مختار احمد قریشی
ذہنی بیماری ایک سنجیدہ اور قابل علاج مسئلہ ہے جو انسان کی سوچ، جذبات اور طرز عمل کو متاثر کرتا ہے۔ افسوس ہے کہ ہمارے معاشرے میں اسے اکثر کمزور ایمان، سستی یا وہم کا نام دے کر نظرانداز کیا جاتا ہے، جس سے مریض بروقت مدد حاصل نہیں کر پاتا۔ ڈپریشن، انگزائٹی، شیزوفرینیا، بائی پولر ڈس آرڈر جیسی بیماریاں عام ہیں مگر ان کا ادراک کم ہے۔ ان بیماریوں کی وجوہات میں جینیاتی اثرات، کیمیکل توازن کی خرابی، بچپن کے صدمات، معاشی و سماجی دباؤ اور منشیات کا استعمال شامل ہیں۔ علامات میں اداسی، بے چینی، نیند اور بھوک میں تبدیلی، تنہائی چڑچڑا پن اور خودکشی کے خیالات شامل ہو سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے معاشرے میں ان امراض سے متعلق کئی غلط فہمیاں رائج ہیں، جیسے یہ صرف کمزور افراد کو لاحق ہوتی ہیں یا ان کا علاج ممکن نہیں۔ درحقیقت بات چیت کی تھراپی، دوائیں، کونسلنگ، خاندانی سپورٹ اور روحانی سکون جیسے طریقے اس میں شفا کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
ذہنی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے تعلیم، شعور اور قبولیت بے حد ضروری ہے۔ اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں کونسلنگ سیل، اساتذہ کی تربیت اور طلبہ کے ذہنی دباؤ کو کم کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ میڈیا کو مثبت کردار ادا کرتے ہوئے ذہنی صحت سے متعلق آگاہی مہمات چلانی چاہئیں اور حکومت کو چاہیے کہ وہ صحت کے شعبے میں ذہنی صحت کو برابر کی اہمیت دے۔ دیہی علاقوں میں بھی نفسیاتی سہولیات کی فراہمی، ماہرین کی تعداد میں اضافہ اور پالیسی سازی اس مسئلے کا مستقل حل ہو سکتے ہیں۔ ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ ذہنی بیماریوں کو سنجیدگی سے لے، مریضوں سے ہمدردی کا برتاؤ کرے اور خود بھی کسی علامت کا سامنا کرے تو فوراً ماہر نفسیات سے رجوع کرے۔ ذہنی بیماری کو چھپانا نہیں، سمجھنا، سنبھالنا اور اس کا علاج کرانا ہی اصل شعور ہے۔
ذہنی بیماریوں کا علاج صرف دوا یا تھراپی تک محدود نہیں ہوتا بلکہ مریض کے گرد موجود لوگوں کے رویے اور سپورٹ کا بھی اس میں گہرا دخل ہوتا ہے۔ جب خاندان اور دوست مریض کے جذبات کو سمجھتے ہیں، اس کے ساتھ ہمدردی اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں تو مریض میں جلد بحالی کی اُمید بڑھ جاتی ہے۔ معاشرتی تائید اور سماجی قبولیت ایک ایسا مرہم ہے جو مریض کی خود اعتمادی کو بحال کرتا ہے۔ اس کے برعکس مذاق اڑانا، بدنام کرنا یا تنقید کرنا مریض کو مزید تنہا اور مایوس کر دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے افراد کے لیے ایک محفوظ اور معاون ماحول فراہم کریں، جہاں وہ اپنی بیماری کے بارے میں کھل کر بات کر
سکیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہر چوتھا فرد زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے پر ذہنی دباؤ یا بیماری کا شکار ہوتا ہے، اس کے باوجود بہت سے ممالک میں اس پر مناسب توجہ نہیں دی جاتی۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو ذہنی صحت کے لیے الگ اسپتال، ماہرین، وارننگ سسٹم اور ریہیبلیٹیشن سینٹرز موجود ہیں، مگر ترقی پذیر ممالک میں یہ سہولیات ناپید ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں خاص طور پر ذہنی صحت پر کام کی شدید ضرورت ہے، جہاں عوام میں شعور کی کمی، غربت، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام ذہنی بیماریوں کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ حکومت، سول سوسائٹی، مذہبی رہنما، اساتذہ، میڈیا اور نوجوان نسل کو اس میدان میں متحد ہو کر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر انسان کو جسمانی کے ساتھ ذہنی سکون بھی میسر ہو۔
تعلیم کے شعبے میں ذہنی صحت کی شمولیت وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔ بچوں اور نوجوانوں کو ابتدا سے ہی جذباتی ذہانت، خود اعتمادی، دباؤ سے نمٹنے کی حکمتِ عملی اور دوسروں کے احساسات کی قدر کرنا سکھانا چاہیے۔ اسکولوں اور کالجوں میں تربیت یافتہ کونسلر کی موجودگی، ’’مینٹل ہیلتھ ایجوکیشن ‘‘جیسے مضامین کی شمولیت اور ذہنی سکون پر مبنی سرگرمیوں کا انعقاد طلبہ کو بہتر ذہنی کیفیت میں رکھ سکتا ہے۔ ایک ذہنی طور پر مطمئن طالب علم ہی مکمل کارکردگی دکھا سکتا ہے۔ اساتذہ کا کردار بھی یہاں بہت اہم ہے، جنہیں طلبہ کی جذباتی تبدیلیوں کا ادراک ہو اور وہ بروقت مدد فراہم کر سکیں۔ اگر کسی طالب علم میں الگ تھلگ رہنے، اچانک مزاج بدلنےیا پڑھائی میں دلچسپی ختم ہونے جیسے آثار نظر آئیں تو فوری طور پر کونسلنگ کا بندوبست کیا جانا چاہیے۔
روحانیت اور مذہب بھی ذہنی سکون کے اہم ذرائع ہیں، بشرطیکہ انہیں تنگ نظری کے بجائے ہمدردی، تسلی اور خود شناسی کا ذریعہ بنایا جائے۔ دعا، ذکر، مراقبہ اور سادہ طرزِ زندگی انسان کو اندرونی سکون عطا کر سکتے ہیں۔ تاہم ذہنی بیماری کو صرف ’’روحانی کمزوری‘‘ یا ’’جنات کا اثر‘‘ قرار دے کر علاج سے گریز کرنا بہت خطرناک رویہ ہے۔ مذہبی رہنماؤں کو بھی چاہیے کہ وہ عوام کو بتائیں کہ دوا اور دعا دونوں لازم ہیں۔ ذہنی بیماری بھی ایک بیماری ہے، جیسے شوگر یا بلڈ پریشر، جس کا باقاعدہ علاج ممکن ہے۔ ہمیں بطور معاشرہ ایک ایسا ماحول تشکیل دینا ہوگا، جہاں ذہنی صحت کو جسمانی صحت جتنی اہمیت دی جائے اور ہر فرد اپنے ذہنی سکون کی تلاش میں خود کو تنہا نہ سمجھے بلکہ اعتماد سے آگے بڑھے۔
ذہنی بیماری کو کبھی شرمندگی یا کمزوری نہ سمجھیں۔ اگر آپ یا آپ کے آس پاس کوئی فرد اداسی، پریشانی، خوف، تنہائی یا دیگر ذہنی دباؤ کا شکار ہو تو اسے تنہا نہ چھوڑیں۔ ایسے شخص کو سننا، سمجھنا اور حوصلہ دینا سب سے بڑا سہارا ہوتا ہے۔ فوری طور پر کسی ماہرِ نفسیات یا کونسلر سے رجوع کریں۔ یاد رکھیں ذہنی صحت بھی جسمانی صحت کی طرح اہم ہے اور بروقت علاج مکمل صحت کی طرف پہلا قدم ہے۔ اپنی اور دوسروں کی ذہنی کیفیت کا خیال رکھیں اور ہر حال میں ہمدردی، برداشت اور محبت کو فروغ دیں۔
(مضمون نگار پیشہ سےایک استاد ہیں، ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)
رابطہ۔8082403001
[email protected]