Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
افسانے

کاغذی قتل

Kashmir Uzma News Desk
Last updated: February 25, 2018 1:00 am
Kashmir Uzma News Desk
Share
13 Min Read
SHARE
’’تُمہاری بیوی بہت بیمار ہے اس کا ایک گردہ نِکالنا پڑے گا ۔اسکو کسی بڑے ہسپتال میں داخل کرو اور آپریشن کرالو ورنہ یہ مر جائے گی۔‘‘
 ڈاکٹر نے نور محمد سے اپنی راے ٔ کا اظہار کیا۔
 نور محمدبڑا پریشان ہوا ۔ کرے تو کیا کرے ۔اُسکے پاس ایک دھیلا بھی نہ تھا۔ مگر اپنی بیوی سے اُسے اس قدر محبت تھی کہ اُسے بچانے کے لئے وہ کُچھ بھی کرسکتا تھا۔
نور محمد ایک غریب کِسان تھا جسکے پاس کُچھ موروثی زمین تھی، جسے وہ کاشت کرکے اپنا ، اپنی بیوی  فاطمہ اور اپنے بیٹے  عامرکا پیٹ پالتا تھا ۔ گھر میں بھیڑ بکریاں بھی تھیں، جنہیں پالنے کے لئے ایک نوکر انوررکھاہوا تھا جسکو وہ اپنا بڑا بیٹا مانتا تھا ۔ انور گھر کی بھی دیکھ بھال کرتا تھا۔
  سب کُچھ ٹھیک چل رہا تھامگراب اچانک یہ پریشانی سامنے آئی۔
 نور محمد نے انور کے ساتھ صلح مشورہ کیا اور طے پایا کہ مقامی ساہو کار سُلطان رگوڑا کے پاس اپنی پشتنی زمین کو گروی رکھ کر کُچھ پیسے اُدھار لئے جائیں تاکہ فاطمہ کا علاج ہو سکے۔
ایسا ہی کیا گیا ۔دو کنال زمین گروی رکھ کے پیسے لئے گئے۔
پیسے مِل گے ٔ تو فاطمہ کوایک پرایٔویٹ ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں اُسکا علاج شروع ہوا۔ علاج طویل ہوتا گیا اور خرچہ بڑھنے لگا۔ اس طرح پھر پیسوں کی کمی ہو گئی ۔ لیکن نور محمد نے ہمت نہ ہاری اور ساہو کار سے مذید پیسے لے لئے۔ ساہو کار بڑا تحرُبہ کار تھا۔ اُس نے پہلے باقی ماندہ ایک کنال زمین کا  بھی گروی نامہ لکھوایا اور تب جاکر مزید پیسے دینے پر رضا مند ہوا۔ اسطرح سے تین کنال زمین ساہو کار کی جھولی میں چلی گئی۔
علاج چلتا رہا اور فاطمہ رو بہ صحت ہو گئی۔ سب خوش تھے خاص کر علاقے کا سرپنچ امین بڑا ہی خوش تھا۔ وہ نور محمد کا پڑوسی بھی تھا اور ہمدرد دوست بھی۔
نور محمد نے شکرانے کے طور پر ایک چائے کی دعوت کا اہتِمام کیا اور تمام محلہ والوں کو چاے ٔ پلائی۔ سب لوگ جمع ہوئے اور چائے پی کر سبھوں نے اجتِماعی دُعا کی۔
شام کو سب گھر والے جمع ہوے ٔ ، سرپنچ بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہو رہی تھیںکہ نور محمدنے بات چھیڑ دِی  ۔
’’ اب جبکہ خُدا کے فضل و کرم سے سب کچھ ٹھیک ہوا ہے۔سلطان رگوڈا کا قرضہ لوٹانے کی فکر کرنی ہے تاکہ گروی رکھی ہوئی زمین ہاتھ میں آجائے ورنہ کھانے کے لالے پڑ جا ئیں گے۔‘‘ 
’’ہاں!یہ کام پہلی فرصت میں ہونا چاہئے‘‘  امین نے حامی بھرلی۔ انور بھی اس سے متفق تھا۔ ’’کُچھ تو کرنا ہی پڑے گا ‘‘
وہ بول اُٹھا۔
’’چاچا سلطان ہم جلد ہی پیسے تیارکرکے آپ کو لوٹائینگے آپ ہماری زمین واپس کر دینا ۔‘‘ انورنے ایک دن سلطان سے کہہ دیا۔
’’ہاں ہاں تُم تیاری کرومجھے کیا اعترض ہو سکتا ہے  ۔تُمہاری زمین ہے جب چاہو واپس لے لو‘‘ سلطان بڑی عاجزی سے بول اُٹھا۔مگر اندرسے ساہو کار زمین ہڑپنے کے لئے طرح طرح کے منصوبے سوچ رہا تھا، جس طرح اُس نے اب تک بہتوں کی زمینیں مُختلف طریقوں سے ہڑپ لی تھیں ۔
نور محمد نے جی جان سے محنت کرکے پیسے تیار کر لئے ۔سرپنچ کو لیکر کُچھ اور معتبر لوگوں کے ساتھ قرض ادا کرنے سلطان کے پاس گیا۔
’’ ہاں ہاں آپ لوگوں نے اچھا کیا ۔نور محمد کی پشتنی زمین ہے، میرے پاس تو امانت ہے۔ آپ جب چاہئیں لے سکتے ہیں مگر ابھی میں نے اس میں سرسوں کے بیج بوئے ہیں۔ فصل کاٹوں گا تو زمین تُمہارے حوالے کردوں گا‘‘
سلطان رگوڑا بڑی حلیمی سے بولا ۔
سرپنچ اور باقی لوگ رگوڑا کی باتوں کا یقین کرکے واپس چلے آئے مگر اُنکو ساہوکار کی چاپلوسی کا کُچھ پتا نہیں تھا ۔
وقت گُذرتے دیر نہیں لگتی۔ سرسوں کاٹی گئی اور حسب وعدہ سرپنچ اور نور محمد کُچھ معتبر لوگوں کے ساتھ پیسے لے کر پھر ساہو کار کے پاس چلے گئی۔
’’آپ کس زمین کی بات کر رہے ہیں ؟ کون سی زمین ِ ؟کیسی  گِروی زمین ،کیسے پیسے؟  ہاں ہاں یاد آیا! تین کنال زمین میں نے نور محمد سے کُچھ سال پہلے خرید کر لی تھی اور اُسکا انتِقال بھی میرے نام ہو چکا ہے تو آپ لوگ کس زمین کی بات کر رہے ہیں ؟ ساہو کار نے سب کو حیران کردِیا۔ سرپنچ اور دوسرے لوگ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے ۔ اُنکی زبانوں سے کُچھ نہیں نِکل رہا تھا۔  سب اچنبھے میں پڑ گئے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ یہ کیسے ہوگا؟سب اپنا سا منہ لیکر واپس ہو چلے۔نور محمد کے سر پر آسمان پھٹ پڑا  اوروہ بے ہوش ہو گیا۔ اُسکا سب کُچھ لُٹ چکا تھا۔
 سرپنچ اور نور محمد وکیل کے پاس پہنچ گے ٔ ۔مشورہ دیا گیا کہ تحصیلدار کو درخواست دِی جائے تاکہ پتا چلے کہ کیا ہوا ہے ۔ نور محمد کو بتایا گیا کہ نائب تحصیلدار ، پٹواری اور گرداور نے ایک موٹی رقم لے کر زمین کو ناجائز طور پر ساہو کار کے نام کردیا ہے، جیسا کہ نایٔب تحصیلدار نے ساہو کار سے مِل کربہتوں کے ساتھ کیا تھا ۔اب صرف حاکِم اعلیٰ ہی اس کارروائی کو رَد کرسکتے ہیں ۔ 
گاؤں والے حیران تھے اور اس عجیب سے معاملے پر گھر گھر تبصرہ ہورہا تھا۔’’پہلے تو ایسا نہ ہوتا تھا اب بے ایمانی ہر طرف  عام ہے اور خاص کر ساہو کار تو سب کی زمینیں ۔۔۔ چھین رہا ہے۔ آگے کون کس پر بھروسہ کر سکے گا ؟‘‘ سرپنچ اپنی راے ٔ کا اظہار کر رہا  تھا۔
 سرپنچ نے نور محمد کو حوصلہ دِیا اور وکیل کے پاس لے گیا۔ وکیل نے مشورہ دِیا کہ افسران بالا  کے پا س ایک رِٹ دایٔر کرکے دادرسی ہو سکتی ہے۔ انور نے اپنی بات معہ ثبوت کے وکیل کے ذریعہ ایڈیشنل ڈی سی کے پاس رکھ دِی مگر بھلا ہو رشوت خوری کا وہاں کئی برس تک کاغذات میزوں کی سیر کرتے رہے  اور پھر یکا یک فایٔل غایٔب ہو گئ۔ اسکا نام و نشان ہی نہ رہا۔محکمہ میں ایک ایسا قابِل فسر آیا تھا جو فائلیںغائب کرنے میں ماہر تھا۔
کسی نے نور محمد کو بتایا کہ کیس کا تُمہارے خلاف فیصلہ ہوا لہٰذا تُم کو مزید اپیل کرنا پڑے گی۔ وہ نقل لینے کے ل لئے دفتر پہنچا۔
’’ کیسی فایٔل ،کیسی اپیل، کون سی نقل، کس کی نقل؟‘‘
نور محمد کو بتلایا گیا کہ یہاں کوئی اپیل نہیں کی گئی ہے۔
نور محمد پھر پریشان ہوا۔ اب وہ بوڑھا ہو چلا تھا۔ سانس کی تکلیف نے اُسکا جسم کمزور کر دیا تھا ۔ مگر وکیل بھی اپنا ’’فرض‘‘ فیس کی صورت میں نبھا رہا تھا۔ ۔وکیل نے اُسے درخواست لِکھ کے دِی ۔وہ ایک بار پھر ہمت کرکے ویجی لینس دفتر میں چلا گیا  ۔ ان پڑھ تھا۔اُسے کیا پتاویجی لینس کس بلا کا نام ہے ۔ مگر کسی نہ کسی طریقے سے وہ اس کے دفتر پہنچ گیا۔
ویجی لینس افسروں نے اے۔ سی ۔آر(ریونیو) کو تحقیقاتی افسر مقرر کیا جس نے لِکھا کہ انتقال غلط ہوا ہے لِہذااِسکو کالعدم کرکے زمین  مالک کو واپس کی جاے ٔ اور ویجی لینس کمشنر کے دباو ٔ اور پوچھنے پر فایٔل بھی برآمد ہوگئ۔ لیکن کاغذات پھر مُڑ کے وہیں آگئے جہاں سے چلے تھے۔یعنی اُسی دفتر میں جہاں سے فایٔل غایٔب ہو گئ تھی۔اور حسب معمول فایٔل پر لکھ دیا گیا۔ Investigate and take appropraite action under rules.
(تحقیقات کرکے از روئے قانون کارروائی کی جائے)
Rule۔۔ مگررول کا تو کہیں نام و نشان نہ تھا۔
 ڈی ۔سی  کے کلرک نے نور محمد سے کاغذات لئے اور ایک اطمِینان کا سانس لیتے ہوے ٔ فرمایا’’ یہ کاغذ تو میرے پاس ہی آنے تھے۔ جاتے کہاں؟ ۔ویجی لینس کیا کرتی ہے۔ چاہے تُم کہیں بھی جاؤ جو کرنا ہے ہم نے ہی کرنا ہے۔لاؤ خرچہ ‘‘نور محمد نے سو روپے کا نوٹ نکال کر کلرک کے ہاتھ میں دیدیا۔ ’’تُم فکر مت کرو کیس کا فیصلہ تُمہارے حق میں ہی ہوگا۔‘‘ چاپلوسی کی ایک مکروہ مسکراہٹ کلرک کے ہونٹوں پر نمودار ہوئی۔
نور محمد اب ٹوٹ چکا تھا۔ کئی بار اُسکا جی چاہا کہ زندگی ختُم کرے مگر اُسکا وکیل اُسے ہمت دیتا رہا۔ افسر بدلتے رہے ہر بار وہی رام کہانی دہرانی جانے لگی۔ سمن پھر سے جاری ہونے لگے ،پٹواری پھر سے دسویںبار ریکارڈ  لے کے بُلاے ٔ جانے لگے۔ ۱۹۷۱ کے بندوبست کی کاشت پھرِ سے دیکھی جانے لگی  ۔جو بد قسمتی سے نور محمد کے نام تھی اور برابر ۱۹۹۲ تک جاری تھی۔
 اور ایک دِن نور محمدکو پھر سے بُلایا گیا۔ نور محمد ہمت کرکے  افسر کے پاس پھر پیش ہوا۔’’  تُمہارا وکیل کہاں ہے ؟ ‘‘افسر نے پوچھا
’’جناب اب  میں وکیل کی فیس نہیں دے سکتا ۔ کیس لڑتے لڑتے میں خود وکیل بن گیا ہوں۔ میں دس سالوں سے بٹھک رہا ہوں اب تو میرے اوپر رحم کرو اُن افسروں نے میرے ساتھ ظُلُم کیا ہوا ہے میرا کیس بالکُل صاف ہے  ۔رشوت خوروں نے میری زمین ہڑپ کی ہے۔آپ تو انصاف کریں‘‘
افسر نے ایک زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دِیا ’’ تُم کیا چاہتے ہو میں اُن افسروں کو پھانسی چڑھادوں جو میرے اپنے محکمہ کے ہیں ہمارے محکمہ میں ایسا کرنا جُرم نہیں ہے بس ایک چھوٹی سی غلطی ہے  جسکو نظر انداز کیا جاتا ہے تُم چلے جاو میں کاغذات تحصیلدار کو بھیجتا ہوں وہ مزید کاروائی کرے گا تُم وہاں جاکر پتہ کرنا‘‘
یہ وہی دفتر تھا جہاںسے یہ معاملہ دس سال قبل شروع ہوا  تھا۔آدمی بدلے تھے مگر قانون وہی ۔کرسی وہی۔۔ رویہ وہی۔۔ کلرک  وہی ۔۔جو اب بڑے افسر بن چکے تھے۔
یہ سُنتے ہی نور محمد بے ہوش ہوگیا۔جب تک اسکو ہوش میں لایا جاتا تب تک اُسکی روح اُسے چھوڑ کر چلی گئ تھی ۔۔۔۔فایٔل ڈھونڈنے زمین کی………!!!!
اب ’’ عامر ‘‘ہر ہفتہ تحصیلدار کے دفتر کے چکر لگاتا رہتا ہے کہ کہیں اُسکے والد نور محمد کی فایٔل تحصیل میں مت آگئی ہو  ؟ اور کلرک اُسے بڑے پیار سے کہتا ہے بیٹا تمہارا والِد میرا بڑا  جانکار تھا تُم  کَل آنا۔۔۔ میں دیکھ لوں گا ۔۔۔عامر پھولے نہیں سماتا ۔۔یہ کلرک بہت اچھا آدمی ہے  ۔وہ اپنے آپ کو تسلی دیتا ہے۔ ۔
معرفت پیر پنچال ادبی فورم بانہال 
موبائل نمبر؛7298289632
 
Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
Leave a Comment

Leave a Reply Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

جموں میں جعلی سیفائر ریکیٹ کا پردہ فاش: حیدرآباد متاثرہ کو 62 لاکھ روپے واپس: پولیس
تازہ ترین
انڈیگو پرواز کا پرندے سے ٹکراؤ، انجن میں خرابی کے باعث پٹنہ میں ہنگامی لینڈنگ
تازہ ترین
سری نگر میں این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت لاکھوں روپیے مالیت کی غیر منقولہ جائیداد ضبط:پولیس
تازہ ترین
ہسپتالوں میں طبی عملے کی کمی سنگین مسئلہ، راتوں رات حل نہیں ہو سکتا : سکینہ ایتو
تازہ ترین

Related

ادب نامافسانے

ابرار کی آنکھیں کھل گئیں افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

جب نَفَس تھم جائے افسانہ

June 28, 2025
ادب نامافسانے

یہ تیرا گھر یہ میرا گھر کہانی

June 28, 2025

ایک کہانی بلا عنوان افسانہ

June 28, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?