کپوارہ // ضلع کے دیور لولاب علاقے میں دور افتادہ پہاڑی بہک میںفوج نے 2افراد کو گرفتار کرنے کے بعد ایک کو مبینہ طور لاپتہ کردیا جبکہ ایک کو نیم مردہ حالت میں چھوڑ دیا گیا جس کی حالت صورہ اسپتال میں نازک قرار دی جارہی ہے۔ لاپتہ کیا گیا نوجوان ریاستی کابینہ وزیر برائے دہی ترقی و قانون عبدالحق خان کا پھوپھی زاد بھائی ہے۔حراستی گمشدگی کے اس واقعہ پر دیور لولاب اور اسکے ملحقہ علاقوں میں جمعہ کو بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے گئے اور دھرنا دیا گیا۔بعد میں پولیس کے کچھ افسران وہاں پہنچ گئے جو فوج کیساتھ اس معاملے پر بات چیت کررہے ہیں۔
علاقہ کہاں ہے؟
دیور لولاب کپوارہ ضلع کا معروف علاقہ ہے جہاں پہاڑی اور کشمیری زبان بولنے والے آباد ہیں۔کتر پتی میں پہاڑی بولنے والوں کی زیادہ تعداد ہے ،جو ہر سال اپنے مال مویشی لیکر بلند پہاڑیوں پر واقع بہکوں میں لے جاتے ہیں،جہاں پہنچنے کیلئے دیور سے دو گھنٹے کی پیدل مسافت طے کرنا پڑتی ہے۔ترمکھ بہک میں یہ لوگ سالہا سال سے گرمیوں کے دنوں میں رہتے ہیں جہاں قریب ایک ہزار کنبوں نے اپنے مکان بنائے ہیں، یہاں انکی زمینیں ہیں، جہاں یہ سبزیاں، گیہوں، مکی اور دالیں اگاتے ہیں۔ترمکھ بہک تک پہنچنے کیلئے ہر ایک شخص کو فوج کے27آر آر کیمپ، جو بستی سے قریب300گز کی دوری پر واقع ہے، میں اپنے ناموں کا اندراج کرنا پڑتا ہے۔
واقعہ کیسے ہوا؟
جمعرات کی صبح دیور لولاب سے50سالہ جلال الدین خان، 35سالہ منظور احمد خان اور45سالہ نصر اللہ خان ولد غلام قادر خان اپنی پھوپھی بی نوری کے ہمراہ ترمکھ بہک کے لئے روانہ ہوئے۔ ان لوگوں نے اپنے ساتھ ایک گھوڑے اور ایک خچر پر سامان بھی لادھا اور گھر میں موجود ایک گائے کو ساتھ لیکر بہک کی طرف روانہ ہوئے۔دو گھنٹے کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ لوگ فوج کیمپ کے قریب پہنچ گئے جہاں انہوں نے اپنا ناموں کا اندراج کروانا شروع کیا۔نصر اللہ کے ماموں میر عالم خان نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اسکے بھانجے نصر اللہ نے انہیں بتایا کہ نام اندراج کرنے کے موقعہ پر نصراللہ اور منظور کو کیمپ کے اندر بلایا گیا جبکہ جلال الدین کو باہر انتظار کرنے کیلئے کہا گیا۔میر عالم کے مطابق جلال الدین نے قریب ایک گھنٹے تک انتظار کیا لیکن ان لوگوں کو واپس نہیں چھوڑا گیا،جس کے دوران ایک فوجی اہلکار نے جلال الدین کی مارپیٹ کرکے اسے بھگا دیا۔میر عالم کے مطابق جلال الدین نے بستی کی طرف دوڑ لگائی اور لوگوں کو یہ ماجرا سنایا جس کے فوراً بعد بہک کی تمام بستی کے لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے کیمپ کے باہر دھرنا دیا۔ نعرے بازی کرنے کے بعد جمعرات کی شام نصر اللہ کو نیم مردہ حالات میں چھوڑ دیا گیا لیکن فوج نے منظور احمدخان کی گرفتاری سے انکار کردیا۔نصر اللہ خان کو ایک چارپائی پر اٹھا کر دیور تک لایا گیا جس کے بعد اسے پہلے ضلع اسپتال اور بعد میں صورہ سرینگر منتقل کردیا گیا، جہاں اسکی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔میر عالم نے مزید بتایا کہ جمعرات دیر رات گئے تک انہوں نے پولیس اور ضلع انتظامیہ کے افسران کا انتظار کیا لیکن کوئی نہیں آیا۔ جمعہ کی صبح ہزاروں لوگوں پر مشتمل جلوس دیور سے بر آمد ہوا جس نے ترمکھ بہک تک مارچ کیا جبکہ بہک میںپہلے سے موجود لوگ دھرنا پر بیٹھے ہوئے تھے۔میر عالم نے بتایا کہ دیور میں بھی احتجاجی مظاہرے جاری رہے جس کے بعد ضلع انتظامیہ حرکت میں آئی اور سب ڈیویژنل مجسٹریٹ کے علاوہ ڈی ایس پی کپوارہ و لولاب ترمکھ بہک پہنچ گئے جہاں وہ مقامی لوگوں سے بات کرنے کے علاوہ فوجی افسران سے بات چیت کررہے ہیں۔پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ فوج نے صاف انکار کردیا ہے کہ منظور انکی تحویل میں نہیں ہے تاہم اس دعوے کو جلال الدین اور اسکی پھوپھی،جو منظور کیساتھ تھے،نے مسترد کردیا۔مقامی لوگ یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ شاید منظور کو ٹارچر کرکے ہلاک کیا گیا ہے اور اسکی لاش غائب کردی گئی ہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ جس نوجوان کو حراست میں لینے کے بعد لاپتہ کردیا گیا ہے وہ ریاستی کابینہ وزیر ایڈوکیٹ عبدالحق خان کا قریبی رشتہ دار ہے۔تاہم ریاستی وزیر جمعہ کی شام تک دیور نہیں پہنچے تھے۔واضح رہے دیور میں جمعہ کو نماز کے بعد ایک بہٹ بڑا جلوس بر آمد ہوا جس کی قیادت ہیومن رائٹس کارکن محمد احسن انتو نے کی۔ اونتوبھی دیور کے ہی رہنے والے ہیں۔
فوج کے خلاف کیس درج
پولیس تحقیقات کے دوران اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ منظور احمد فوج کی حراست کے دوران لاپتہ ہو گیا ہے ۔پولیس سٹیشن لال پورہ میں اس کیس کے حوالے سے دو ایف آئی آر درج کئے گئے ہیں۔نصر اللہ کو ٹارچرکرنے کے معاملے پر ایف آئی آر نمبر62/2017درج کرلیا گیا ہے جبکہ منظور کو لاپتہ کرنے کے معاملے پر27آر آر کے میجر نشان اور اسکے ساتھیوں کے خلاف ایف آئی آر نمبر63/2017درج کرلیا گیا ہے۔