Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

کالی ناگن افسانہ

Mir Ajaz
Last updated: July 17, 2022 1:21 am
Mir Ajaz
Share
12 Min Read
SHARE

طارق شبنم

’’خدا کے لئے مجھے میرا بچہ لا کے دے دو ۔۔۔۔۔۔‘‘۔

نوری اپنے شوہر کا گریبان پکڑ کر روتے ہوئے پاگلوں کی طرح زور زور سے چلارہی تھی، جو بے بسی کے عالم میں نم آنکھوں سے اسے سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔نوری کے چلانے کی آوازیں سن کر اسپتال کے وارڑ میں لوگوں کا ہجوم جمع ہو گیا جب کہ پورے اسپتال میں نو زائیدبچہ چوری ہونے کی خبر کے ساتھ ہی سنسنی پھیل گئی اور لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے ۔دو دن قبل ہی نوری نے تین بیٹیوں کے بعد ایک پھول سے بیٹے کو جنم دیا تھا ،اس کے جیسے بخت جاگ اٹھے تھے اور وہ دونوں میاں بیوی اور ان کے قریبی رشتہ دار خوشی سے پھولے نہیں سمائے تھے لیکن یاس و حسرت جیسے پھن پھیلائے ہوئے تھے اور آج یہ دلخراش واقع پیش آیااوران کے سارے سپنے خاک آلودہ ہو گئے ۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا اسے پہلے بھی شہر کے مختلف زچگی کے اسپتالوں سے کئی نو زائید بچے چوری ہو چکے تھے لیکن کو ششوں کے با وجود پولیس اس گھتی کو سلجھانے میں نا کام نظر آرہی تھی ۔

’’ہمت رکھو نوری بہن ۔۔۔۔۔ اللہ سب ٹھیک کردے گا ،ویسے یہ سب ہوا کیسے ۔۔۔۔۔؟‘‘

دفعتاً مس لولی،روزی اور ان کی دیگر کچھ رشتہ دار خواتین وارڑ میں داخل ہو کر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے نوری ،جس کا دل غم کے بوجھ تلے پسا جا رہا تھا ،کو دلاسہ دینے لگیں جب کہ نوری کا شوہر واقعہ کے بارے میںانہیں تفصیل سے بتانے لگا ۔کچھ دیر بعد ہی پولیس بھی آئی اور نوری اور اس کے شوہر کا بیان قلمبند کر نے لگی ،نوری کا کہنا تھا کہ ۔۔۔۔۔

’’صبح میرا شوہردوائیاں خریدنے باہر گیا تھا ،میں اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی اس دوران دو نرسیں آئیں اور میرا اور بچے کا چک اَپ کرنے لگیں ،میرا بی۔ پی ۔ چک کرنے کے بعد انہوں نے مجھے ایک گولی کھلائی اور یہ کہہ کر بچے کو اپنے ساتھ لے گئیں کہ اسے بڑے ڈاکٹر صاحب کو دکھانا ہے ۔گولی کھانے کے ساتھ ہی مجھ پر غنودگی سی طاری ہو گئی ۔کچھ وقت بعد میرا شوہر واپس آیا اور بچے کے بارے میں پوچھا، میں نے غنودگی کی ہی حالت میں اسے بتایا کہ نرسیں اسے بڑے ڈاکٹر صاحب کے پاس چک اپ کرنے کے لئے لے گئی ہیں ۔۔۔۔ــــ۔۔۔‘‘۔

’’کب ،کس ڈاکٹر کے پاس ۔۔۔۔۔؟‘‘

اس نے پوچھا۔

’’ ابھی ،تھوڑی دیر پہلے‘‘ ۔

میں نے کہا ۔

نوری کے شوہر کا کہنا تھا کہ جب دس منٹ سے زیادہ وقت تک بھی نرسیں بچے کو لے کر واپس نہیں آئیں تو میں سخت پریشان ہو گیا تب تک نوری بھی ہوش میں آگئی ۔

’’ تم جاکر ڈاکٹر کے کمرے میں دیکھوکہ انہوں نے بچے کو واپس کیوں نہیں لایا۔۔۔۔۔۔؟‘‘

’’نوری نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا اور میں عجلت میں ڈاکٹر کے کمرے میں گیا ۔وہاں پتہ چلا کہ ڈاکٹر ابھی آیا ہی نہیں ہے جب کہ ڈیوٹی پر موجود نرس نے واقعے سے لا تعلقی کا اظہار کیا ۔میں نے پورے اسپتال کی نرسوں اور دیگر عملے سے بچے کے بارے میں دریافت کیا لیکن کہیں سے بھی کوئی سراغ نہیں ملااور نوری اور میں پر کٹے پنچھیوں کی طرح پھڑ پھڑانے لگے ۔کچھ دیر بعد ہی میں نے اپنے کچھ رشتہ داروں کو خبر کی جنہوں نے آپ کو مطلع کیا ۔۔۔۔۔۔‘‘۔

کہتے ہوئے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں جب کہ نوری بھی زار و قطار روتے ہوئے لجاجت سے ہاتھ باندھ کر انسپکٹر کی منتیں کرنے لگی ۔ پولیس نے ان سے وہاں موجود ان کے رشتہ داروں اور پچھلے دنوں ان سے ملنے آنے والوں کی تفصیلات بھی نوٹ کردیں جب کہ وارڈ میں موجود دوسری زچہ عورتوں اور ان کے تیمار داروں سے بھی سرسری پوچھ تاچھ کی ۔

’’آپ اوپر والے پر بھروسہ رکھیں ،ہم آپ کے بچے کو ڈھونڈنے کی پوری کوشش کریں گے لیکن آپ کو بھی ہمارے ساتھ تعاون کر نا ہو گا‘‘ ۔

رپورٹ مکمل کرنے کے بعد انسپکٹر نے انہیں کہا اور وہاں سے نکل گیا ،نوری کا شوہر بھی اپنا ریزہ ریزہ وجودلئے اس کے پیچھے پیچھے نکلا ،انسپکٹر نے باہر اکیلے میں اسے کچھ سوالات کئے اور اپنی نفری کو ہدایات دے کر گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا ۔پولیس نے ہر زاویئے سے واقعے کی باریک بینی سے تحقیقات شروع کی ۔شام کو تحقیقاتی ٹیم نے انسپکٹر کے سامنے چونکا دینے والے انکشافات کئے جس کے بعد انسپکٹر نے نوری کے شوہر کو بلا یا اور اُس سے کچھ ملنے والوں کے فون نمبر لئے ۔پولیس نے نوری کی تیمار داری کے لئے آنے والے کچھ لوگوں، جن میں خواتین بھی شامل تھیں، کی خفیہ نگرانی شروع کردی اور ان کے فون کالز کا جائیزہ لیا ،شک کی سوئی ایک خاتون پر ہی جا کر رکی ،جس پر پولیس نے کڑی نظر رکھنی شروع کردی ۔

’’ آپ مطمئن رہیں ،ہم چور کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں اور عنقریب ہی ہم اسے گرفتار کریں گے ‘‘۔

دوسرے دن دوپہر کو پولیس پھر اسپتال پہنچ گئی انسپکٹر نے سپاٹ لہجے میں نوری اور اس کے شوہر کو خوشخبری سناتے ہوئے کہا ۔

’’سچ کہتے ہو تھانیدار صاحب ۔۔۔۔۔۔ میرا بچہ مجھے ڈھونڈ کے دے دو اللہ آپ کو بہت ترقی دے گا ۔۔۔۔۔۔‘‘۔

انسپکٹر کو دعائیں دیتے ہوئے نوری کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ شبنم کے موتی گر کر اس کے پلو میں جذب ہونے لگے ۔

’’ بائی دی وے ،یہ خواتین کون ہیں ؟‘‘

ا نسپکٹر نے وہاں موجود خواتین ،جو نوری کی خبر گیری کے لئے آئی تھیں، کے چہروں کے جغرافیہ کا جائیزہ لیتے ہو ئے سوال کیا۔

’’تھانیدار صاحب ۔۔۔۔۔۔ یہ میری بہن مغلی ،یہ بہن سے بڑھ کر میری سہیلی لولی اور یہ میری نند روزی۔۔۔۔۔۔‘‘۔

نوری ،جس کی آنکھوں میں درد کا بحر بیکراں سا پنہاں تھا ،نے ان سب کے بارے میں انسپکٹر کو جانکاری دی ،جس کے بعد پولیس وہاں سے چلی گئی جب کہ کچھ دیر میں وہ خواتین بھی نوری سے رخصت لے کر اپنے اپنے گھروں کو چلی گئیںاور نوری ،جسے بچہ واپس ملنے کی مدھم سی امید کی کرن جھلملاتی ہوئی نظر آئی، من ہی من میں اوپر والے سے اپنے بچے کی سلامتی کی دعا کرنے لگی ۔

شام کو انسپکٹر کے فون کی گھٹی بجی تو دوسری طرف اس کے ایک ماتحت کی آواز تھی ۔

’’سر ۔۔۔۔۔۔ وہ بچے کو لے کر نکل گئے اور ایک گاڑی میں پرانے شہر کی طرف سفر کر رہے ہیں‘‘ ۔

’’ان پر خفیہ طریقے سے نظر رکھو، ساتھ میں اس عورت کے گھر کی نگرانی بھی رکھنا ،میں بھی وہیں آتا ہوں‘‘ ۔

’’او کے سر ۔۔۔۔۔۔‘‘۔

کچھ دیر بعد وہ گاڑی ایک ویران علاقے میں پہنچی اور اس میں سوار دو خواتین اور ایک مرد ایک نو زائیدہ بچے کو لے کر ایک پرانے مکان میں داخل ہو گئے اور سول کپڑوں میں پولیس اہلکار اس مکان کی نگرانی پر لگ گئے اور انسپکٹر کے وہاں پہنچتے ہی مکان پر چھاپہ ڈال کر ان تینوں کو بچہ سمیت گرفتار کر لیا، جنہوں نے پوچھ تاچھ کے دوران انکشاف کیا کہ وہ ایک گینگ کے لئے کام کر رہے ہیں اور رانی نامی خاتون اس گینگ کی سرغنہ ہے ،جس کے کہنے پر ہی ہم نے اسی کے بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق اس بچے کو اسپتال سے چرایا۔ان ہی کی نشاندہی پر پولیس نے رانی کے گھر ،جس کی پولیس پہلے ہی نگرانی کر رہی تھی ،پر چھاپہ ڈال کر رانی کو گرفتار کر لیا ،ساتھ ہی بچے کے والد کو تھانے بلایا گیا تاکہ قانونی لوازمات پورے کرنے کے بعد بچہ اس کے سپرد کر دیا جائے ۔پوچھ تاچھ کے دوران رانی نے کئی بچوں کو چرا کر بیچنے کا جرم قبول کر لیا ۔

’’یہ لیجئے آپ کا بچہ ۔۔۔۔۔۔‘‘۔

ایک خاتون اہلکار نے بچے کو اس کی گود میں ڈالتے ہوئے کہا ۔ نوری کے شوہر نے جب اپنے بچے کو سلامت پایا تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔اُس نے بے اختیار بچے کو چوما اور نم آنکھوں سے انسپکٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے پولیس کو بے شمار دعائیں دینے کے بعد اجازت چاہی ۔

’’یہ نہیں جاننا چاہوگے کہ بچے کو کس نے چرایا تھا۔۔۔۔۔۔؟‘‘

انسپکٹر نے معنی خیز انداز میں اُس سے پوچھا ۔

’’ہاں صاحب میں اسے دیکھنا بھی چاہوں گا‘‘ ۔

’’حوالدار ۔۔۔۔۔‘‘۔

’’جی صاحب ۔۔۔۔۔۔ اسے اس آستین کی ناگن چورنی کے درشن کرائو‘‘ ۔

انسپکٹر نے حوالدار کو حکم صادر فرمایا ۔

’’لولی صاحبہ ۔۔۔۔ آپ یہاں ۔۔۔۔۔۔؟‘‘

لولی،جسے وہ بڑے احترام کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھاکیوں کی اس نے ان کی کچھ مالی مدد کی تھی ، کو حوالات میں دیکھ کر وہ حیرت کے سمندر میں ڈوب گیا جب کہ لولی نے اسے دیکھ کر آنکھیں جھکائیں۔

’’صاحب ۔۔۔۔۔ یہ لولی صاحبہ ۔۔۔۔۔‘‘۔

’’ہاں یہی لولی عرف رانی ،کالے دل کی کالی ناگن ،جو ایک کرائے کے مکان میں رہتی ہے اور خود کو ایک سوشل ورکر جتلاتی ہے،زچگی کے اسپتالوں میں جاکر، مختلف بہانوں سے بھولی بھالی حاملہ خواتین سے دوستی اور ہمدردی کرکے،اپنی چرب زبانی کی چکناہٹ سے ا ن کے دل جیت لیتی ہے اور آخر پر اسی ہمدردی کے پردے میں اپنی گینگ کے ذریعے ان کے نوزائیدہ بچے چر اکر ان کے پیٹ میں چھرا گھونپ دیتی ہے ۔

انسپکٹر نے لولی پر ایک نفرت آمیز نظر ڈالتے ہوئے کڑک لہجے میں کہا ‘‘۔

انسپکٹر کے الفاظ نوری کے شوہر کے کانوں میں پگھلتا ہوا سیسہ بن کر اتر گئے۔

���

اجس بانڈی پورہ(193502) کشمیر

ای میل؛[email protected]

موبائل نمبر؛9906526432

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
ایران نے اسرائیل پر اب تک 700 ڈرون حملے کئے
بین الاقوامی
ملک میں کورونا کے ایکٹو معاملے سات ہزار سے کم ہوئے
برصغیر
ملک کی یکجہتی اور سالمیت کا سوال ہو تو بے بنیاد بات نہیں کرنی چاہیے: سنہا
تازہ ترین
ایران اسرائیل کشیدگی: بھارتی طلباء کے انخلاء کا عمل شروع ارمیہ میڈیکل یونیورسٹی کے 110 طلباء بحفاظت آرمینیا کی سرحد عبور کر گئے: جے کے ایس اے
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

قربانی کہانی

June 14, 2025
ادب نامافسانے

آخری تمنا افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

قربانی کے بعد افسانہ

June 14, 2025
ادب نامافسانے

افواہوں کا سناٹا افسانہ

June 14, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?