Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

کالا چُوہا

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: May 27, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
11 Min Read
SHARE
  حصارِوقت کے چکرویومیں پھنس کر زخمی روح کا سفر اب اُس جھیل کے کنارے پر آن پہنچا تھاجس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہاں پر بے  چین روح کو تسکین ملتی ہے ۔برفیلی پہاڑیوں سے آرہی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں فضا کو خوشگوار بنا رہی تھیں۔جھیل کے نیلگوںپانی پر نظرپڑتے ہی طبیعت پربھی خوشگوار احساس چھا گیااورشیریںپانی کے ٹھنڈے گھونٹ حلق سے اترتے ہی گرم بھٹی برف خانہ بن گئی۔ ۔شیریں پانی سے پریشان وجود میں راحت کی مٹھاس پھیلتے ہی وہ پاؤں پسار کر سبزے پر دراز ہوا۔سوچ کے پروں کو چوہے نے کترنا چھوڑ دیا۔یہ چوہا لمبے عرصے سے ان پروں کو کترتا آیا تھا۔ مدت سے وہ بے خوابی کا شکار ہوچکا تھاکیونکہ آنکھیں بند کرتے ہی چوہا سکون کے بل میں گُھس کر سوچ کے پروں کو کترنا شروع کردیتا تھا۔ پروں کی کتر بیونت سے دماغ تو پریشانی کا جنگل بن گیا تھا۔ اس پریشانی کے جنگل سے تنگ آکر وہ اکثر سوچتا رہتا کہ نہ جانے یہ چوہا اس کے احساس پر کیسے مسلط ہوا۔اس نے تو کتر کتر کر اُس کی سوچ کو ویران کھنڈر بنا دیا ۔ شیریں پانی کی مٹھاس سے راحت پانے کے ساتھ ساتھ خوشیوں کی شہنائی بج اٹھی۔
  ’’کتنے ٹرک آئے ہیں؟‘‘
’’سر‘پانچ سو ٹرک چاول کے اور ایک سو آٹے کے۔‘‘
  کلرک کی بات سنتے ہی اُس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’انچارج افسر سے کہو کہ وہ راشن ڈپوئوں کی لسٹ بناکر چاول روانہ کرے اور ایک حصہ چوہوںکے کھاتے میں ڈالے۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر۔‘‘کہتے ہوئے کلرک انچارچ افسر کے چیمبر کی طرف چلا گیا۔ڈائریکٹر صاحب کا حکم سنتے ہی انچارج افسر ہنستے ہوئے بول پڑا کہ ہاں بھئی لسٹ تو بنانا ہی پڑے گا آخر ہم سرکاری خدمت گار جو ٹھہرے ‘پر اس بات کا کیا کریں ‘ہمارے گھروں میں بھی تو چوہے پڑے ہیں۔ان کے کھانے پینے کا بھی تو انتظام کرنا پڑتا ہے۔
’’جی جناب۔‘‘کلرک نے فائل میز پر رکھتے ہوئے کہا۔’’افسر لوگوں کا حساب کتاب بھی افسرانہ طرز کا ہوتا ہے۔ لیکن ہم جیسے چھوٹے لوگوں کے پیٹ میں بھی تو چوہے دوڑتے رہتے ہیں‘ان کی دوڑ دھوپ کا بھی خیال رکھئے گا۔‘‘
’’ارے بھئی ‘ سرکاری راشن آتا ہی ہے پیٹ بھرنے کے لئے۔چلو اب لسٹ بنانے کی تیاری کریں۔‘‘
’’آپ ہمیشہ میری بات کو ٹالتے رہتے ہو۔‘‘بیوی گاڑی سے نئی کالونی کی طرف دیکھتے ہوئے بول پڑی۔
’’آج تک تو صرف آپ کے حکم پر ہی چلتاآیا ہوں اب ٹالنے والی کون سی بات بیچ میں آدھمکی؟‘‘
’’ہمارے سارے رشتہ دار شہر کی اس نئی کالونی میں شفٹ ہوگئے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ کون سی بات؟‘‘
’’وہ مجھے بھی معلوم ہے‘میری وزیر خزانہ۔‘‘
’’توپھر آپ کچھ کیوں نہیں کرتے ۔۔۔۔؟اپنے سب لوگ پوچھتے رہتے ہیں کہ ڈائریکٹر صاحب کب کالونی میں بنگلہ خریدینگے؟‘‘
’’جی ‘ پہلے تو پیسوں کاکچھ انتظام ہونے دو۔کالونی میں تو بنگلہ پچاس لاکھ سے کم نہیں ملتا ہے۔حال ہی میں تو منّے کی ڈاکٹری سیٹ کے لئے تیس لاکھ ڈونیشن دینے پڑے‘اب پیسہ کمانا چھو منتر والاکام تو نہیں ہے ۔‘‘
’’اچھا اچھا ٹھیک ہے‘اب گاڑی کو پارک کرو ادھر مارکیٹ میں تازہ سبزی خریدنی ہے۔‘‘ 
  گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ زندگی بھی خوشحال ہوتی چلی گئی ۔اب کالونی میں عالی شان گھر بھی تھا اورصحن میںکئی شاندار گاڑیاںبھی موجود تھیں۔ اس کی خوشحالی کا جب بھی کہیں پرذکر ہوتا تو وہ سن کر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کہتا رہتا کہ سب مالک کا کرم ہے ۔سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہونے کے ساتھ ہی وہ سوچتا رہتا کہ اب تو زندگی کی ہر آسائش موجود ہے‘ اس لئے عمر کا باقی حصہ بڑے سکون سے گزرے گا۔دن میںکھبی وہ صوفے پربیٹھ کر ٹی۔وی دیکھتا رہتا اور کھبی گارڈن میںجاکر اخبار اور کتابیں پڑھتا رہتا۔لیکن دن ختم ہوتے ہی سکون بھرے وجودپربے قراری کی کیفیت طاری ہوجاتی۔رفتہ رفتہ نہ تو ٹی ۔وی دیکھنے کا شوق باقی رہا اور نہ ہی کوئی کتاب پڑھنے میں لطف باقی رہا۔وہ جب نیند کے لئے بستر پر لیٹ جاتا تو نیند آتے ہی پریشانی کے جنگل میںچوہے کی دوڑ شروع ہوجاتی اور ساری رات کروٹیں بدل بدل کر بیقراری کے عالم میں کٹ جاتی۔جب کافی عر صے تک یہی حالت رہی تو اس کے مزاج میں چَڑ چِڑا پن آنے لگا۔ وقت بے وقت کی یہ چَڑچِڑاہٹ سبھی گھر والوں کو پریشان کرہی تھی۔ایک دن جب اس نے دبے لفظوں میں اپنی بے خوابی کے بارے میںڈاکٹر بیٹے کو بتا دیا تو اس نے سوتے وقت گولیاں کھانے کا مشورہ دے دیا۔ گولیاں تو وہ کھانے لگا لیکن ان کا الٹا اثر یہ ہوا کہ اب وہ دن کا چین بھی کھو بیٹھااور پریشانی کا بُت بن کے دن بھر گارڈن میں گم سُم بیٹھارہتا ۔گھر والے بھی اس کی بد مزاجی کو بڑھتی عمر کا تقاضا سمجھ کر نظر اندز کرنے میں ہی عافیت سمجھتے رہتے۔
   ایک رات وہ اچانک بستر سے اٹھ کر بُک شلف کو کھنگالنے لگا۔وہ بڑی بے قراری سے کسی کتاب کو ڈھونڈرہا تھا۔کافی دیر تک کتابوں کو اُلٹ پُلٹ کرکے جب اُس کی نظر طلسماتی جھیل پر پڑی تو اُ س کا چہرہ خوشی سے کھِل اُٹھا۔ اس کتاب میں طلسماتی جھیل کی وہ داستان موجودتھی جواُس نے بچپن میںاپنے بزرگوں سے سنی تھی ۔وہ دیر تک داستان پڑھتا رہا ۔داستانی ماحول کے طلسم کا اسیر ہوکر وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔ اُس نے خواب میں خود کو جھیل کے کنارے پر پایا۔وہاں پر بہت سارے لوگ موجود تھے۔ وہ لوگوں کے چہروں کو بڑے غور سے دیکھتا رہا۔اُسے کچھ چہرے جانے پہچانے سے نظر آئے۔لوگوں کے قدم جھیل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ایک آدمی نے جب جھیل میں دو تین ڈبکیاں ماریں تو وہ کنارے پر بیٹھ کر بڑی بے تابی سے پانی میں اُس آدمی کا عکس دیکھنے لگا۔پانی میںخوبصورت عکس دیکھ کر وہ اُ س پہچان والے چہرے کو دوبارہ تکنے لگا۔ وہ چہرہ پُر سکون لگ رہا تھا۔وہ سوچنے لگا کہ خوب صورت عکس خیر کی نشانی ہے۔اس کے بعد بہت سارے لوگ جھیل میں نہاتے رہے لیکن کوئی بھی اپنے پانی والے عکس سے مطمئن نظر نہیں آرہا تھا۔پانی کے اندر کہیں پر سانپ ہی سانپ رینگ رہے تھے تو کہیں پر گدھے بلیاں دوڑرہے تھے ۔ایک اور جان پہچان والے نے جب پانی میں ڈبکی ماری تو وہ اُس کا عکس دیکھ کرلرز اٹھا۔پانی کے اوپر انسان کھڑا تھا لیکن پانی کے اندر کتے کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔اپنے عکس کو پانی میں دیکھ کر اُس آدمی کے چہرے پر وحشت سی چھا گئی ۔اُس آدمی کے چہرے کو دوبارہ دیکھتے ہی اُسے یاد آیا کہ یہ آدمی عمر بھر دوسروں کےحقوق پرڈاکہ ڈالتا رہتا تھا۔ لوگوں کی نظروں میں بھی اُس کی سماجی حیثیت لالچی کتّے سے کچھ زیادہ نہ تھی۔خواب کے بھیانک مناظر سے اُس کی نیند اُچٹ گئی اور صبح ہونے کے انتظار میں وہ بستر پرکروٹیں بدلتا رہا۔
جھیل کے شیریں پانی کی مٹھاس جب ختم ہوگئی تو چوہے کی کتر کترکی آواز سے وہ سبزے سے اُٹھ بیٹھا۔ عبادت گاہ سے مالک کائینات کی تعریفیں بلند ہورہی تھیں۔وہ عبادت گاہ میں داخل ہوگیا۔ہر طرف مسحور کُن صدائیں گونج رہی تھیں۔آنکھوں سے نَدامت کے آبشار برس رہے تھے۔ہر کوئی اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہا تھا۔اس مسحور کن منظر سے اُسکا دل پسیج گیا۔آنکھوں سے نَدامت کے آنسو ٹپکنے لگے۔ چوہے کی کتر کتر بند ہوگئی۔محراب پر ایک بزرگ کی خوش کُن آواز گونج اٹھی:
’ ’مالک کائینات غفور ورحیم اور ربُ الکریم ہے۔وہی کائینات کا اصلی بادشاہ ہے۔وہی گناہوں کا معاف کرنے والا ہے۔یہ جھیل کرموں کی جھیل ہے ۔اس میں چھوٹے چھوٹے گناہ دُھل جاتے  ہیں اور بڑے بڑے گناہوں کا عکس پانی میں دکھائی دیتا ہے ۔اس لئے انسان کو اپنے اصلی مالک کی ہدایت پر چل کر اپنے کرموں کا خیال پہلے سے ہی رکھنا چاہئے ۔آپ لوگ جھیل میں ڈبکیاں مارکر تھوڑی دیر کے لئے آنکھیں بند کر دینا۔پھر آنکھ کھولتے ہی جس کا جو عکس پانی میں دکھائی دیگا وہی اُس کے کرموں کا پھل ہوگا۔‘‘
     لوگ عبادت گاہ سے نکل کر جھیل کی طرف بڑھنے لگے۔ہر آنکھ ندامت کے آنسو ؤں سے تر تھی ۔ وہ بھی آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے
 ہوئے جھیل میں اُتر گیا۔لوگ ڈبکیاں مارتے چلے گئے اور جھیل کے اند ر مختلف عکس ابھر تے رہے۔جھیل کا ماحول بھیانک منظر پیش کررہا تھا۔اس بھیانک منظر سے اُس کی روح کانپ اُٹھی ۔ خوف کی وجہ سے وہ ڈبکی مارنے سے ڈر رہا تھا۔کافی دیر تک پانی میں کھڑا ہوکر وہ پریشانی کے عالم میں سوچتارہا کہ کیا معلوم اُس کے کرموں کا عکس کیاآئیگا ۔پھر یہ سوچ کر اُس نے پانی کے اندر ڈبکیاں ماریں کہ شایداُسے اندر کے روحانی کرب سے نجات مل سکے۔ڈبکیاں مار کر جونہی اُس کی نظر پانی میں اپنے عکس پر پڑی تو اُس کے منہ سے وحشت ناک چیخ نکل پڑی۔۔۔ ’’کالاچوہا‘‘۔
   وڈی پورہ ہندوارہ کشمیر193221
email :[email protected]
  cell 7006544358

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

وزیر صحت سکینہ اِیتو کا بدھل اور سرنکوٹ اسمبلی حلقوں میں شعبہ صحت کے منظرنامے کا جائزہ ماہر ڈاکٹروں کی کمی پر سخت اظہارِ تشویش
جموں
’’کلین جموں گرین جموں مہم‘‘ ہائی کورٹ نے جانی پور کمپلیکس میں شجرکاری مہم کا انعقاد کیا
جموں
ادھم پور میں بس الٹنے سے سات مسافر زخمی
جموں
صوبائی کمشنر جموں کاسالانہ بسوہلی میلہ کی تیاریوں کا جائزہ خطے کی بھرپور ثقافت، روایات اور آرٹ و دستکاری نمائش میں کمیونٹی کی شرکت پر زور
جموں

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?