! کارآفرینی سے انکار نہیں | موافق ماحول تو دستیاب کریں

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے ہفتہ کو کہا کہ آنے والے دنوں میں زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو نوکریاں ملیں گی کیونکہ حکومت جلد ہی روزگار پالیسی نافذ کرے گی۔ ماگام بڈگام میں ایک تقریب کے حاشئے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے منوج سنہا نے کہا کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں کا انتظار کرنے کا ذہن ترک کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاجموں و کشمیر سرکار اور مرکزی سرکار نے یہاں روز گار کے کئی سکیمیں وجود میں لائی ہیں تاکہ یہاں کا تعلیم یافتہ نوجوان اپنا روز گار کما سکے۔بہ الفاظ دیگر منوج سنہا کار آفرینی یا کاروبار قائم کرنے کی اہمیت پر زور دے رہے ہیں۔ قومی سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ سٹارٹ اپس کا تصوربھی بہت زیادہ مشہور ہے۔ اس سلسلے میں بھارت میں مرکزی اور ریاستی حکومت مختلف سکیموں کا اعلان کرتی ہیں اور ایسی پالیسیاں بناتی ہیں جو نوجوان اور تعلیم یافتہ لوگوں کو اپنے کیریئر کے انتخاب کے طور پر کچھ چھوٹی یا درمیانے درجے کی صنعتی سرگرمیوں کی طرف راغب کرسکیں۔ یہاں جموں و کشمیر میں ہم نے پچھلے دو برسوں میں پایا کہ بہت سے نوجوانوں نے مارکیٹ سرگرمیوں کے مختلف شعبوں میں اپنا کاروبار شروع کیا ہے اور اچھا کام کررہے ہیں۔ آن لائن کاروبار اور خدمات کے سیکٹر میں بھی پچھلے کچھ برسوں میں بے پناہ اضافہ ہواہے۔ یہ سب بہت حوصلہ افزا ہے اور نوجوانوں میں یہ رجحان قائم کرتا ہے کہ وہ سرکاری ملازمتوں کا انتظار نہ کریں بلکہ اپنے ابتدائی برسوں کو ابھرتی ہوئی منڈیوں میں اپنی جگہ بنانے میں لگائیں۔ ہمارے پاس ایسی کامیاب مثالوں کی کمی نہیںہے جن میں افراد یا چھوٹے گروپوں نے انتہائی قلیل وسائل کے ساتھ کاروباری سرگرمیاں شروع کیں لیکن کامیاب تجربہ سے آس پاس کے لوگوں کو متاثر کئے بغیر نہ رہ سکے اور اس کے طفیل ایک دوڑ سی لگی ہے جس میں نوجوان اب اپنی کاروباری یونٹ قائم کرنے میںلگے ہوئے ہیں ۔ روایتی سرگرمیوں کے علاوہ ہم نے لوگوں کو اپنے کاروبار کی ترقی کے لئے نت نئے آئیڈیازپر عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ جموں و کشمیر میں ہمیں نوجوان ذہنوں کے اس جذبے میں مزید فروغ کی ضر ورت ہے کیونکہ یہ ایک ایسا معاشرہ رہا ہے جہاں لوگ کسی حکومتی نوکری کی تلاش میں اپنے ایام ِ عروج کو غیر ضروری طور پر ہی ضائع کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر لوگ پھر کم درجے کی نوکریاں پاتے ہیں جن سے وہ دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے کما پاتے ہیں۔ہمارے پاس ادھیڑ عمر کے لوگوں کی ایک اچھی خاصی آبادی ہے جو مالی بحران کا شکار ہے اور وہ بھی صرف اس وجہ سے کہ انہوں نے کبھی سرکاری ملازمت سے آگے دیکھنے کی زحمت نہیں کی اور نتیجہ کے طور پر وہ لکیر کے فقیر ہی رہ گئے ۔ہم آج جس بیروزگاروں کے فوج پر تشویش میں مبتلا ہیں ،وہ بھی دراصل اسی سوچ کا نتیجہ ہے کیونکہ ہم ابھی تک سرکاری نوکریوں سے آگے دیکھ نہیں پاتے ہیں۔تجارت اورکاروبار سے بہتر کچھ نہیں ہے لیکن یہاں یہ معمول ہی بنا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صرف اس لئے پڑھاتے ہیں کہ آگے چل کر وہ سرکاری نوکر بن جائیں اور اس کشمکش میں وہ یاتو عمر کی بالائی حد پار کرجاتے ہیں یا پھر کسی چھوٹی موٹی نوکری پر اکتفا کرنا پڑتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہماری نوجوان آبادی کاغالب حصہ انحصاریت کے دلدل سے باہر نکل ہی نہیں پاتا ہے ۔ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے طلباء کوابتداء میںہی تیار کریں اور اُن کی صلاحیتوںکی ابتدائی ایام میں ہی نشاندہی کریں تاکہ وہ اُس وقت کاروبار کا انتخاب کرسکیں جب وقت اُن کے ساتھ ہو اور حالات موافق ہوں۔ حکومت کو اپنی طرف سے تعلیمی پالیسیوں میں ایسی گنجائش پیدا کرنی چاہیے جہاں ایسی سوچ کو فروغ مل سکے اور ساتھ ساتھ ایسے نوجوانوں کو مدد بھی فراہم کرنی چاہئے تاکہ وہ نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکیں بلکہ دوسروں کیلئے بھی روزگار کا زریعہ بنیں ۔یہ قطعی ناممکن نہیںہے تاہم اس ضمن میں سب سے بڑی پہل حکومت کو کرنا ہوگی اور یہاں کاروبار کے موافق ماحول تیار کرناہوگا۔جب کاروبار دوست ماحول دستیاب ہو اور حکومت کا تعاون شامل ہو تو شاید نوجوان نجی سیکٹر میں کاروبار شروع کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے لیکن اگر حسب روایت بنک قرضوں کے نام پر نوجوانوں کو بنکوں و دیگر مالی اداروں کی جانب سے ہراسانی کا سلسلہ جاری رہا تو یہاں کبھی کاروباری ماحول پنپ نہیں سکتا ہے اور نوجوان ایک انار ایک لاکھ بیمارکے مصداق ایک ایک سرکاری نوکری کیلئے ایڑیاں رگڑ تے رہیں گے۔