منشیات اور نشہ آور ادویات کی تجارت نے وادیٔ کشمیر کے اطراف و اکناف میں جس پیمانے پر اپنی جڑیں گاڑ دی ہیں ،انہیں اُکھاڑنے کے لئے سرکاری سطح پر سخت سے سخت اقدامات پر عمل درآمد ہونا ناگزیر بن گیا ہےاور اس سلسلے میں محکمہ پولیس کی طرف سے کریک ڈاون کا جو سلسلہ شروع کیا گیا ہے ، عوامی حلقوں میںاس کی پذیرائی ہورہی ہے۔ جبکہ کشمیر رینج کے جنرل آف پولیس وردھی کماربردی نے چند روزقبل بارہمولہ میں نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے واضح کردیا کہ کشمیری سماج میںمنشیات کی لعنت کو ختم کرنے کی خاطر زمینی سطح پر جموں و کشمیر پولیس نے جو مہم شروع کی ہے، اُس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیںاور یومیہ کشمیر میں این ڈی پی ایس ایکٹ کے تحت متعدد کیس رجسٹرہورہے ہیں۔بقول اُن کے ضلع بارہمولہ میں2023کے اختتام تک اس ایکٹ کے تحت 264کیس درج کرکے464منشیات فروش گرفتار کئے،75کے خلاف مقدمہ درج کیا اور مختلف کاروائیوں کے دوران منشیات فروشوںکی 3کروڑ روپےمالیت کی جائیدادیںبھی ضبط کی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سماج پر لازم ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا بھرپور ادا کریں تاکہ اس بُرائی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینک دیا جائے۔
اب گزشتہ روز پولیس چیف آر آر سوین نے بھی منشیات کے خلاف جنگ کو پولیس کی پہلی ترجیح قرار دیتے ہوئے کہا کہ عوام کے تعاون کے بغیریہ جنگ جیتی نہیں جاسکتی۔بے شک اب شہر کے علاوہ دور دراز دیہات کے علاقوں میں بھی منشیات کا کاروبار بڑے پیمانےپر ہورہا ہےجس کے نتیجے میں نوجوان سے لے کر چھوٹے بچوں تک ہر کوئی کسی نہ کسی طرح کے نشے کی لت کا شکار ہورہا ہے۔ منشیات کا یہ کاروبار ہر جگہ نئی نسل کو اپنی گرفت میں لے رہا ہےاور یہ زہریلا کاروبار ہر باشندہ کی دہلیز تک پہنچادیا گیا ہے۔جس سےنہ صرف سماج کی نئی نسل تباہ و برباد ہورہی ہے بلکہ لوگوں کے سماجی تانے بانے بھی پارہ پارہ ہورہے ہیں۔ اگرچہ ان علاقوں میں سالانہ کروڑوں روپے کی منشیات پکڑی جاتی ہیں اور منشیات مافیا سے وابستہ لوگوں کو گرفتار بھی کیا جاتا ہے،کیس درج کئے جارہے ہیں،چھاپے ڈالے جارہے ہیںاور جائیدادیں ضبط کی جارہی ہیںلیکن اس کے باوجود یہ کاروبار سُست نہیں پڑرہا ہےبلکہ دن بہ دن فروغ پارہا ہے۔یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ زیادہ تر 15 سے 21 سال کی عمر کے نوجوان اس بُرائی میں پھنس چکے ہیں۔ جن کی دیکھا دیکھی میں اب 10-12 سال کے چھوٹے بچے بھی منشیات کا استعمال کرنے لگے ہیں جو کسی بھی معاشرے کے مستقبل کی بھیانک علامت قرار دی جاسکتی ہے۔ کیونکہ یہ نہ صرف ایک معاشرتی بُرائی ہے جو مستقبل کو تباہ کر رہی ہے بلکہ یہ بُرائی معاشرے میں دیگر کئی قسم کی بُرائیوں کا سبب بن رہی ہے۔ نوجوانوں میں منشیات کی یہ لت اتنی بڑھ گئی ہےکہ والدین چاہ کر بھی اپنے بچوں کو اس سے بچا نہیں پا رہےہیں۔ کئی نوجوان طرح طرح کی نشہ آور اشیاء کے استعمال سے اپنی صحت بھی تباہ کرچکے ہیں اور اب ہسپتالوں میں پڑے ہوئے ہیں۔یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ دسویں اور گیارہویں جماعت میں پڑھنے والے بہت سے بچے ایسے ہیں،جو نشے کے عادی بن گئےہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان کے پاس منشیات خریدنے کے لیے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے، جس کی طرف والدین کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وقت پر اس پر دھیان نہیں دیا گیا تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ آج یہ نشہ نوجوانوں کی رگوں میں اس قدر داخل ہو چکا ہے کہ اس کے بغیر اب انہیں سکون ہی میسر نہیں ہوتا۔ شراب، چرس اور گانجہ جیسی نشہ آور ادویات نوجوانوں کو بے وقت موت کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ہسپتالوں کے ریکارڈز کے مطابق بیشتر خواتین اور اسکول جانے بعض کم عمر کی لڑکیاں بھی اس جال میں پھنس چکی ہیں، جس کی وجہ سے معاشرہ انتہائی غلط سمت میں جا رہا ہےاور ساتھ ہی شہر و دیہات میں سماجی ماحول بھی بگڑتا جا رہا ہے۔ اس لئےجہاں یہاں کی موجودہ سرکاری انتظامیہ کواس بابت سخت سے سخت احکامات صادر کرنےکے بعد اُ ن پر ٹھوس عمل درآمدنا گزیر بن گیا ہے وہیں یہاں کے عوام کے لئے بھی ایک تشویش ناک امر ہے۔اس لئے سماج کواس لعنت کے خلاف ہرسطح پر متحرک ہونے کی ضرورت ہے ، تاکہ منشیات کا کاروبار کرنے والے جوعناصران علاقوں کے نوجوان نسل کی زندگیاں تباہ کررہے ہیں،اُن کو کیفر کردار تک پہنچایا جاسکے۔ نوجوان نسل اور کم عمر بچوں کو اس لعنت سے بچانے کے لیے ہمیں ہر سطح پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور منشیات کے کاروبار کے خلاف پولیس کی طرف سے چلائی جارہی مہم کو کامیاب بنانے کے لئےاپنا مثبت کردار نبھانا لازمی ہے۔