کارٹون کی دنیا کا اگرکسی کو بادشاہ کہا جا سکتا ہے تو بلا مبالغہ وہ نام آر کے لکشمن ہی کا ہوگا ، جنہوں نے پچاس سے زائد برس اس صنف پر نہ صرف حکومت کی بلکہ اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ان کی اسی بادشاہت کے اعتراف میں اُنہیں پدم بھوشن ، پدم وبھوشن اور میگاسے وغیرہ جیسے کئی اہم ایوارڈز سے نوازا گیا ۔ یہی نہیں بلکہ ان کے فن کی عظمت کے اعتراف میں ان کی زندگی ہی میں یعنی 2001 ء میں ہی سمیوس انسٹی ٹیوٹ ، پونے میں ان کے تخلیق کردہ کردار ’’کامن مین‘‘ یعنی عام آدمی کا قد آدم مجسمہ بھی ایستادہ کیا گیا ۔ قبل ا زیں ان کا انتقال 94 سال کی عمر میں 26؍ جنوری 2015 ء کو ہوا تھا۔
مشہور ومقبول کارٹونسٹ آر کے لکشمن نے اپنے تمام معاصرکارٹونسٹوں کے مقابلے میں اپنے افکار و خیالات کو اس خوبصورتی اور فن کارانہ انداز میں پیش کیا کہ وہ فن میں اپنا ایک منفرد مقام بنانے میں کامیاب رہے ۔ اس کامیابی سے انہیں شہرت ، دولت، مقبولیت اور عزت سب کچھ ملی ۔ انہوں نے کارٹون کے ذریعہ بڑے بڑے سیاست دان ، صنعت کار، افسران اور سماجی کارکنان پر طنز کے تیر برسائے ، اُن لوگوں کی خامیوں اور کوتاہیوںپر اُنگشت نمائی کی لیکن ان کے کارٹون سے کبھی کسی دل آزاری نہیں ہوئی، نہ کبھی ان ایسا مقصد رہا ۔ ان کی ان ہی خوبیوں کے مد نظر انہیں یہ صلہ ملا کہ 94؍ برس کی عمر میں پونے میں وہ پرلوک سدھارے تو ان کا انتم سنسکار سرکاری اعزاز کے ساتھ 27؍جنوری 2015 ء کوہوا ، اور مہاراشٹر حکومت کے وزیر اعلیٰ نے ان کی خدمات کے اعتراف میں یاد گار کے طور پر ان کا ایک قد آدم مجسمہ تعمیر کرنے کا اعلان بھی کیا۔ ایسا پہلی بار ہواہے کہ کسی کارٹونسٹ کو اتنا بڑا اعزاز، ملا، جس کے وہ واقعی حق دار تھے ۔
’’کامن مین‘ ‘یعنی عام آدمی کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کرانے والے آر کے لکشمن کا پورا نام راسی پورم کرشن سوامی تھا۔ جنہوں نے 24؍ اکتوبر 1921 ء کو کرناٹک کے شہر میسور میں آنکھیں کھولیں ۔ پڑھائی لکھائی میں ان کا دل نہیں لگتا تھا اور اکثر نت نئی شرارتوں کی وجہ سے گھر میں ان کی پٹائی ہوتی تھی لیکن پھر بھی ان کی شرارتوں میں کمی واقع نہیں ہوئی۔ وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ مجھے اسکول سے نفرت تھی اور میں اپنے کلاس میں پڑھائی میں اچھا نہیں تھا ۔ پھر بھی ایک دن میرے ایک ماسٹر نے میری پیٹھ تھپتھپائی اور کہا کہ تم نے اپنی سلیٹ پر پتے کا اسکیچ بہت اچھا بنایا ہے۔ اس دن اپنے استاد کی شاباشی انہیں بہت اچھی لگی اور یہی حوصلہ افزائی ان کے دل کو چھو گئی کہ میں کچھ اچھا کر سکتا ہوں ۔ بچپن میں وہ اپنے گھر میں لکڑی کے جلے ہوئے ٹکڑوں سے دیواروں پر آڑی ترچھی لکیریں کھینچا کرتے تھے۔ان کے اندر مشاہدہ کی قوت بہت تیز تھی ۔ وہ کہتے ہیں کہ’ ’عام طور پر لوگ ہر چیز کو اہمیت نہیں دیتے ہیں لیکن میں اپنے ارد گرد کی ہر شئے پر گہری نگاہ رکھتا تھا ، یہاں تک کہ میں کوے کی حرکات و سکنات کو بھی بڑے غور سے دیکھتا تھا۔ ‘‘ان کی اس عادت نے ان کے غور و فکر کرنے کی صلاحیتوں کو مہمیز کیا اورانہوں نے زندگی کے بہت سارے اسرار و رموز کو سمجھنے کی کوشش کی ۔ ان کے قوت ِمشاہدہ کی کار فرمائی نے ان کے اندر بے پناہ قوت اظہار بخش دیا جنہیں وہ ایک سلیقہ، حسن اور معیار کے ساتھ چند آڑی ترچھی لکیروں اور چند جملوں کے ساتھ اس خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتے کہ ان کی بات سیدھے دل میں اُتر جاتی اور یہی ان کی بڑی کامیابی تھی۔ ایک عام آدمی کے مافی ا لضمیرکوطنز و ظرافت کے ساتھ ارباب حل و عقد تک ترسیل کرا دینا ان کا بڑا کارنامہ تھا۔
آر کے لکشمن ابتدائی دنوں میںبین الاقوامی شہرت یافتہ کارٹونسٹ ڈیوڈلو سے متاثر نظر آئے ، لیکن دھیرے دھیرے انہوں نے اپنا راستہ خود بنایا ، جس پر وہ ہمیشہ گامزن رہے۔ بعد میں بال ٹھاکرے کے ساتھ مل کر ’’ دی فری پریس جرنل ‘‘ کے لئے کارٹون بنایا کرتے تھے ۔’ ’بلٹز ‘‘ اور ’’ سوراجیہ ‘ ‘میں بھی ان کے کارٹون ابتدائی دور میں شائع ہوا کرتے تھے لیکن1951میں انگریزی روزنامہ ’ ’ٹائمز آف انڈیا ‘ ‘ میں انہیں ملازمت مل گئی ، تو وہ ہمیشہ کے لئے اس کے ہو کر رہ گئے۔ان کے کارٹون کے لوگ اس قدر شائقین ہو گئے، کہ لوگ ہر روز ان کا نیاکارٹون دیکھنا اور پڑھنا چاہتے تھے۔ اس کے نتیجے میں اخبار کے پہلے صفحہ پر ان کا روزانہ، ’’ یو سیڈ اِٹ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہونے لگا اور ہمیشہ ان کا کارٹون پہلے صفحہ پر ہی چھپا۔ ان کا تخلیق کردہ ایک کردار چندلا بوڑھا آدمی جو ہمیشہ ڈھوتی کرتا میں ’’ کامن مین‘ ‘ کی نمائندگی کرتا ہوا نظر آتا ، یہ عام آدمی کا کردار کبھی نہیں بدلا ۔ یہ ’ ’کامن مین‘‘ ہمیشہ ایک جیسا رہااور عوام کے درمیان اس قدر مقبول ہوا کہ اس کا 2001ء میں پونے میں آٹھ فٹ کا مجسمہ بنا کر نصب کیا گیا تھا ۔
آر کے لکشمن نے اپنے کارٹونوں میں کبھی کسی کو نہیں بخشا۔ یہاں تک کہ پنڈت نہرو سے لے کر ڈاکٹر منموہن سنگھ تک ان کے نشانے پر رہے لیکن چونکہ پہلے کے سیا ست دانوں میں تعلیم ، قوت برداشت، انکساری ، رواداری اور دور اندیشی کے ساتھ ساتھ حس ِ مزاح اور ظرافت اک مزاج بھی تھا ، یہی وجہ تھی کہ آر کے لکشمن کے طنز و مزاح کے کا کبھی کسی نے بُرا نہیں مانا ، بلکہ زیر لب مسکرائے اور ممکن ہوا تو اپنے ایسے اعمال کی اصلاح بھی کی جن کی نشاندہی آر کے لکشمن کیا کرتے تھے ۔ ایسے چند کارٹون سے متعارف کراتا ہوں۔
’’سائنس کانگریس ‘‘ جس کا افتتاح ملک کے وزیر اعظم کے ذریعہ ہر سال کی پہلی جنوری کو کئے جانے کی روایت رہی ہے، ایک کارٹون میں ، ملک کی سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی پر کس طرح طنز کرتے ہیں ۔ یہ دیکھئے۔ ’’سائنس کانگریس ‘‘کے افتتاحی جلسہ میں سائنس داں بیٹھے ہوئے ہیں ، وزیر ا عظم گاندھی ٹوپی لگائے، ایک ہاتھ میں اپنی تقریر کی کاپی اور دوسرے ہاتھ میں بھونپو ہے، جس کو منہ سے لگائے ہوئے کہہ رہے ہیں’ ’ مجھے اس حقیقت پر فخر ہے کہ ہم نے سائنس اور ٹکنالوجی میں زبردست ترقی کی ہے‘ ‘
اندازہ لگایئے کہ اس ایک جملہ میں اس وقت ملک کی سائنسی ترقی پر کتنا شدید طنز ہے۔ اب دوسرا کارٹون دیکھئے۔
راجیو گاندھی جس زمانے میں وزیر اعظم تھے اور ایچ کے ایل بھگت، وزیر اطلات و نشریات تھے ۔ اس زمانے میں صرف دلّی دور درشن ہوا کرتا تھا ، جو چند گھنٹوں کے لئے ناظرین کے لئے پر وگرام پیش کرتا تھا ۔ ان چند گھنٹوں میں دور درشن پر زیادہ وقت راجیو گاندھی کو ہی دکھایا جاتا تھا ، اور ان کے گن گان پر زیادہ وقت صرف کیا جاتا تھا ۔ اسے دیکھ دیکھ کر عوام اکتاہٹ محسوس کر رہے تھے ۔ اس صورت حال کو آر کے لکشمن نے کس خوبصورتی سے نشانہ پر لیا ہے، دیکھئے :ایک دیوار پر راجیو گاندھی کی فوٹو ٹنگی ہے اور اس کے سامنے کرسی پر بیٹھے ایچ کے ایل بھگت کی نظریں راجیو گاندھی کی تصویر پر ٹکی ہوئی ہے۔ اس اسکیچ کے نیچے بس ایک جملہ ہے۔۔’ ’ ٹی وی خراب ہو گئی ہے، بننے گئی ہے ‘‘ ذرا سوچئے کس قدر طنز پوشیدہ تھا صرف اس ایک جملے میں ۔
وزراء پر جب طرح طرح کے کرپشن کے الزامات لگنے شروع ہوئے تھے ، اس زمانے کے ایک کارٹون میں دکھایا گیا کہ ایک وزیر طیارہ سے بیرون ملک جا رہے ہیں اور وہ اپنے سکریٹری کو تاکید کر رہے ہیں کہ ’’ ۔۔۔اور اگر میرے خلاف کسی طرح کا الزام عائد کیا جاتا ہے، تو میں جب تک سفرپر ہوں ، تم انھیں مسترد کرتے رہنا ‘‘۔
ایک اور دلچسپ کارٹون دکھا تا ہو ں ۔ ائیر پورٹ پر عام مسافروں کی سیکورٹی چیک اَپ میں بہت زیادہ تنگ کیا جانے لگا ، تو اس کے خلاف وہ کس طرح سے احتجاج کرتے ہیں ، یہ دیکھئے:
ائیر پورٹ پر ایک مسافر ٹرالی پر اپنے سامان کے ساتھ ٹرالی کے ہینڈل پر شرٹ، پینٹ، کوٹ اور ٹائی رکھے ہوئے،صرف انڈر ویئر اور بنیان پہنے سیکورٹی چیک اَپ کے لئے اندر جا رہا ہے، اور وہ بتا رہا ہے کہ ’’ میں اب سیکورٹی چیک اَپ کے بعد ہی سارے لباس پہنوں گا۔ ‘‘
آر کے لکشمن نے اپنے کارٹون کے ذریعہ عام آدمی کے مسائل کو جس انداز سے نشان زد کیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ فن کا ایسا اعلیٰ معیار اور ایسا ذہین فن کار شاید ہی دیکھنے کو ملے۔ آر کے لکشمن نے قومی اور بین الا قوامی سطح کے کرپشن ، استحصال، غلط روش اور حق تلفی و استحصال کو ہمیشہ ہدفِ تنقید بنایا۔ ان کے کارٹون کی اہمیت اس لحاظ سے بھی زیادہ تھی کہ انہوں نے ’’عام آدمی‘‘(کامن مین) کے توسط سے طنز کے خوب تیر برسائے لیکن یہ تیرکبھی بھی بغض، عناد، نفرت، عداوت، مذمت، عدم رواداری سے بجھانہیں ہوتابلکہ اعلیٰ اور معیاری طنز و ظرافت، بذلہ سنجی اور خوش طبعی کی کارفرمایاں ہوتی تھیں ۔ اظہار خیال کی آزادی کی انھوں نے فائدہ ضرور اٹھایا لیکن ناجائز فائدہ اٹھا نے کی کبھی کوشش نہیں کی ۔ جمہوری قدروں اور روواداری کی ہمیشہ پاسداری کی اور کبھی بھی کسی کے احساسات و جذبات کو مجروح کرنے کی عملی کوشش نہیں ۔ پھر بھی جب ملک میں ایمرجنسی نافذہوا ،تو تقریباََ بیس ماہ تک انہوں نے خاموشی اختیارکر لی تھی ۔ آر کے لکشمن کے کامن مین کی شہرت اور مقبولیت عوام کے ہر طبقہ میں یکساں تھی۔ پچاس سال تک انہوں نے ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ میں ملازمت کی اور ایک زمانے میں اس انگریزی روزنامہ کے ایڈیٹر سے زیادہ ان کی تنخواہ مقرر کی گئی تھی، جس کا کافی دنوں تک چرچہ رہا تھا ۔ ان کی فن کارانہ صلاحیتوں کے اعتراف میں انہیں کئی بڑے اعزاز سے نوازا گیا۔ ان کے کارٹونوں پر مبنی ایک ٹی وی سیرئیل ’’ مال گڈی ڈیز ‘ بھی کافی مقبول ہوا تھا ۔۔ ہندی فلم ’ 555‘ اور تمل فلم ’ کامراج ‘ میں بھی ان کے کارٹون ناظرین کے دلوں میں جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی تھی ۔
آر کے لکشمن نے ایک عام آدمی کے سماجی اور سیاسی پیغامات کی جس مؤثر انداز میں اپنے کارٹون کے ذریعہ ترسیل کرائی ہے، وہ سب کے سب اب تاریخ کا اہم حصہ بن چکے ہیں لیکن جب کبھی عام آدمی پر تشدد، ظلم و ستم ، استحصال، ناانصافی اور حق تلفی ہوگی آر کے لکشمن کا یہ عام سا لیکن معنی خیز جملہ
the power of common man" "Dont underestimatکی بازگشت ضرور سنائی دے گی ۔
ای میل؛[email protected]
موبائل نمبر؛09934839110