ریاستی کابینہ میں ردوبدل کاجو اندازہ کافی عرصہ سے لگایا جا رہا تھا، بالآخر انجام کو پہنچا اور حکمران اتحاد کی دونوں جماعتوں نے اپنے کچھ وزراء کو بدل کر نئے چہرے سامنے لائے ہیں۔ عام حالات میں کابینہ کے اندر پھیر بدل وزراء کی کارکردگی سے منسلک ہوتی ہے، لیکن موجودہ تبدیلیاں رسانہ کٹھوعہ میں پیش آئے دلدوز واقع ، جس میں ایک معصوم بچی کی آبروریزی کرکے اُسے قتل کر دیا گیا، کا شاخسانہ ہے۔ بھلے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی کے اعلیٰ قائدین یہ کہیں کہ کابینہ پھیر بدل کا کٹھوعہ واقع سے کوئی تعلق نہیں ہے مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مذکورہ واقعہ کے خلاف ملکی اور بین الاقوامی سطح پر برہمی کا جو اظہار سامنے آیا اُس نے سنجیدہ فکر سیاسی و سماجی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ دونوں جماعتیں کچھ چہروں کو بدلنے کا ارادہ رکھتی تھیں اور اسکے بہانے انہیں موقع ہاتھ آیا لیکن اگر اسے رسانہ کٹھوعہ سے الگ کرکے پیش کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ نہ صرف حقیقت کےخلاف بات ہوگی بلکہ عوامی جذبات سے کھلواڑ کےمترادف ہوگا۔ حالانکہ کابینہ میں شامل کئے گئے نئے چہروں میں کٹھوعہ کے ممبر اسمبلی بھی شامل ہیں جس نے رسانہ کیس میں ملزمان کو بچانے کےلئے نکالی گئی ریلی میں شرکت کی تھی۔ حالانکہ فارغ کئے گئے دو وزراء لال سنگھ اور چندر پرکاش بھی ہندو ایکتا منچ کی ریلی میں ہی شریک تھے ، جسکی بنا پر اُنہیں کابینہ سے باہر کا راستہ دکھا یا گیا ۔ اگر چہ بھاجپا کے سینئر قائدین کا ماننا ہے کہ وہ وہاں ضرور موجود تھے مگر ریلی میں شریک نہیں تھے۔ لہٰذا ان قائدین کی جانب سے کابینہ میں پھیر بدل کو کٹھوعہ واقع سے الگ کر کے پیش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں ۔حالانکہ اس واقع پر ملزموں کے حق میں احتجاج کرنے والوں کے خلاف جو رائے عامہ تیار ہوئی تھی اُسکے چلتے حکمرانوں کےلئے اس پر آنکھیں بند کرنا ممکن نہیں تھااور کوئی نہ کوئی اقدام کرنا انکی مجبوری تھی۔ بہر حال اب چونکہ کابینہ پھیرل بدل ممکن ہوا ہے اب یہ حکمران اتحاد کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کٹھوعہ واقعہ پر متنازعہ کردار اور بیانات کے حامل افراد پر ایسی گرفت بنانے کی کوشش کرے تاکہ اس واقعہ پر فرقہ وارانہ جذبات کو انگیخت کرنے والے عناصر کو کوئی کامیابی نہ ملے۔ کابینہ اراکین میں یہ سوچ اور فکر پیدا کرنا حکمران اتحاد کے سینئر قائدین کےلئے ایک چلینج سے کم نہ ہوگا۔ تاہم انتظامی امور میں دیانتداری اور غیر جانبداری کے ساتھ کابینہ اراکین کی مثبت کارکردگی کےلئے ایسا عمل ضروری ہوگا۔ کٹھوعہ واقع پر بھلے ہی بار کونسل آف انڈیا نے اپنے مفوضہ منڈیٹ سے تجاوز کرکے انصاف کی فراہمی کے عمل میں رخنہ اندازی کرنے والے وکلاء کو بری کر دیا ہو ، مگر اس عمل سے جس طرح انکے اپنے اعتبار پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے وہ ہٹائے نہیں ہٹ سکتا۔ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے لئے یہ امتحان کا وقت ہے کہ وہ کابینہ ساتھیوں پر یہ اچھی طرح باور کرائے کہ وہ ایسی بیان بازیوں سے احتراز کریں جس سے اشتعال میں اضافہ ہوگا اور فرقہ پرستی کی بنیاد پر سماجی ماحول بگاڑنے والوں کو موقع میسر ہوگا۔ ظاہر بات ہے جب کابینہ اراکین فرقہ وارانہ بنیادوں پر بٹ جائیں تو عوامی امور کا متاثر ہونا لازمی ہے۔ فی الوقت ریاست کے حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ عوام کو درپیش طرح طرح کی مشکلات کا سنجیدگی کے ساتھ ازالہ کرنے کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے اور اسکی خاطر حکومتی حلقوں میں مثبت اور عوام پرور سوچ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔