میرے مرحوم والد صاحب عیسائی مشنری ہسپتال کے ڈاکٹر واسپرؔجو واسپرؔصاحب کے کے نام سے وادی بھر میں مشہورتھے ۔۔۔۔ کا ذکر خیر اکثر کیا کرتے تھے ۔میں کمسن الہڑ تھا ،شروع شروع میں اُن کی باتوں کوایک کان سے سنتا اور دوسرے کان سے نکال دیا کرتا تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب سوچ اور فہم کی خلیج وسیع ہونے لگی تو ایک دن میں نے اُن سے پوچھ ہی لیا کہ آخر ڈاکٹر صاحب کی ہیٹ میں ایسا کون سا سرخاب کا پر لگا تھا جو سارے کشمیر ی بزرگ اُن کے لئے رطب اللسان ہیں ۔والد صاحب نے ڈاکٹر صاحب کے بے شمار وصف گنا کر آخر میں کہا : ’’ڈاکٹر واسپرؔ نے ڈاکٹری کے معزز پیشے کے ساتھ اپنے آپ کووقف کیاہوا تھا ۔اُن میں لگن تھی ،کام کرنے کا جذبہ تھا اور اُن میں انسانی ہمدردی سے بھرا ایک درد بھرا دل تھا ۔اُن میں وہی جذبہ کارفرما تھا جو انسانی رشتوں کی باہمی راہیں استوار کرتے ہیں ۔یہاں کے لوگ خاص طور سے مسلمان بے حد غریب ،نادار اور مفلوک الحال تھے جب کہ دیہات میں زیادہ ہی ابتر حالت تھی ۔جب ایک شخص کو کھانے کے لئے روٹی ،تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا اور پیروں میں جوتا میسر نہیں ہوتا تھا تو وہ علاج و معالجہ اور و ہ بھی انگریزی یا ایلوپیتھک علاج کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔جاڑے کی یخ بستہ ہوائوں ،برف بارش اورٹھنڈ کے مقابلے میں تن پر ایک معمولی پھٹا پرانا پھرن اور برف زاروں میں چلنے پھرنے کے لئے سوکھے گھاس کے بنے ادنیٰ سینڈل یا چپل جسے کشمیری زبان میں’ پُلہ ہور‘کہتے ہیں ،پہننے والا ایک دیہاتی ہسپتال میں آنے کی کیا سوچتا ؟ہسپتال میں بھرتی ہونے کا کیسے تصور کرتا اور گھاس کے چپل سے پانی اورکیچڑ بکھرنے والا ،اپنا دایاں بایاں لت پت کرنے والا ،اپنے خون رَستے پیروں ،پھٹی دراڑوں والی اُنگلیوں اور ایڑیوں کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوکر اُجلے اُجلے صاف و شفاف والے بستر کے بیڈ پر لیٹ جانے کو ایک فینسی (Fancy)یا خواب ِراحت ہی سمجھ سکتا تھا مگر ڈاکٹر صاحب ایسے ہی جُوؤں سے جھوجتے ناداروں کے مسیحا تھے ۔اُن کوایک انسان کے ساتھ اتنی نزدیکی اور ہمدردی تھی کہ وہ مرض کی صحیح صحیح جانچ اور تشخیص کی خاطر مریضوں کے سٹول کو اپنی زبان سے چکھ کر ٹیسٹ کیا کرتے تھے۔کیاایسی باتیں تم نے کبھی سنی ہیں اور یقیناً آئندہ بھی نہیں سنو گے کیونکہ ڈاکٹر پیدا ہوتے ہیں ،ڈاکٹر پیدا ہوتے رہیں گے مگر ڈاکٹر واسپرؔ نہ کبھی پیدا ہوسکتے ہیں اور نہ کبھی پیدا ہوں گے۔‘‘
یہ باتیں افسانوی لگتی ہیں مگربزرگوں کو جھٹلایا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ سیدھے سادھے خدا ترس لوگ تھے ،اُن میں عیاری اور تگڑم والی باتیں نہیں ہوا کرتی تھیں ۔ویسے بھی ان حقائق کے اظہار میں اُن کی کوئی اپنی غرض بھی پوشیدہ نہیں تھی ۔مجھے والد صاحب کی باتوں کی تصدیق بعد میں اپنے نانا جی سے بھی ہوئی تھی۔
بہر حال یہی باتیں میں اپنے ایک دوست کو سمجھا رہا تھا کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا ۔ غریب مریض جتنی بھی دوا کھائے ،کتنا بھی علاج کروائے وہ ٹھیک نہیں ہوسکتا ،جب تک وہ ہسپتال والے ڈاکٹروں کے پرائیویٹ کلینکوں میں نہ جائے۔وہ ہسپتال میں کتنے بھی جوتے گھسائے ،کوئی نتیجہ برآمدنہیں ہوگا۔بات اصل میں یہ ہے کہ ڈاکٹروں اور ٹیکنشنوں کا دھیان اپنے ذاتی مطبوں کی طرف ہوتا ہے ،وہ مریض کی طرف کیا خاک دھیان دیں گے ؟؟؟یہی وجہ ہے کہ مریض کا علاج صحیح ڈھنگ سے نہیں ہوجاتا اور اسی بدحواسی میں ٹیسٹ بھی ایک دوسرے کا مل جاتا ہے ۔ایک بار ایک مرد کو گربھ والا دکھایا گیا تھا ۔سب نے ٹیسٹ کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کردیکھا بالآخرٹیسٹ اپنے لیبارٹری انچارج کے پاس واپس آپہنچا مگر اس نے معذرت یاشرمندگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ بڑی ڈھٹائی سے ’’رش میں کچھ بھی ہوسکتاہے‘‘کہہ کر بات کو ٹال دیا۔ہماری بلکہ ’گربھ وَتا‘کی ذہنی کوفت زائل ہوجاتی اگر وہ صرف ایک ’سوری‘ کہہ دیتا مگر وہ تو بڑا ڈھیٹ نکلا ،ٹس سے مس نہ ہوا ۔یہ تو وہی بات ہوئی نا ۔۔۔۔ع
زمین جنبد نہ جنبدگل محمد
وہ زمانے لد گئے جب ڈاکٹر لوگ اپنے منصب اور اپنے فرض کا مطلب سمجھتے تھے اور اس مقدس پیشے کوعبادت تصور کرتے تھے ۔آج کل مطلب تو پیسے کے ساتھ،غرض ہے تو فیس کے ساتھ ،باقی کسی کی جان بچے یا چلی جائے اُن کی بلا سے ۔۔۔سب سے بڑاداغ جو اس پیشے کو لگاہے ،وہ ہے غلط نااہل ذہنی اور سماجی اعتبار سے گئے گزرے لوگوں کی اس مقدس پیشے میں انٹری Unable and ineligible persons with regard to thier faimly background .
میں نے اپنے دوست کوسمجھایا کہ وہ پرائیویٹ طور سے علاج کروائے اور ڈاکٹر صاحب کی چنیدہ لیبارٹری سے ٹیسٹ کروائے ،پھر دیکھے کہ گاندھیؔ کیا مَت ڈھاتا ہے ۔وہ حیرانگی سے پوچھنے لگا ،کونسا گاندھی؟ جواب میں ،میں نے کہا وہی گاندھی جو کبھی پنجم،ہفتم اور دہم ہوتا تھا ،آج کل دو صد ہوگیا ہے یعنی کبھی دس بیس روپے سے کام چل جاتا تھا اب دو سو روپے سے بات شروع ہوجاتی ہے ،کیونکہ شملہ بقدر علم کے مصداق ڈاکٹروں کی فیس دو سو روپیہ باپت دس دن ،سے لے کر تین سو اورپانچ سو مقرر ہے ۔ہاں ،اگر آپ ٹکٹ کیپر کی مٹھی گرم کریں گے تود س پندرہ دن میں نمبر ملنے کی توقع ہے بصور ت دیگر آپ کو دوتین مہینہ دیدار ڈاکٹر کے لئے صرف اورصرف دن گننے پڑیں گے ۔چچا غالبؔکومعذرت کے ساتھ صورت حال کچھ یوں بن جاتی ہے ؎
کاوِ کاوِ سخت جانی ہائے پریشانی نہ پوچھ
ڈاکٹر سے ڈیٹ پانا لانا ہے جوئے شیر کا
نمبر یا باری ایک گھنٹے میں مل سکتی ہے مگر ایسے ڈاکٹروں کے پاس جنہوں نے سرے سے ہی کوئی ڈاکٹری تعلیم نہیں پائی ہوتی ہے مگر وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر ظاہر کرکے کلینک بھی کرتے ہیں۔ایسے ڈاکٹر باہر سے دوچار ہزار میں سرٹیفکیٹ خرید کر لاتے ہیں ۔بہر حال میں عرض کررہا تھا کہ ٹکٹ کیپر کی مٹھی گرمانے کی پاداش میں کبھی کبھی صورت حال بے حد افسردہ بھی ہوجاتی ہے جب ٹکٹ کیپر نام بلاتا ہے تو مریض قبرسے لبیک تونہیں کہہ پاتا ،البتہ اس کی قبر پرکھلے سوسن کے پھول ہوا کے جھونکوں سے مناہی کے انداز میں سر ہلاتے رہتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں ۔۔۔ع
آج پرانی راہوں سے کوئی ہمیں آواز نہ دے
…………………….
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر -190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995