جیل ڈائری بہت لوگوںنے لکھی ہے لیکن راقم کوجن دوڈائریوںنے سب سے زیادہ متاثرکیا،ان میںافتخارگیلانی کی ’’تہاڑمیںمیرے شب وروز‘‘ اورفیض اللہ خان کی زیرتبصرہ کتاب ’’ڈیورنڈلائن کاقیدی‘‘ ہیں۔ چونکہ دونوںصحافیوں کی لکھی ہوئی ڈائریاں ہیں،لہٰذا ان کی اپنی ایک انفرادیت ہے۔صحافی ہرچیز کوباریکی سے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں اورکم سے کم الفاظ میںزیادہ احوال بیان کرنے کاملکہ رکھتے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں بھی یہ دونوں چیزیںپائی جاتی ہیں۔اس کتاب کے’’ اظہارخیال‘ ‘میںپاکستان کے مشہورومعروف دانشور،صحافی عامرہاشم خاکوانی رقم طرازہیں:
’’فیض اللہ کی یہ کتاب ڈیورنڈلائن کاقیدی دوتین لحاظ سے اہم ہیں۔ ایک تویہ ایک عام آدمی کی رودادہے،جس نے کسی قسم کے تعصبات، ڈپلومیسی یاتکلفات کے بغیر اسے لکھاہے۔پھروہ عام آدمی پیشے کے اعتبارسے صحافی ہے،چیزوںکوباریک بینی سے دیکھنا،ان کاگہرائی سے جائزہ لینااورتنقیدی نظرسے حقائق تک پہنچنے کی حسیات صحافیوں میںکچھ زیادہ تیزہوتی ہیں۔فیض اللہ خان کی تحریرسے اس کااندازہ لگانامشکل نہیں۔ انہوںنے افغان جیل، افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں، پولیس اہلکاروں،عدالتی عملے اورجیل میںقیدافغانوں کی ایسی عمدہ تصویرکھینچی ہے،جس کی مثال ملناآسان نہیں۔ٹی ٹی پی کے مہمندایجنسی گروپ کے بارے میںوہ خاصاکچھ انسائیڈ بتاتے ہیں اورطالبان کے مختلف گروپوں، ان کے مائنڈسیٹ کی بھی منظرکشی کرتے ہیں ۔ اس میںہرقسم کے احساسات اورمختلف شیڈزبکھرے ہیں۔ گھرکی یادیں،جیل کی سختیاں،جیل کے عملے کی سنگ دلی، مشکل لمحات میںرب تعالیٰ کے ساتھ قربت، رہائی کاجانفرالمحہ اوران پانچ ساڑھے پانچ مہینوں کے دوران گزرجانے والی ذہنی قیامت ……یہ سب رنگ اس کتاب میںملتے اورقاری کوایک انوکھے تجربے سے دوچارکرتے ہیں‘‘۔
گزشتہ دوصدیوںمیںدوایسے واقعات رونماہوئے جن کے عالم اسلام پر بہت گہرے اثرات پڑے۔ایک ۱۹۷۹ء کاایرانی انقلاب ،دوم روس کاافغانستان سے انخلاء۔ دونوںواقعات سے عالم اسلام عموماً اورنوجوان خصوصاً انساپائرہوئے۔ عالم اسلام ایک بارپھر پراُمید نظرآرہاتھا،خاص کرروس کے انخلاء کے بعد لیکن مسلمانوں کے آپسی اختلافات کی وجہ سے خانہ جنگی کی صورت حال پیداہوئی اوریہ خانہ جنگی اب پاکستان تک پہنچ گئی۔ گزشتہ کئی سالوںسے تحریک طالبان ،القاعدہ ،داعش اس حوالے سیسرخیوں میں رہے۔ فیض اللہ خان کی جیل ڈائری ان سب موضوعات کااحاطہ کرتی ہے۔
۲۳۲صفحات کی بھرپورمعلومات سے بھری یہ کتاب ’’پیش لفظ‘‘،’’اظہارخیال‘‘،’’عرض ناشر‘‘ کے علاوہ ۳۲عنوانات پرمشتمل ہے۔ فیض اللہ خان پاکستان کی مشہورچینل ARYسے وابستہ ہیں اوران کاشمارپاکستان کے معروف لکھاریوںمیںہوتاہے۔اسلام ،پاکستان اورعالم اسلام سے ان کی محبت ان کی تحریروں میںدیکھی جاسکتی ہے۔۲۰۱۴ء میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان ان سے Skypeکے ذریعہ رابطہ کرتے ہیں اوران سے TTPقیادت کاانٹریولینے کوکہتے ہیں۔ بڑی خبرکی تلاش میں فیض اللہ خان پشاور کاسفرکرتے ہیں۔وہاں احسان اللہ احسان کے آدمی کے ذریعے ان کوبتایاجاتاہے کہ انٹرویوکے لئے ان کو ڈیورنڈلائن پارکرکے افغانستان جاناہوگا۔ چونکہ فیض اللہ خان کامقصد عالم اسلام کے تمام جنگجو گروہوںکے طریقہ کاراوران کے نظریات کوسمجھناتھا،جس کی ابتدا ء وہ TTP کی قیادت سے مل کرہی کرتے ہیںاوربعد میں دیگر گروہوںسے ملتے۔اس سلسلے میں انہوںنے ڈیورنڈلائن کوعبورکرنے کافیصلہ کیا۔ ڈیورنڈ لائن کیاہے،اس سلسلے میں کتاب کے ناشرزاہدعلی خان رقم طرازہیں:
’’۱۸۴۹ء سے ۱۸۹۰ء کے درمیان افغانستان کے سرحدی قبائل اورسامراجی برطانوی حکومت ہندکے درمیان چالیس سے زیادہ خونریزجھڑپیں ہوئیں،جن میںبرطانوی حکومت کودوہزارسے زیادہ سپاہیوں اورافسروں کاجانی نقصان برداشت کرناپڑا۔ چنانچہ ان سرحدی جھڑپوں اورشمالی مغربی سرحدپرروس کااثرورسوخ اوراقتداربڑھ جانے کے اندیشے سے نجات کے لئے طویل المیعاد معاہدے کی غرض سے برطانوی ہند کے اس وقت کے وائسرائے نے افغانستان کے والی امیرعبدالرحمٰن سے رابطہ قائم کیا اوراپنے سفارت کاراورامورخارجہ کے سیکریٹری سرمارٹیمرڈیورنڈ(Sir Martimar Durand)کوستمبر ۱۸۹۳ء میںکابل بھیجا، ۱۲نومبر ۸۹۳ اء کودونوں حکومتوں کے مابین ایک سرحدی سمجھوتہ طے پاگیا جوخط ِڈیورنڈ(Durand Line)کے نام سے موسوم ہے‘‘۔
مختلف جگہوں پر تلاشی کاروائی میںبچتے ہوئے وہ احسان اللہ احسان کے پاس پہنچنے میںکامیاب ہوجاتے ہیں۔ احسان اللہ احسان سے ملاقات کی منظرکشی اس طرح کرتے ہیں:
’’احسان اللہ احسان میرامنتظرتھا۔بہت تپاک سے ملنے اورخیریت معلوم کرنے کے بعداس نے کولڈڈرنک سے میری تواضع کی،تھوڑی دیر بیٹھ کرہم خوب صورت منظرسے لطف اندوزہوتے رہے جوکہ دریا کے کنارے تھا،اب میراگائیڈ احسان اللہ احسان خودتھا۔طالبان کے زیراستعمال رہنے والی مخصوص کارمیں اس نے ڈرائیونگ کی نشست سنبھالی اورمیں فرنٹ سیٹ پربیٹھ گیا۔احسان اللہ احسان کے پاس ہولسٹر میںامریکی پستول موجودتھاجب کہ پیچھے بیٹھنے والے گارڈ کے پاس کلاشنکوف تھی۔ تیزی سے ڈرائیونگ کرتے احسان اللہ احسان ایک گاؤں کی حدود میں داخل ہوچکاتھا۔دلچسپ بات یہ تھی کہ راستے میںآنے والاہرشخص اورگاڑی کواحسان اللہ احسان ہاتھ کے اشارے سے سلام کرتاجس کااس کوجواب بھی دیاجاتا۔ یہ یہاںکارواج تھا۔ کچھ دیر کے بعدہم گاؤں سے ذراہٹ کربلندی پرواقع ایک بہت بڑے کمپاؤنڈ میںداخل ہوگئے ۔یہ تحریک طالبان پاکستان کاننگرہارمیںواقع میڈیاسیل تھا،جہاں پاکستانی ٹی وی چینلز کی مانیٹرنگ کی جاتی تھی۔سوشل میڈیاکے پیچزچلائے جاتے تھے۔ اگلے چاردن میںنے یہیں گزارے جوکہ بہت دلچسپ معلومات اوربڑی خبروں سے بھرے ہوئے تھے‘‘۔
۴دن تک فیض اللہ خان اپنے میزبان احسان اللہ احسان کے ہمراہ TTPکے لوگوں کے ساتھ مختلف معلومات حاصل کرتے رہے۔دوران حراست ان کی USBاگرچہ ضبط کی جاتی ہے،اس کے باوجود زیرتبصرہ کتاب میںوہ ٹی ٹی پی کے بارے میں اہم معلومات زبانی یاداشت کی بنیادپر رقم کرتے ہیںجس میں ملالہ یوسف زئی اوربے نظیر بھٹوپرحملہ، TTPکے لوگوں کی دن رات کے معمولات اورجدیدبنیادوں پرTTPکا میڈیاسینٹر قابل ذکر ہیں۔احسان اللہ احسان سے انٹرویو کے بعدان کی اگلی منزل تحریک طالبان کے سربراہ مولوی فضل اللہ اورمہمیندچپٹرکے امیر عمرخالد خراسانی کاانٹرویو کرناتھا۔ اس سلسلے میں جب ان کوملنے شمالی وزیرستان جاناپڑتاہے،تودوران سفر وہ راستے میںہی گرفتارہوجاتے ہیں۔ ۱۵دنوں تک انٹیلی جنس کی اذیتیںسہنے کے بعد وہ افغانستان کے ننگرہارجیل میں ۵ماہ قید کئے جاتے ہیں۔ان پر جاسوسی اورغیرقانونی طورپرسرحد پارکرنے کامقدمہ چلایاجاتاہے۔ وہیں دوسری طرف پاکستان کی سبھی مذہبی ،سیاسی اورسماجی جماعتوں کے ساتھ ساتھ صحافی برادری اورملالہ یوسف زئی ان کی رہائی کے لئے کوشش کرتی ہیں۔ بالآخرساڑھے پانچ ماہ بعدفیض اللہ خان صاحب جیل سے رہائی پاتے ہیں۔ جیل کے دوران ان کوموقع ملتاہے کہ وہ افغان معاشرت ،تحریک طالبان ،القاعدہ ،حقانی نیٹ ورک اورحزب اسلامی کوقریب سے دیکھ سکیں۔کتاب اس لحاظ سے دلچسپ ہے کہ فیض اللہ نے ان سب موضوعات کااحاطہ کیاہے۔
جب روس افغانستان میںداخل ہواتو پاکستان نے افغان مہاجرین کے لئے اپنے ملک کے دروازے کھولے۔پاکستان کے ہزاروں افراد نے روس سے لڑتے لڑتے اپنی جان دی لیکن معاصر افغانستان میںآپ کو پاکستان سے بیزاری دیکھنے کوملتی ہے۔ فیض اللہ خان کہتے ہیں کہ جب عمران خان اورمولانا طاہرالقادری نے پاکستان میں دھرنا دیاتو افغان قیدی خوش تھے کہ پاکستان عدم استحکام کاشکارہورہا ہے۔ اس سلسلے میں وہ مزیدلکھتے ہیں کہ افغانستان میںجو ٹاک شوزنشر کئے جاتے ہیں، ان میں پاکستان کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیاجاتاہے۔ ایک ایسی ہی فلم کااحوال وہ یوں بتاتے ہیں جووہاں کی ایک چینل ’’خورشید ‘‘پرچلائی گئی،جس میں پاکستان کومخاطب کرتے ہوئے قابل نفریں باتیں کہی گئی ہیںاورپاکستان کے تئیں اس عجیب نفرت میں خواتین میںبھی پیش پیش پائی جاتی ہیں
فیض اللہ خان عدالتی کاروائی کے سلسلے میںعدالت سے باہربیٹھے تھے ،وہیں ایک افغان عورت سے واسطہ پڑتاہے۔ فیض لکھتے ہیں:
’’اتنے میں ایک افغان عورت ہمارے قریب آئی اورپویس اہلکار سے پوچھا کہ اس بیچارے کوکس جرم میںزنجیروں میںجکڑ رکھاہے۔ اس پررحم کرواوراسے چھوڑ دو۔مجھے وہ عورت بہت مہربان معلوم ہوئی ،لیکن پولیس کے جوا ب کے بعداس کی ساری مہربانی یوں کافورہوئی کہ میںاسے ہکابکادیکھتارہا۔پولیس اہلکار نے اسے بتایاکہ یہ پاکستانی ہے جوغیرقانونی طور پرہمارے وطن میںداخل ہواہے،بس یہ الفاظ اداہونے کی دیر تھی، اس عورت نے چیخنا شروع کردیاکہ اس پاکستانی کومزیدکَس کے باندھ دواورکبھی بھی رہامت کرنا اوراسے عمر قیدکی سزاسنادو۔ بہرحال یہ وہ موقع نہیںتھا کہ میںاس سے اس کی (پاکستان سے) نفرت کے بارے میںتفصیلات جانتا‘‘۔
پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے بارے میںافغان معاشرہ متضادرائے رکھتاہے۔ تفتیشی کمرے میں کسی چینل پرمولانا فضل الرحمان کاانٹرویو چل رہاتھا ۔انٹیلی جنس اہلکار نے فیض سے مخاطب ہوکرکہا کہ ’’تمہارایہ لیڈر ہے جوکہتاہے کہ افغانستان میں جہادحلال ہے اورپاکستان میںحرام ‘‘۔ دوسری طرف طالبان دینی جماعتوں کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں۔فیض لکھتا ہے کہ تحریک طالبان کی قیادت پاکستان میں جمعیت علماء اسلام ،اہل سنت والجماعت ،جماعت اسلامی،تنظیم اسلامی جیسی دینی جماعتوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان اور تحریک طالبان افغانستان کے باہمی تعلق کے بارے میںفیض لکھتے ہیںکہ’’افغان طالبان کھلے عام نہ توپاکستان طالبان کے ساتھ تعلق کوتسلیم کرتے ہیںاور نہ ہی لاتعلقی کااظہارکرتے ہیںبلکہ اندرونِ خانہ ان کے تعلقات ایک دوسرے سے بہترہی ہیں،البتہ ان کی بعض کاروائیوں پرافغان طالبان کوشدیداختلاف ہے‘‘۔تاہم پاکستانی طالبان کاکہناہے کہ وہ خود کوافغان طالبان کاہی ایک حصہ سمجھتے ہیں ،کیونکہ تحریک طالبان انہی سے متاثرہوکربنائی گئی ہے۔
’’جہادیوں سے ملاقاتیں‘‘ کتاب کااہم باب ہے،جس میںوہ افغان طالبان ،حقانی نیٹ ورک ،حزب اسلامی اورالقاعدہ کے جہادی لوگوں سے ملتے ہیں۔اس باب میں مختلف تنظیموں کی دلچسپ معلومات ہیں۔طالبان اگرچہ فکری طورسے دیوبندی ہیںلیکن حالات نے ان کے اندربہت ایکامڈیشن لائی ہے،اب وہ اہل حدیث اورحزب اسلامی کو بھی برداشت کررہے ہیں۔ طالبان سے وابستہ ایک قیدی مولوی احمداللہ کے بقول: ’’افغان طالبان نے ماضی کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھاہے۔ان کے بقول ماضی اور حال کے طالبان میںخاصا فرق ہے۔ا ب ہم جدیدٹیکنالوجی کااستعمال کرتے ہیں اورہم اپنی سرگرمیوںکواضافہ دینے اوراپنی خبروں کی کوریج کے لئے انٹرنیٹ کااستعمال کرتے ہیں‘‘۔البتہ وہ جمہوری طریقہ سے حکومت حاصل کرنے کوٹھیک نہیںسمجھتے بلکہ وہ عالمی خلافت کے لئے کوششیں کررہے ہیں۔تورابوراسے تعلق رکھنے والے مولوی رفیع اللہ بگرام میںسات سال قیدتھے،وہ کہتے ہیںکہ انہوںنے کس طرح بگرام جیل میں۷قیدیوں کوقرآن پاک حفظ کرایا۔ حالانکہ وہاں قیدیوں کوالگ الگ پنجروں میں قیدرکھاجاتاتھا۔جیل میں القاعدہ سے تعلق رکھنے والے شیخ جعفر سے فیض اللہ خان کی ملاقات بڑی دلچسپ ہے۔ شیخ جعفر سے ملاقات سے القاعدہ کی سوچ کے بارے میںپتہ چلتاہے:
’’شیخ جعفر نے اس بات کی تصدیق کی کہ گیارہ ستمبر کے حملے دراصل اسامہ بن لادن کے احکامات کے مطابق عمل میںلائے گئے اوراس کاواحدمقصدامریکہ کوافغانستان میں اُلجھانا تھا تاکہ اسے معاشی طورپرکمزورکیاجاسکے۔اسی طرح عالمی سطح پراس کی گرفت کمزورپڑسکتی تھی۔شیخ جعفر کے مطابق اُسامہ بن لادن کامنصوبہ کامیاب رہا اورامریکا ناصرف افغانستان میںبلکہ اس کے بعد عراقی جنگ کی دلدل میںبھی اُترا۔ اس دوران ہزاروں امریکی فوجی مارے گئے اورمعاشی طورپرامریکا کودھچکا لگااوراس کادوسرا پہلو یہ تھا کہ شخصی آزادی اورانسانی حقوق کی بات کرنے والا یورپ اورامریکااپنی ہی شہریوں کی جاسوسی اوران پرمزیدٹیکس لگانے پرمجبورہوا۔ میںنے شیخ جعفر سے سوال کیا کہ اُن حملوںکے نتیجے میںامریکا کونقصان ہوایانہیںہوا؟ لیکن کئی اسلامی ممالک کھنڈربن گئے اور لاکھوں مسلمان قتل ہوگئے اوریہ صورت حال ہرآنے والے دن کے ساتھ بگڑتی جارہی ہے؟سر اورچہرے پررومال اوڑھے اورگھنی داڑھی والے شیخ جعفر نے دیرتک مجھے دیکھا اورایک طویل سانس لینے کے بعد گویاہواکہ اصل بات یہ ہے کہ آزادی اورخلافت کی بحالی کے لئے قیمت چکانا پڑتی ہے۔افسوس یہ ہے کہ اسلامی ممالک پرمسلط حکمرانوں کااسلام سے کوئی تعلق نہیںہے۔ القاعدہ نے یہ جنگ اللہ کی مدداوراپنے نظریات کی بنیادپرلڑی‘‘۔
طالبان ایک دوسرے کی ضروریات کاخیال رکھتے ہیںبلکہ افغان اورپاکستان طالبان کے کارکنوں کوان کی تنظیموں کی جانب سے ماہانہ خرچہ کے لئے پانچ ہزار روپے بھی دئے جاتے ہیں،اسی طرح جیل میںقید کے دوران ان کے لئے کپڑے،جوتوں،جیکٹ اورکمبل کابھی انتظام کیاجاتاہے۔ طالبان اپنے فنڈس کے لئے کیاکرتے ہیں،فیض اللہ لکھتے ہیںکہ تحریک طالبان فنڈزکے حصول کیلئے اپنے مخالفین اوراعلیٰ سرکاری وحکومتی شخصیات کواغواء کرکے بھاری تاوان وصول کرتے ہیں۔ جیل میں لائبریری قائم کی گئی ہے۔ اورساتھ ساتھ نماز کے بعددرس کااہتمام کیاجاتاہے ۔امت مسلمہ بحیثیت مجموعی فی الوقت ظاہرپرستی کی شکارہے۔افغان معاشرہ بھی ظاہرپرستی کاشکارہے۔ فیض تحریک طالبان پاکستان کے میڈیاسینٹر جاتے ہیں یاقیدخانہ،سرکاری کارندے ہوںیاافغان قیدی ،ہرجگہ تہجد ،فرض نمازوں اوراجتماعی دعاؤں کا خوب اہتمام کیاجاتاہے لیکن عبادات کا اثرعملی زندگی میں کہیںدکھائی نہیںدیتا۔ افغان معاشرہ اس قدرکرپشن کاشکار ہے کہ جج صاحبان بھی معمولی پیسوں کے عوض فیصلے بدل دیتے ہیں۔TTP والے ایک طرف تہجد کااہتمام کرتے ہیں ،وہی دوسری طرف معصوم پاکستانیوںکوبھی اپنانشانہ بناتے ہیں۔
’’شام ،یمن اورافغانستان میںجہادی تنظیموں کی دلچسپی کی وجوہات‘‘ کے باب میں داعش اوراس کی ذیلی تنظیموں کے بارے میں کافی اہم معلومات ہیں۔ فیض کہتے ہیں کہ داعش کوجس وجہ سے کافی انسانی وسائل ملتے ہیں، اس کاسبب یہ ہے کہ جہادی سمجھتے ہیںکہ وہ دراصل امام مہدی کے اُس لشکر کاحصہ ہیں جوحضرت عیسیٰؑ سے جاکر ملے گا اور دجال سے جنگ کرے گا۔ دل جب یہ مانتا ہے کہ یہ وہی علاقے ہیںجن کاپیغمبراسلام محمد عربیؐ نے ذکرکیاہے۔ ۷؍صفحات کے اس باب میں معلومات کااس قدر انبار ہے گویا سمندر کوکوزے میںبند کیاگیاہے۔مشرق میںرہنے والی خواتین اکثر اپنے اہل خانہ کے محورمیں رہتی ہیںاوراندرون خانہ رہناپسندکرتی ہیں۔تاہم مشاہدہ میںآیاہے کہ جب کبھی بھی اپنوںپے مصائب آئے ہیں تویہی خواتین چٹان بن کے ان مصائب کامقابلہ کرتی ہیں۔کتاب کاایک باب مضبوط اعصاب کی حامل فیض اللہ کی اہلیہ سنیتیہ کی جدوجہدپرمشتمل ہے،جوکہ انہوںنے خود تحریرکیاہے۔کتاب میں بیش بہا معلومات ہونے کے باوجود روانی اس قدرہے کہ کتاب قاری کوجکڑ کررکھتی ہے۔ZAKپبلی کیشن کے زیراہتمام شائع شدہ،خوبصورت گیٹ اَپ سے مزیّن کتاب اس لائق ہے کہ اس کوہرکوئی اپنی لائبریری کی زینت بنائے۔