ہم گھنٹوں اس میں ضائع کردیتے ہیں اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔ لہٰذا سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کیلئے وقت مختص کریں کہ ٓپ کو صرف اتنا ہی وقت موبائل فون استعمال کرنا ہے۔
فرصت کے اوقات کا مؤثر استعمال : مصروفیت ایک نعمت ہے۔ جب انسان اپنے کاموں میں مصروف رہتا ہے تو وہ غیر ضروری کاموں سے دور رہتا ہے۔ لہٰذا فرصت کے اوقات کا بھی صحیح استعمال کیجئے۔