’’ہیلو!…ہیلو!آواز نہیں آرہی ہے ۔پتا نہیں نیٹ ورک کی پرابلم ہے یا میرے موبائل فون ہی میں کوئی گڑ بڑ ہے‘‘ سُخنور کمرے سے اُٹھ کر جھنجھلاتے ہوئے باہر لان میں آئے ۔بغیر نام کے کوئی اُن سے بار بار موبائل فون پر بات کرنے کی کوشش کررہا تھا مگر اُن کی سکرین پر نمبر تڑپتا ہوا غائب ہوجاتا اور وہ ہیلو ہیلو کرتے رہ جاتے ۔اُن کے ہاتھ سے موبائل سیٹ کئی بار نیچے گرجانے کی وجہ سے اُس کی سکرین مختلف جگہوں سے ٹوٹ چکی تھی۔اسی لیے وہ کسی کافون ریسیونہیں کرپاتے تھے۔اس صورت میں اُنھیں خود ہی اگلے کو فون کرنا پڑتا تھا ۔آج جب پھر کسی کا فون آیا تو وہ ہیلو ہیلو کرتے ہوئے ایک دو بار کمرے سے اُٹھ کر باہر چلے گئے لیکن اس کے باوجود وہ کال ریسیو نہیں کرپائے تو اُن کی بیوی مشرفہ بیگم کی پیشانی پر شکنیں سی اُبھر آئیں، پھر وہ بڑے تُرش لہجے میں کہنے لگی
’’نیا موبائل سیٹ خرید یں ،اسے کہیں پھینک دیں تاکہ روز روز کے دردِ سر سے آپ بچ سکیں ‘‘
’’تُم اگر چاہتی ہو تو نیا موبائل سیٹ خرید لیتا ہوں اور یہ سیٹ کسی کو مفت میں دے دوں گا‘‘
مشرفہ بیگم نے کسی حد تک تبسم آمیز لہجے میں کہا
’’ہاں تاکہ کسی اور کے لیے بھی آپ کا یہ موبائل سیٹ دردِ سر کا باعث بنے۔ جو چیز آپ کے کام کی نہیں رہی بھلا وہ کسی دوسرے کے کیا کام آئے گی‘‘
سُخنور اپنی بیوی کی باتیں سُن کر لاجواب ہوگئے ۔وہ دل ہی دل میں سوچنے لگے کہ شیشہ ہو یا دل ہو آخر ٹوٹ جاتا ہے ۔موبائل سیٹ ہاتھ کی چیز ہے جتنی مرضی کوئی احتیاط برتے ہاتھ کی چیز آخر کار ہاتھ سے گر جاتی ہے ۔تب اُنھیں وہ زمانہ یاد آیا جب موبائل فون نام کی کوئی بھی چیز ایجاد نہیں ہوئی تھی ۔اپنے، پرائے ،دوست واحباب ایک دوسرے کو خط لکھتے تھے ۔اُن کے خطوط میں اُن کے خلوص ووفا اور پیار ومحبت کی خوشبو رہتی تھی اور لوگ ڈاکیے کی آمد پر خوشی سے جھوم اُٹھتے تھے ۔زندگیوں میں سکون ہوا کرتا تھا اور آج کی طرح سازشوں کے کاروبار نہیں ہوا کرتے تھے ۔سُخنور اپنے ماضی کے اوراق پلٹ رہے تھے کہ اسی اثنا میں مشرفہ بیگم نے پوچھا
’’کن خوابوں اور خیالوں میں آپ کھوئے ہوئے ہیں ۔میں کہہ رہی ہوں کل ہی نیا موبائل سیٹ خرید لیں ۔آج کل تو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے ہاتھ میں آٹھ دس ہزار روپے کا موبائل سیٹ نظر آتا ہے اور آپ نے بس وہی پرانا ٹھِکّررکھا ہوا ہے ۔بد شکلا جیسا ۔اپنی حیثیت کے مطابق اچھا سا موبائل سیٹ خرید لیجیے ‘‘
’’خرید لوں گا، تُم تو میرے پیچھے ہی پڑ گئی ۔میں بھی یہ محسوس کررہا ہوں کہ مجھے نیا موبائل سیٹ خریدنا چاہیے۔موبائل فون میری بنیادی ضرورت ہے ۔ابھی میری پینشن میرے بینک اکاونٹ میں نہیں گئی ہے ۔اللہ نے چاہا تو چند روز بعد تُم میرے ہاتھ میں خوب صورت ساموبائل سیٹ دیکھو گی‘‘
سُخنور ،ایک معمولی کلرک کی پوسٹ سے سبکدوش ہوچکے تھے ۔اُن کی صرف دو بیٹیاں تھیں ،بیٹا نہیں تھا ۔دونوں بیٹیاں کالج میں زیر تعلیم تھیں ۔اُن کی فیس ،سُوٹ بوٹ ،کتابیں اور دوسری ضروری اشیاکے علاوہ گھریلو ذمہ داریوں کو نبھاتے نبھاتے سُخنور کے چہرے سے بڑھاپے کے آثار صاف نظر آنے لگے تھے ۔شرافت اور خوف آخرت کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرتے آئے تھے ۔فضول خرچی سے اُنھیں نفرت تھی ۔موبائل سیٹ خراب ہونے کی وجہ سے کچھ پریشان سے ہوگئے تھے ۔ایک ہفتے کے بعد جب اُن کی پینشن اُن کے بینک اکاونٹ میں آئی تو اُنھوں نے اپنی بیوی مشرفہ بیگم سے پوچھا
’’مشرفہ! کس کمپنی کا موبائل سیٹ خریدوں ؟تُمہاری کیا رائے ہے ؟‘‘
مشرفہ بیگم نے کہا
’’سیمسنگ گلکسی کا خرید لیجیے ،بہت اچھا موبائل سیٹ ہے ۔میری سہیلی رُوپا کے شوہر نے بھی وہی خریدا ہے ۔پندرہ ہزار روپے کا ہے‘‘
سُخنورنے بیوی کی رائے سُنی تو بے ساختہ طور پر اُن کی زبان سے نکل گیا
’’پندرہ ہزار روپے کا موبائل سیٹ !اری اتنا مہنگا!‘‘
مشرفہ بیگم نے تصدیق کی، کہنے لگی
’’ہاں پندرہ ہزار روپے کا موبائل سیٹ ہے ۔یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ سستا روئے باربار ،مہنگا روئے ایک بار‘‘
سخنور اپنی بیوی کی باتیں سُن کر لاجواب ہوگئے ۔اُن سے کوئی بھی جواب نہیں بن پڑا ۔آہستہ سے کہنے لگے
’’مہنگاہی خرید لیتا ہوں ‘‘پھر سر کھجلاتے ہوئے سوچنے لگے مجھے کُل تیس ہزار روپے پینشن ملتی ہے ۔پندرہ ہزار روپے کا موبائل سیٹ آئے گا ۔باقی پندرہ ہزار بچیں گے ۔اُس میں گاڑی کا پیٹرول ،رسوئی گیس سلینڈر، ایک ہزارروپے بجلی کا فیس ،احسان دوکاندار کے بقایا پانچ ہزارروپے ، بیٹیوںنازیہ اور شازیہ کے لیے ایک ایک گرم سُوٹ اور پھر ڈاکٹر کی فیس ! اُنھیں دیر تک یہ ساری ضروریات یاد آتی رہیںلیکن ان سب کے باوجود اُنھوں نے دوسرے ہی دن نیا موبائل سیٹ خریدنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔دوسرے دن وہ گھر سے نکل کر بازار چلے گئے ۔شہر کے وسط میں اُنھیں موبائل فون کی ایک بڑی دکان نظر آئی ۔وہ اُس میں داخل ہوئے اور دُکان دار سے سیمسنگ گلکسی فون خریدنے کی بات کی ۔دکان دار نے اُن کی پسند کا فون پیش کردیا ۔سُخنور کو فون بہت پسند آیا ۔اُنھوں نے قیمت پوچھی تو دکان دار نے ساڑھے پندرہ ہزار قیمت بتائی ۔اُنھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے اے ٹی ایم کارڈ سے ساڑھے پندرہ ہزار روپے ادا کیے ،اپنے پرانے موبائل سے سِم نکالی اور نئے موبائل سیٹ میں ڈلوائی اور موبائل سیٹ لے کر گھر چلے آئے ۔گھر میں اُن کی بیوی اور بیٹیوں نے جب نیا خوب صورت موبائل سیٹ دیکھا تو بہت خوش ہوئیں۔ بڑی بیٹی نازیہ نے کہا
’’پاپا!…میں آپ کے اس موبائل سیٹ میں ضروری ایپس ڈاؤن لوڈکر کے رکھ دیتی ہوں تاکہ بوقت ضرورت آپ کے کام آئیں‘‘
’’ہاں بہتر ہے بیٹی‘‘سخنور نے کہا
چھوٹی بیٹی شازیہ نے نئے موبائل سے اپنے پاپا اور مماں کا فوٹوکھینچنا چاہا ۔اُس نے ماں سے کہا
’’مماں !…میں آپ کا فوٹو پاپا کے ساتھ باہر لان میں کھینچنا چاہتی ہوں،باہر لان میں چلئے‘‘
سُخنور اپنی چھوٹی بیٹی کے اصرار پر مشرفہ بیگم کے ساتھ اپنے نئے موبائل سیٹ سے فوٹو کھچوانے کے لیے باہر لان میں آئے ۔دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہے ۔شازیہ نے ہنستے ہوئے کہا
’’پاپا!…او…مماں!…ذرا چہروں پر مُسکان رکھیں ۔آپ ایسے لگ رہے ہیں جیسے دونوں کی ایک دوسرے سے نوک جھونک ہوئی ہو‘‘شازیہ کی باتیں سُن کر سُخنور اور مشرفہ بیگم دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے ۔شازیہ نے کہا
’’اس صورت میں بھی آپ دونوں کا فوٹو اچھا نہیں لگے گا ۔میرے کہنے کا مطلب ہے آپ کے چہرے پُر مسرت نظر آنے چاہئیں‘‘
شازیہ نے اپنے والدین کا فوٹو کھینچنے کے بعد اُنھیں دکھایا تو وہ خوش ہوگئے ۔سُخنور اپنے موبائل سیٹ کو آہستہ اُٹھاتے اور آہستہ رکھتے ۔اُنھوں نے اپنی بڑی بیٹی نازیہ سے نعتیہ رِنگّ ٹیون رکھوائی ۔اُن کے نئے موبائل سیٹ پر جونہی یہ ٹیون بجنے لگتی تو وہ سر دُھننے لگتے ۔نعتیہ رِ نگّ ٹیون کے یہ بول تھے۔
ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے قلب حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی ہاں اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
سُخنور یہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کا موبائل سیٹ اُن کی نظروں سے اوجھل رہے ۔اُنھیں اپنے اس نئے قیمتی موبائل سیٹ کا ہر وقت دھیان رہتا ۔بازار جاتے اور گاڑی چلاتے ہوئے بھی ایک دو بار موبائل کو دیکھتے اور اس بات کا اطمینان حاصل کرتے کہ اُن کا موبائل اُن کے پاس ہے ۔اب وہ اس نئے موبائل سیٹ پہ فیس بُک اور واٹس ایپ چلانا بھی سیکھ گئے تھے ۔بہت سے اُن کے چاہنے والے اُن کے فیس بُک فرینڈ بن گئے تھے ۔ایک دُنیا اُن کے ساتھ جُڑتی جارہی تھی ۔یُو ٹیوب پہ کئی جائز اور ناجائز ویڈیوز اُن کی نظر میں آتیں تو وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ مجھے کیا دیکھنا ہے اور کیا نہیں دیکھنا ہے ۔ایک روز وہ بیت الخلا میں قدم رکھنے ہی والے تھے کہ اُن کا موبائل فون بج اُٹھا ۔اُنھوںنے کال ریسیو کی تو آگے سے اُن کے دوست جوگندر سنگھ کی آواز آئی ۔اُس نے کہا
’’سُخنور !…یار! جوگندر بول رہا ہوں ۔کیا حال ہے میرے دوست؟‘‘
سُخنور نے جواب دیا ’’سب اچھا ہے تُم سناؤ گھر میں سب خیریت سے ہیں نا‘‘
’’ہاں یار ٹھیک ہیں ۔اچھا سُن ہم چند دوستوں نے ’’نئی فلمی دُنیا‘‘نام کا ایک واٹس ایپ گروپ بنایا ہے ۔میں نے تجھے اُس میں ایڈ کیا ہے ۔اُسے ضرور دیکھنا اور اپنے تاثرات سے نوازنے کی کوشش کرنا‘‘
’’ہاں میں گروپ دیکھتا ہوں‘‘یہ کہتے ہوئے سُخنور نے فون کاٹ دیا اور بیت الخلا میں داخل ہوگئے ۔وہاں سے فارغ ہونے کے بعد جب اُنھوں نے نئی فلمی دُنیا گروپ دیکھا تو اُنھیں بہت سے فلمی ایکٹروں اور ایکٹرسوں کی عریاں تصویریں نظر آنے لگیں ۔ساتھ ہی بے سُر وتال فحش گانے سُننے کو ملے ۔اُنھیں یہ سب اپنے دوستوں کی طرف سے ایک بھونڈا مذاق معلوم ہوا ۔
ایک روز سخنور گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے مزدور منڈی چوک پر پہنچ ہی چکے تھے کہ اُن کے ایک دوست فیاض احمد کا فون آنے لگا ۔اُنھوں نے فون اس لیے نہیں اُٹھایا کیونکہ سامنے چوک پر ٹریفک پولیس والے کھڑے تھے ۔فیاض احمد کی چار کالیں آنے کے بعد بھی سخنور نے فون نہیں اُٹھایا ۔چوک پار کرنے کے بعد دُور آگے اُنھوں نے گاڑی سڑک کے کنارے روک لی اور فیاض احمد کا نمبر ملایا ۔ہیلو کہنے کے بعد اُس نے پُر شکوہ لہجے میں کہا
’’یارسُخنور!…فون کیوں نہیں اُٹھا رہا تھا ؟کیا وجہ تھی؟
سُخنور نے جواب دیا ’’دوست! میں ڈرائیو کررہا تھا اور ٹریفک والے سامنے کھڑے تھے ۔اس لیے فون نہیں اُٹھا پایا ‘‘
فیاض احمد نے کہا’’چھوڑیے کوئی بات نہیں ۔ہاں سخنور ! میں اس لیے فون کررہا تھا کہ ہم چند دوستوں نے ’’ہنسی فوارہ‘‘نام کا ایک واٹس ایپ گروپ تیار کیا ہے ۔میں نے اُس میں تیرا نمبر ایڈ کیا ہے ۔گروپ بہت زیادہ متاثر کن ہے اُسے دیکھ لینا ۔ہاں کمنٹس ضرور کرنا‘‘
سُخنور نے جب گروپ کانام سُنا تو حیران رہ گئے ۔فیاض احمد سے متعجب انداز میں پوچھنے لگے
’’یار! ہنسی فوارہ گروپ!یہ کیسا گروپ ہوگا ؟‘‘
فیاض احمد نے ہنستے ہوئے جواب دیا
’’دیکھ لینا تُجھے بہت مزہ آئے گا‘‘
’’ہاں میں گروپ دیکھ لیتا ہوں ‘‘سخنور نے کہا
شام کو جب سخنور اپنے گھر پر پہنچے تو اُنھوں نے شام کا کھانا کھایا ،نماز عشا پڑھی اور سونے سے پہلے اُنھیں’’ ہنسی فوارہ ‘‘گروپ یاد آگیا ۔اُنھوں نے فوراً گروپ پر کلک کیا تو اُس میں سے چُٹکلے اور طرح طرح کے کارٹون مختلف مضحکہ خیز آوازوں کے ساتھ نمودار ہونے لگے ۔سُخنور کے ہونٹوں پہ دبی دبی سی مسکراہٹ پھیلنے لگی۔لیکن جلد ہی وہ یہ شیطانی تماشے دیکھ کر مایوس ہوگئے ۔اُنھوں نے اُن تمام خرافات کو ڈلیٹ کردیا ۔
ایک رات سخنور گہری نیند میں سوئے تھے ۔رات کے ساڑھے بارہ بجے اُن کے پرانے دوست بہار احمد کا فون آیا ۔وہ جاگ گئے ۔بادل ناخواستہ اُنھوں نے فون اُٹھایا ۔ہیلو کہا تو آگے سے بہار احمد نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا
’’سُخنور ! میں تُجھ سے ناراض ہوں ۔کیا حال ہے میرے ہمدم دیرینہ؟‘‘
سخنور نے کہا’’اللہ کا شکر ہے ۔میں بمعۂ اہل وعیال خوش وخرم ہوں ‘‘
بہار احمد نے کہا’’سخنور ! یار میں نے آج فیس بُک پہ ایک فوٹو اپ لوڈ کیا تھا جو ایک ایونٹ کا ہے، جس میں ،میں اور میرے کچھ خیرخواہ ساتھیوں نے یتیم لڑکیوں اور لنگڑے ،لُولے ،اپاہج لوگوں میں پانچ پانچ کیلو راشن تقسیم کیا تھا ۔بہت سے لوگوں نے ہمارے اس کار خیر پر حوصلہ افزائی کے تاثرات پیش کیے لیکن تُونے کوئی بھی کمنٹ نہیں کیا ۔میں تجھ سے خفا ہوں‘‘
سخنور نے کہا’’یار! مجھے آج فیس بُک دیکھنے کا موقع نہیں ملا ‘‘اُن کے جواب کے ساتھ ہی بہار احمد نے فون کاٹ دیا ۔
کچھ ہی دن کے بعد سخنور کے موبائل فون پہ بہت سے واٹس ایپ گروپ آگئے ۔وہ جونہی موبائل ڈاٹا آن کرتے تو اُن کے موبائل فون پر واٹس ایپ گروپوں پہ آئے طرح طرح کے پیغامات اور ویڈیوز کی بھر مار شروع ہوجاتی ۔وہ حیران رہ جاتے کہ ان دوآنکھوں سے کیا کیا پڑھوں!وہ اب گھنٹوں اُن پیغامات کو کچھ پڑھ کر اور کچھ بغیر پڑھے ڈلیٹ کردینے میں لگ جاتے۔اب آہستہ آہستہ اُن کا قیمتی موبائل سیٹ ہینگ ہونے لگا ۔وہ پریشان ہوگئے ۔ایک دن اُن کی بیوی مشرفہ بیگم نے گیسی چولہے پر دُودھ سے بھرا برتن رکھا۔سخنور کو دُودھ کا خیال رکھنے کو کہا اور وہ خود پڑوسن کے گھر کسی ضروری کام سے چلی گئی ۔سخنور موبائل فون پر آئے پیغامات کو ڈلیٹ کرنے میں مصروف تھے کہ اتنے میں اُنھیں دُودھ کے اُبل کر برتن سے باہر نکل جانے کی آواز آئی ۔وہ فوراً رسوئی میں گئے لیکن تب تک دُودھ بہہ گیا تھا ۔مشرفہ بیگم جب واپس اپنے گھر میں آئی تو دُودھ اُبل کر بہہ جانے پر سخنور کو کہنے لگی
’’ اب آپ نے موبائل کو دن رات دیکھنا شروع کردیاہے ۔ آپ کو فیس بُک اور واٹس ایپ کا چسکا پڑگیا ہے ۔دُودھ اُبل کر بہہ گیا ہے ،ملائی کہاں سے آئے گی‘‘
سُخنور خاموش سر نیوڑہائے بیٹھے رہے ۔بیوی کی باتوں نے اُنھیں پشیماں سا کردیا تھا ۔اُنھوں نے مصمم ارادہ کیا کہ وہ تمام واٹس ایپ گروپس اپنے موبائل فون سے ہٹا دیں گے ۔اسی کے ساتھ اُن کے دل نے چاہا کہ کوئی ایسا واٹس ایپ گروپ تیار کیا جائے جو لا مثال وباکمال ہو ۔وہ کچھ دیر تک گروپ کانام تجویز کرنے کے بارے میں سوچتے رہے ۔اچانک اُن کے ذہن میں ’’دین ودُنیاگروپ‘‘نام آگیا ۔وہ خوش ہوگئے ۔اُنھوں نے اُسی وقت اپنے ایک مخلص ،خدا دوست ،خوش اخلاق وخوش مزاج دوست محمد منشا کو فون کیا اور اُسے’ ’دین ودُنیا ‘‘نام کا واٹس ایپ گروپ تیار کرنے کو کہا ۔محمد منشا انٹر نیٹ کی دُنیا سے پوری طرح واقف تھا ۔جب گروپ تیار ہو اتو محمد منشا نے اُسے واقعی دین ودُنیا کی معلومات سے مزّین کردیا ۔وہ اُس میں ایڈ مین کے طور پر کام کرنے لگا۔سخنور نے جب اپنے دوستوں کے علاوہ بہت سے واٹس ایپ گروپس اپنے موبائل سیٹ سے ہٹا دیے تو اُس کے دوستوں نے ناراضگی کا اظہار کرنا شروع کردیا ۔سخنور نے سب کو یہ جواب دیا
’’دوستو! مجھے فرقہ پرستی اور گروپ بندی سے سخت نفرت ہے ۔میں سارے جہاں کے لوگوں کو اپنے خاندان کے لوگ سمجھتا ہوں لیکن اس کے باوجود میںچاہتا ہوں کہ آپ میرا بنوایا ہوا گروپ’’دین ودُنیا ‘‘ضرور دیکھیں تاکہ آپ کا وقت ضائع نہ ہو۔میں آپ تما م کے نمبر اُس میں ایڈ کراؤں گا‘‘
ایک روز سخنوراپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ’’دین ودُنیا‘‘گروپ پہ سورۂ رحمن کی ویڈیو مظاہر فطرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے تو اُنھیں اس آیت پر رونا آگیا کہ ’’اے جن وانس ! تُم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کے منکر ہوجاؤ گے ‘‘اُن کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کہ اسی دوران مشرفہ بیگم ڈرائنگ روم میں آگئی ۔اُس نے جب سخنور کی آنکھوں سے آنسو بہتے دیکھے تو وہ فکر مند ہوگئی ۔وہ اُن کے قریب آئی اور پوچھنے لگی
’’آپ کی ان آنکھوں میں یہ شبنم کے قطرے!آخر کس بات پہ رونا آیا؟‘‘
سخنور نے شاعرانہ انداز میں جواب دیا’’کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا‘‘
’’میں پوچھ رہی ہوں آپ کیوں آنسو بہا رہے تھے ؟آپ کو میری قسم مجھ سے بات نہ چھپائیں ‘‘
سخنور نے کہا
’’مشرفہ! میری زندگی!مجھے قبر کی تنہائی اور تاریکی یاد آرہی ہے!‘‘
���
اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردوبابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری( جموں کشمیر)
موبائل نمبر؛7889952532