رضوان احمد طارق
آسٹریلیا نے لکڑی اور تعمیرات کے لیے استعمال ہونے والی دیگر اشیاء کے ضمن میں معیارات سخت بنائے ہیں۔آسٹریلیا، کوریا اور امریکا میں ماہرین نے سڑکیں بنانے کے طریقوں پر بھی خاص توجہ دی ہے۔ کئی ممالک میں تجارتی اداروں، غیر منافع بخش تنظیموں اور ماہرین نے اشیاء کو پیک کرنے اور خطوط بھیجنے کے عمل پر بھی توجہ دی ہے اور انہیں ماحول د وست بنانے کے لیے عملی تجاویز اور طریقے پیش کیے ہیں۔ اسی طرح بعض ممالک میں گھروں اور ریستورانوں میں خوراک تیار اور استعمال کرنے کے طریقوں اور ان کے انتخاب کے ضمن میں توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
انگلستان میں کاربن ٹرسٹ کے نام سے قائم ادارہ وہاں خوراک، قمیصیں اور ڈٹرجنٹس تیار کرنے والے اداروں کے ساتھ مل کر کام کرچکا ہے۔ اس کوشش کے نتیجے میں وہاں CO2 کے نام سے ایک لیبل 2007ء میں وجود میں آیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ برطانیہ میں عوامی سطح پر ماحول کے لیے ایک معیار مقرر کیا جائے جو باقاعدہ اور سرکاری معیار نہ ہو۔ اس ٹرسٹ نے بعض دیگر صنعتی اداروں کے اشتراک سے بھی ماحول دوست سرگرمیوں کو فروغ دیا۔ اس کے نتیجے میں 2012ء میں کاربن ٹرسٹ نے یہ اعلان کیا کہ اس نے27ہزار مصنوعات کو اس قابل سمجھا ہے کہ انہیں کاربن فُٹ پرنٹ کا سرٹیفکیٹس جاری کیا جائے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں بالعموم اور ترقی یافتہ دنیا میں بالعموم کسی مصنوع کے کاربن فُٹ پرنٹ کی جانچ پڑتال کے دوران سب سے پہلے اس کی پیکجنگ کو پرکھا جاتا ہے۔ مثلاً پھلوں کے جوس کا کارٹن اے سیپٹک کارٹن سے بنتا ہے، بیئر کا کین ایلومینیم سے بنتا ہے اور پانی کی بوتلیں پلاسٹک یا شیشے سے بنائی جاتی ہیں۔ ان کا حجم جتنا زیادہ ہوتا ہے فُٹ پرنٹ اسی قدر بڑھ جاتا ہے۔
کئی ممالک میںبجلی کےبحران پر قابو پانے کے لیے بجلی پیدا کرنے کی غرض سے کارخانوں میں کوئلے کا استعمال بہت بڑھ چکاہے۔ تاہم دنیا بھر میں ماحولیات کے ماہرین اس بات پر مصر ہیں کہ رکازی ایندھن کم سے کم استعمال کیا جائے اور توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے متبادل یا ماحول دوست ذرایع استعمال کرنے پر بھرپور توجہ دی جائے۔ اس ضمن میں ان کا کہنا ہے کہ پانی، ہوا اور جوہری توانائی سے بجلی پیدا کرنے میں نسبتاً کم کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے۔ ہوا اور پانی سے بجلی پیدا کرنے سے یہ گیس بالکل پیدا نہیں ہوتی، لیکن اس کے لیے جو ڈھانچہ تیار کرنا پڑتا ہے، اس کی تیاری کے دوران ضرور یہ گیس پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس ڈھانچے کی دیکھ بھال کے دوران بھی ایسا ہوتا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ انسان کی سرگرمیوں کی وجہ سے دنیا بھر میں جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے اس کا نصف بجلی پیدا کرنے کے عمل کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔
کیوٹو پروٹوکول (ماحول کے تحفظ کا عالمی معاہدہ) صنعتی ممالک کو قانونی طور پر پابند کرتا ہے کہ وہ مقررہ وقت میں گرین ہائوس گیسز کا اخراج کم کریں گے۔ اس کی بنیادپر سرٹی فائیڈ ایمیشن ریڈکشن، ایمیشن ریڈکشن یونٹ اور ویری فائیڈ ایمیشن ریڈکشن کی اصطلاحات سامنے آئی ہیں اور بہت سے ممالک یہ سرٹیفکیٹ حاصل کرکے ان سے مالیاتی فوائد اٹھا رہے ہیں۔ یہ سندیں مختلف اداروں کو بھی دی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے لیے ایک مخصوص اور طے شدہ طریقۂ کار ہے جس پر چل کر یہ سندیں حاصل کی جاسکتی ہیں۔
بھارت بھی اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ یہ عمل کاربن کریڈٹ اور کاربن ٹریڈنگ کہلاتا ہے۔ ایمیشن ٹریڈنگ کا سر ٹیفکیٹ حاصل کرنے والے اداروں کو کئی اقسام کے فواید ملتے ہیں۔ وہ اقوام جو کیوٹو پروٹوکول کے اہداف حاصل کرنے میں پیچھے ہوتی ہیں وہ عالمی منڈی سے یہ سرٹیفکیٹس خرید لیتی ہیں تاکہ وہ اپنے شارٹ فال کو پورا کرسکیں۔ بعض ممالک اور ادارے مل کر لوکل ایمیشن ریڈکشن اسکیمز شروع کرکے بھی فواید حاصل کر رہے ہیں۔
کیوٹو پروٹوکول کے تحت کاربن کریڈٹس کی تجارت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں تجارتی ادارے ایسے طریقے اختیار کریں جن کی وجہ سے نہ صرف لاگت میں کمی آجائے بلکہ کاربن کا اخراج بھی کم ہوسکے۔ اس معاہدے کے تحت دنیا کے بڑے بڑے صنعتی ممالک اس بات کے پابند ہیں کہ یہ اخراج ایک خاص حد تک کم کردیں ۔ لیکن ان میں سے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے ادارے اپنے کارخانوں میں بڑے پیمانے پر اس مقصدکےلیے پیسہ خرچ کرنے کے بجائے یہ آسان راستہ اختیار کرتے ہیں کہ وہ کسی ملک سے کاربن کریڈٹس خرید لیں تاکہ وہ اپنے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کا کسی حد تک ازالہ کرسکیں۔
دہلی کی میٹرو ریل کی مثال :۔بھارت کے دارالحکومت دہلی کی میٹرو ریل شہر میں گرین ہاؤس گیسز میں کمی کے لیے کافی مدد گار ثابت ہوئی ہے جس کے لیے اقوام متحدہ نے اسے اپنے کاربن کریڈٹ کے لیے 2011 میں منتخب کیا تھا۔ واضح رہے کہ یہ میٹرو ریل دنیا کی ایسی پہلی ریل سروس ہے جسے کاربن کریڈٹ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ نے اس سے متعلق اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ دہلی کا ٹرانسپورٹ کایہ نیا نظام شہر میں سالانہ چھ لاکھ تیس ہزار ٹن آلودگی کی سطح کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔ اس کے مطابق اگریہ میٹرو نہیں ہوتی تو پھر تقریبا اٹھارہ لاکھ لوگ ہر روز کار، بسوں اور موٹر سائیکل سے سفر کرتے جس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوتا۔
یادرہے کہ آلودگی سے متعلق اقوام متحدہ کا ادارہ سی ڈی ایم، یعنی ’’ کلین ڈیولپمنٹ مکینزم‘‘ کاربن کریڈٹ کے لیے رقوم فراہم کرتا ہے۔ سی ڈی ایم، حوصلہ افزائی کے لیے ترقی پذیر ممالک میں ان اداروں کی مدد کرتا ہے جو گرین ہاؤس گیسز کا اخراج روکنے یا کم کرنے لیے کام کرتے ہیں۔ اس ادارے نے دہلی کی میٹرو ریل کو سات برس تک کاربن کریڈٹ کے طور پر سالانہ ساڑھے نو لاکھ ڈالرز کی رقم فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد جولائی 2016 میں بھارت نےاقوام متحدہ سے دریائے چناب پربھارت کی حدود میں تین نئے ڈیموں کی تعمیرکے لیےکاربن کریڈٹ سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا تھا۔
اس وقت بھارت اور چین کاربن کریڈٹ کے سب سے زیادہ فروخت کنندہ ہیں جبکہ یورپ کے ممالک سب سے زیادہ خریدار ہیں۔ اگر کوئی پروجیکٹ موجودہ متبادل کے مقابلے میں مقدار کے مطابق اور بار بار کم GHG (گرین ہاوس گیسز)پیدا کرسکتا ہے، تو یہ کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کا اہل ہوگا۔