رواں ہفتہ کے دوران ریاست کے مختلف علاقوں میں شدید ژالہ باری سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور خاص طور پروادی کشمیر کے شمال و جنوب سے تعلق رکھنے والے کئی دیہات اور راجوری کے تھنہ منڈی علاقے میں ژالہ باری اور بادل پھٹنے سے سینکڑوں بھیڑ بکریاں ہلاک ہوئیں جبکہ دیگر املاک کو بھی نقصان پہنچا ۔ تھنہ منڈی میں قیامت خیز بارش اورژالہ باری کی وجہ سے سارے علاقے میں زبردست خوف وہراس کا ماحول برپاہوااوراس ناگہانی آفت کی وجہ سے زائداز110مویشی ہلا ک ہوگئے ۔ یہ حادثہ اُس وقت ہواجب دس کنبےموسمی ہجرت کرتے ہوئے اپنا مال مویشی لے کربالائی علاقوں کی طرف رواں تھے ۔بادل پھٹنے اورژالہ باری سے بنیادی ڈھانچے اورسڑک کوبھی نقصان پہنچاہے جس کی وجہ سے سڑک پر آمدورفت ٹھپ ہوگئی ۔تھنہ منڈی سمیت ریاست کے کئی دیگر علاقوں میںخاص کر وادی کشمیر کے کپواڑہ اور بارہمولہ اضلاع میں ژالہ باری سے میوہ جات کے درختوں اور فصلوں کو بھی شدید نقصان پہنچاہے جس کی بھرپائی کی جانی چاہئے ۔ اگرچہ ضلع انتظامیہ راجوری نے فوری طورپر متاثرہ کنبوں میں فی کنبہ 35ہزار روپے کی امداد تقسیم کی اور ساتھ ہی ان کے رہنے کے انتظام کے طور پر خیمے وکمبل دیئے جبکہ بھیڑ بکریوں کی ہلاکت پرمتاثرین کیلئے 4لاکھ روپے کی امداد کی منظوری بھی دی ہے جو قابل سراہنا اقدام ہے تاہم اس نقصان کا باریکی سے تخمینہ لگاکر اس بات کو یقینی بنایاجاناچاہئے کہ ہر ایک متاثرہ کنبے کو امداد کی فراہمی ہو تاکہ وہ پھر سے زندگی شروع کرسکے ۔پل بھر میں ہونے والی یہ تباہی ناقابل تلافی ہے اور اس کے نتیجہ میں دس سے زائد کنبوں کا سب کچھ اجڑ گیا ۔ عموماًیہ دیکھاجاتاہے کہ جب بھی ناگہانی آفت سے کسی جگہ تباہی مچتی ہے تو پھر ایک دوروز تک انتظامیہ کی طرف سے وقتی طور پر امداد فراہم کی جاتی ہے لیکن اس کے بعد متاثرین کو فراموش کردیاجاتاہے اور انہیں اپنے نقصان کے معاوضے کی خاطر فائیلوں کے پیچھے دفاتر کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں ۔ اگر2014کے ہلاکت خیزسیلاب کا ذکر ہی کیاجائے تو آج بھی بہت سے متاثرہ کنبے ایسے ہیں جن کو ابھی تک امداد فراہم نہیں ہوئی ہے ۔ اس حقیقت کا ادراک اس بات سے ہوتاہے کہ حال ہی میں ڈپٹی کمشنر راجوری نے جب سرحدی علاقے پنج گرائیں کنڈی کا دورہ کیا تو وہاں پایاگیاکہ متاثرین کو آج تک کسی قسم کی امداد نہیں ملی ۔اگرچہ موصوف نے اس غفلت پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 48گھنٹوں کے اندراندر تخمینہ رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی مگر اس مثال سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ قدرتی آفات سے متاثر ہونے والوں سے کیاسلوک ہوتاہے ۔ایسی بھی شکایات آتی رہی ہیں کہ متاثرین سے فائلیں مکمل کرنے کے عوض نذرانے طلب کئے جاتے ہیں۔ لیکن حالیہ تباہی پر ایسا نہیں ہوناچاہئے اور صاف وشفاف طریقہ سے متاثرہ کنبوں کی دادرسی ہونی چاہئے اور ان کے ساتھ بہر صورت انصاف ہوناچاہئے کیونکہ وہ سب کچھ کھوجانے کے بعد بے سروسامان ہوگئے ہیں ۔ساتھ ہی اس قہر انگیز آفت کو آفت سماوی قرار دیاجاناچاہئے اور متاثرہ کنبوں کو کم از کم چھ ماہ تک کیلئے مفت راشن فراہم کیاجائے جس کا مطالبہ مقامی لوگوں کی طرف سے بھی کیاجارہاہے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ژالہ باری وبادل پھٹنے سے متاثر ہوئے کنبوں کو فوری طور پر امداد فراہم کی جائے اور انہیں پہنچے نقصان کی تلافی کی جائے ۔