گل محمد نے دین داری اور دنیاداری کو آج سے چالیس برس پہلے اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ جب ان کی ماں حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے پورے خاندان کو روتا بلکتا چھوڑ گئی تھیں۔گل محمد کی عمر تب اٹھارہ برس کی تھی اور وہ بارہویں جماعت کا امتحان پاس کرچکے تھے۔وہ خدا داد صلاحیتوں کے مالک تھے۔انتہائی ذہین؛خوش مزاج وخوش اخلاق؛تین بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ان کی کوئی بہن نہیں تھی۔ان کے والد صاحب میونسپل کمیٹی کے چیرمین تھے۔ماں جیسی عظیم نعمت کہ جس کے دل میں اپنی اولاد کے لیے صرف اور صرف محبت رہتی ہے۔آج زمین وآسمان کی حد بندیوں سے کہیں دور آگے نکل گئی تھی۔ ہمیشہ کے لیے اپنی اولاد کے دلوں میں چھوڑ گئی تھی دائمی جدائی کا غم۔ گل محمد نے اپنی آنکھوں گھرسے اپنی ماں کا جنازہ لوگوں کے ہجوم کی صورت میں نکلتے دیکھا تھا۔قبرستان پہنچ کر نمازجنازہ پڑھنے کے بعد جب انھوں نے اپنی ماں کی کھودی ہوئی قبر دیکھی تھی تو ان کا وجود لرزگیا تھا اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے تھے۔غم واندوہ کے طوفان میں وہ یہ بات سوچتے رہ گئے تھے کہ وہ ماں جوکل تک گھر میں نرم قیمتی بستر پہ سویا کرتی تھیں،آج اس قبر میں تنہا بغیر بستر کے کیسے سوئیں گی اور اس قبر میں تنہا تا قیامت کیسے رہیں گی۔کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں جارہا ہے۔پھر دو آدمی قبرمیں اترے تھے، جوں ہی ماں کی لاش کو چندآدمی کلمئہ شہادت پڑھتے ہوئے اپنے ہاتھوں میں اٹھاکر قبر میں رکھنے لگے تھے تو گل محمد غم سے نڈھال چیخ مارتے ہوئے کہنے لگے تھے
"اماں—-واپس آئیے—-میں آپ کے بغیر نہیں جی پاوں گا"
ان کی دلدوذ چیخ سن کے چند آدمیوں نے ان کی ڈھارس بندھائی تھی۔ان کے والد محترم، ان کے دو چھوٹے بھائی اور کچھ رقیق القلب آدمی بھی روپڑے تھے۔دیکھتے دیکھتے ان کی ماں منوں مٹی کے نیچے دفنادی گئی تھیں۔شہر خموشاں میں کچھ لوگ اپنے مرحومین کی قبروں پہ سورہ فاتحہ پڑھنے لگے تھے اور پھر کچھ ہی وقت کے بعد اپنے؛پرائے سب اپنے اپنے گھروں کی طرف نکل گئے۔
گل محمد کی داخلی دنیا میں ماں کی ہمیشہ کی جدائی کے غم نے بھونچال ساپیدا کردیا تھا۔تب انھیں اس بات کا شدید احساس ہوا تھا کہ زندگی بہت قیمتی مگر غیر یقینی سفر ہے۔ کیا معلوم کب روح جسم کا ساتھ چھوڑ دے۔دوست یار سب مطلب کے یار ہوتے ہیں۔آدمی اس دنیا میں تنہاآتا ہے اور یہاں سے تنہا جاتا ہے۔سب آخری وقت میں ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
گل محمد نے اپنی ماں کی موت کے بعد یہ مصصم ارادہ کرلیا تھا کہ وہ اپنی زندگی کا ایک بھی لمحہ منشائے الہیٰ کے بغیر نہیں گزاریں گے۔انھوں نے پہلے تو کمپیوٹر سائنسز میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور اسکے بعد اسلامک اسٹڈیز میں ایم اے کیا۔پھر ایک پرائویٹ کمپنی میں ملازم بھرتی ہوئے۔فرخندہ نام کی ایک پوسٹ گریجویٹ لڑکی کے ساتھ ان کا نکاح ہوا۔بیوی کے آنے سے گھر میں رونق سی آگئی تھی۔گل محمد صوم وصلوٰتہ کے پابند،تلاوت کلام پاک کے بغیر انھیں چین نہیں آتا تھا۔تہجد پڑھنے کے عادی تھے۔زندگی آمد برائے بندگی کے قائل تھے۔ہر کسی کو دین اسلام کی دعوت دینا انھوں نے اپنا مشن بنا لیا تھا۔ہرسال چالیس دن کے لیے راہ خدا میں گھر سے نکل جاتے۔حکمت عملی سے کام لینے کے عادی تھے۔حج کرنے کی تمنا کئی برسوں سے ان کے دل میں مچل رہی تھی تو اللہ نے وہ بھی پوری کردی۔حج کی سعادت نصیب ہونے کے بعد جب گل محمد اپنے گھر پر پنہچے تو چوتھے دن ان کی بیوی نے انھیں ایک تشویشناک بات سنائی۔وہ بولی "سننے میں آیا ہمارے محلے کے آخری موڑ سے آگے تکونی چوک پر مسروقہ بیگم نام کی ایک عورت دو ماہ سے کرائے کے مکان میں قحبہ خانہ چلارہی ہے۔میں نے جب سے سنا ہے، میں پریشان ہوگئی ہوں"
گل محمد اپنی بیوی کی باتیں سن کرچونک اٹھے۔ان کے چہرے پہ مایوسی کے آثار نمودار ہوئے، وہ زور سے چلائے، کہنے لگے
"اری یہ کیا سنارہی ہو تم…….کیا یہ سچ ہے؟"
"ہاں یہ بالکل سچ ہے۔آپ منصور سے بھی پوچھ سکتے ہیں"
گل محمد نے اپنے خادم منصور کو اپنے پاس بلایا؛اس سے پوچھا تو اس نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔گل محمد نے کہا
"اپنے گلی محلے میں غلاظت کے ڈھیر کو صاف کرنے کے لیے آسمان سے فرشتے نہیں اتریں گے۔خود ہی آگے آنا پڑے گا"
گل محمدکی بیوی نے کہا "ہمارے محلے کے مرد اور عورتیں اگر چاہیں تو وہ اس عورت کا قحبہ خانہ بندکرواسکتے ہیں؛مگرکوئی بھی اپنی جان جوکھم میں ڈالنا نہیں چاہتا"
گل محمد نے کہا "کسی بھی محلے میں جب ایک جگہ آگ لگتی ہے تو اگر اس پہ فوری طور پر قابو نہ پایا جائے تو وہ آگ پورے محلے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے"
گل محمد رات کو سوئے تو نیند نہ آنے کی وجہ سے آدھی رات تک کروٹیں بدلتے رہے،پھر وہ اٹھے اور تہجد پڑھی۔خدا سے گڑگڑ اکے دعا مانگنے لگے
"یا الٰہی…اے میرے مولا…اس عورت کو ہدایت دیجیے۔اس کا کاروبار بندکروائیے۔ہمارے محلے کو اس سے محفوظ رکھیے"
دوسرے دن صبح جب گل محمد اٹھے توانھوں نے اپنے خادم منصور کو آواز دی۔وہ فورا"ان کے سامنے حاضر ہوا؛اُس سے کہنے لگے
"آج دن کو تقریبا"بارہ بجے تم میرے ساتھ چلو گے ؛ایک ضروری کام کے سلسلے میں بازار جانا ہے"
"جی ٹھیک ہے" منصور نے حامی بھری۔
دن کے دس بجے کے قریب گل محمد نے صلوٰتہ الحاجت پڑھی۔اللہ سے مدد مانگی اور پورے بارہ بجے چپکے سے اپنے خادم منصور کو اپنے ہمراہ لے کر تکونی چوک کی طرف چل پڑے۔کچھ ہی لمحوں کے بعد جب وہ تکونی چوک میں پہنچے تو ان کی نظر اچانک تین منزلہ عمارت پر پڑی۔دوسری منزل کے جھروکوں سے چند حسین وجمیل؛سجی سنوری لڑکیاں نہ جانے کس کس کو اپنی جانب بلا رہی تھیں۔ان لڑکیوں کے درمیان میں مخصوص چال ڈھال کی ایک عورت بالکونی میں کرسی پہ بیٹھی راہگیروں کو دیکھ رہی تھی۔نوجوان لڑکے اور ادھیڑ عمر کے مرد اس رنگین ماحول کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔گل محمد سمجھ گئے کہ یہی مسروقہ بیگم کا کوٹھا ہے۔اتنے میں مسروقہ بیگم نے انھیں دیکھ لیا تو وہ مسکراتی ہوئی ہاتھ کے اشارے سے انھیں اپنی طرف بلانے لگی۔گل محمد کے ماتھے پہ پسینہ آگیا۔پھر انھوں نے ہمت جٹاتے ہوئے اللہ کانام لیا اور پہلی منزل کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔منصور بھی ان کے پیچھے ہولیا۔جونہی وہ دوسری منزل پہ پہنچے تو مسروقہ بیگم قہقہ زار انداز میں کہنے لگی
"آیئے بڑے میاں جی آیئے؛ادھر آیئے"
گل محمد بولے
"ہم نہیں بیٹھیں گے؛ بس آپ سے یہ معلوم کرنے آئے ہیں کہ مسروقہ بیگم آپ ہی ہیں؟"
"جی ہاں میں ہی مسروقہ بیگم ہوں۔کہیئے؛آپ کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟"
وہ کسی حدتک تشویش میں پڑگئی۔تمام لڑکیاں مختلف پوز میں اسکے سامنے آکر کھڑی ہوگئیں۔کمرے میں لوبان کی خوشبو مہک رہی تھی اور دیواروں پہ فلمی ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی نیم عریاں تصویریں چسپاں تھیں۔ایک طرف سنگھار دان پہ کاجل بکھرگیا تھا۔گل محمد نے کہا
"مسروقہ بیگم….میں تمہیں اپنی بہن سمجھتا ہوں اور تم بھی مجھے اپنا بھائی سمجھو۔میں تمہیں جو کچھ کہوں گا ؛تمہارے فائدے کے لیے کہوں گا۔پہلے مجھے یہ بتاو کہ میں جو کچھ کہوں گا کیا تم میری بات مانو گی؟"
مسروقہ بیگم حیرت واستعجاب سے لمحہ بھر کے لیے دنگ رہ گئی؛ پھر کہنے لگی
"کہیئے مولانا صاحب؛ کیا فرمانا چاہتے ہیں آپ؟"
"سنو میری بہن…تم برائی کی دلدل میں پھنس چکی ہو۔تن اور من کو خوش رکھنے کا یہ کاروبار اچھا نہیں ہے۔تم یہ تو جانتی ہو کہ لباس کتنا ہی قیمتی اور خوبصورت کیوں نہ ہو؛ وقت اسے میلا کردیتا ہے۔ختم کردیتا ہے۔تمہارا یہ روپ سروپ؛یہ حسن؛یہ جوانی اور یہ نازوادا کا رنگیں زمانہ بخدا بیت جائے گا اور اگر کچھ رہے گا تو بس اللہ اور اللہ کے رسول کانام باقی رہے گا۔ہر شخص کو ایک دن دنیا سے جانا ہے۔لہذا توبہ کرو؛ ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔واپس راہ راست پہ آجاو۔تمہیں اللہ کا واسطہ"
مسروقہ بیگم بولی
"مولانا صاحب؛ دنیا کی کوئی بھی عورت اس نجاست کے تالاب میں نہانا نہیں چاہتی ہے۔میں اگر اس مقام پہ پہنچی ہوں؛ تو مرد ذات نے پہنچایا ہے۔لیکن آپ مجھے پہلے مرد دکھائی دے رہے ہیں جو فرشتہ صفت جیسے ہیں؛ ورنہ یہاں تو طرح طرح کے مرد طرح طرح کے ارمانوں کی پوٹلی لے کر آتے ہیں"
مسروقہ بیگم کی باتیں سن کر گل محمد کا دل بھر آیا؛گلا رندھ گیا اور آنکھوں میں آنسو امڈآئے۔انھوں نے جیب سے رومال نکالا اور آنسو پونچھنے لگے۔انھیں روتا دیکھ مسروقہ بیگم بھی مایوس ہوگئی۔گل محمد نے قطار میں کھڑی ان حسین وجمیل لڑکیوں کی طرف دیکھا اور پھر مسروقہ بیگم سے پوچھنے لگے
"یہ کہاں کی لڑکیاں ہیں اور کیا کرتی ہیں؟"
"مولانا صاحب؛ یہ مختلف شہروں سے اس بڑے شہر میں آئی ہیں۔ان میں کوئی ٹرینگ کررہی ہے اور کوئی پڑھائی کررہی ہے۔ میرے یہاں مخصوص وقت میں آتی ہیں اور پھر واپس چلی جاتی ہیں"
گل محمد نے مزید جانکاری چاہی۔پوچھنے لگے
"یہ تمام لڑکیاں ایک ہی طبقے سے تعلق رکھتی ہیں یا الگ الگ طبقوں کی ہیں؟"
مسروقہ بیگم کے ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکان ابھری اور پھر ہاتھ کے اشارے سے ہر ایک لڑکی کو متعارف کرانے لگی وہ بولی
"مولانا صاحب؛ یہ لڑکیاں مختلف فرقوں سے تعلق رکھتی ہیں۔وہ لمبی لڑکی جس نے لال رنگ کی ساڑی پہنی ہے؛اس کانام سنیتا ہے۔اسکے ساتھ والی جس نے یہ گوٹے دارلہنگا پہنا ہے؛اس کا نام فوزیہ تبسم ہے۔اس سے آگے والی جس نے زین کی پینٹ پہنی ہے اس کانام شاردا کور ہے اور اسکے ساتھ والی جس نے جامنی رنگ کاسوٹ پہنا ہے؛ اس کا نام ماریہ ہے"مسروقہ بیگم نے باقی تین لڑکیوں کے نام بھی بتادیئے۔
گل محمد نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگے
"میری بہن؛میرا دل دکھی ہورہا ہے اور آنکھیں رونے لگی ہیں۔ خدا کے لیے واپس آو۔ایک نئی زندگی کا آغاز کرو۔چھوڑدو یہ مہاپاپی دھندہ۔ان لڑکیوں کو اپنے اپنے مقام پہ واپس بھیج دو۔زندگی کو اللہ کی عبادت میں گزاردو۔یہ زندگی تمہیں اک بار ملی ہے محض اللہ کی بندگی کے لیے؛ اس برے کام کے لیے نہیں۔ اس لیے زندگی کو غنیمت جانو؛ کیا معلوم کہاں زندگی کی شام ہوجائے"
مسروقہ بیگم نے کہا
"ٹھیک ہے مولانا صاحب؛مجھے آپ کی باتوں سے پورا اتفاق ہے؛لیکن میرا آپ سے ایک سوال ہے۔ وہ یہ کہ یہ لڑکیاں تو اپنے اپنے ٹھکانوں پہ چلی جائیں گی؛ لیکن میری روزی روٹی کا کیا ہوگا۔میں کہاں جاوں گی؟"
گل محمد نے کہا
"سنو میری بہن؛جس اللہ نے تمہیں پیدا کیا ہے ؛اس نے تمہاری روزی روٹی کابھی بندوبست کیا ہے۔بس تم نیک نیتی سے زندگی گزارنے کاعزم کرو۔ دوسری بات یہ کہ میں نے تمہیں اپنی بہن سمجھا ہے لہذا میری مددکی تمہیں جہاں کہیں بھی ضرورت پڑے میں حاضر ہوجاوں گا۔میں چاہتا ہوں کہ تمہیں کپڑے سینے والی مشین خرید کے دوں تاکہ تم ایک باعزت اور خود کفیل زندگی جی سکو"
مسروقہ بیگم کو اللہ نے ہدایت دے دی۔وہ خوش ہوگئی اور کہنے لگی
"مولانا صاحب؛بس آج سے میں نے اپنی زندگی کا رخ بدل دیا۔میں توبہ کرتی ہوں کہ آج کے بعد میں کوئی بھی برا کام نہیں کروں گی اور یقین جانیے کہ کل سے آپ مجھے یہاں نہیں پائیں گے"
گل محمد کا چہرہ؛مسروقہ بیگم کی باتیں سن کر گل کی طرح کھل اٹھا۔انھوں نے چارہزارروپے اپنی جیب سے نکالے اور اپنے خادم منصور کو پکڑاتے ہوئے اسے کہنے لگے
"منصور تم جاو اور باہر مارکٹ سے کپڑے سینے والی مشین میری بہن کے لیے خرید لاو۔ہاں سنو؛ساتھ میں جاکر گھر سے وہ جائے نماذ اور تسبیح بھی لیتے آنا جو میں مدینہ پاک سے لایا ہوں"
منصور گیا اور ایک گھنٹے کے بعد تینوں چیزیں گل محمد کے سامنے پیش کردیں۔گل محمد نے تینوں چیزیں مسروقہ بیگم کو دیں اور کہنے لگے
"یہ لو میری بہن؛ میری طرف سے"
مسروقہ بیگم نے جائے نماذ کو اپنی آنکھوں سے لگایا اور تسبیح کا بوسہ لیا۔گل محمد اٹھے اور مسروقہ بیگم سے رخصت لے کر اپنے گھر چلے آئے۔دوسرے دن جب وہ تکونی چوک کی طرف گئے تو انھیں مسروقہ بیگم کے کوٹھے پہ نہ تو لڑکیاں نظر آئیں اور نہ ہی مسروقہ بیگم۔البتہ انھوں نے اسکے کمرے کے دروازے پہ پیتل کا ایک بڑا سا تالا لگا دیکھا۔وہ بہت خوش ہوئے اور دل ہی دل میں سوچنے لگے اللہ نے مجھ سے کار خیر کروایا ہے اور یہ بھی کہ ہمت کرے انساں تو کیا ہو نہیں سکتا۔
اسسٹنٹ پروفیسر ، بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی
موبائل نمبر؛9419336120