وزیراعلی محبوبہ مفتی کی جانب سے ٹوٹیر پر ساٹھ ہزار ڈیلی ویجروں کی ملازمین مستقل بنانے کے غیر رسمی اعلان کے ساتھ اُن ہزاروں اُجرت پیشہ ملازمین ، جو نام کے لئے سرکاری ملازم تو کہلاتے ہیں لیکن عملی طور پر تمام مراعات سے محروم ہیں، کے گھروں میں خوشی کی لہر پھوٹ پڑی ہے اور ملازم انجمنوں کے ساتھ ساتھ سماج کے سبھی حلقوں کی جانب سے اسکا بڑھ بڑھ کر خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ یہ طبقہ برسہا برس سے برائے نام اُجرتوں پر محض اس امید کے ساتھ ملازمت سے جڑاتھا کہ کبھی نہ کبھی انہیں انکا حق دیکر انہیںمثبت زندگی گزارنے کے قابل بنایا جائے گا۔ اگرچہ یہ طبقہ ملازم انجمنوں کی سرپرستی میں کافی عرصہ سے مصروف جہد تھا، تاہم کئی مواقع پر مسئلہ حل ہونے کے نقوش نظر آنے کے باوجود قدم قدم پر روکاوٹیں کھڑی ہونے کے بہ سبب یہ برابر لٹکا ہوا تھا۔2011میں سرکاری ملازمین کے مشترکہ فورم اور حکومت کے درمیان سرکاری ملازمین کےمختلف مطالبات کو لیکر ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم اُس میں یومیہ اُجرت کے حاملین کا معاملہ لٹکتا رہا ۔ چنانچہ ریاستی سرکار نے اُس وقت وزیر خزانہ کی صدارت میں ایک کمیٹی تشکیل دیکر کئی برس بعد ان ملازمین کی مستقلی کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کی تھی لیکن سال 2014ء میں ایک کابینہ اجلاس میںنیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مخلوط حکومت کے دوران پارٹی سیاست حاوی ہونے کی وجہ سے اس رپورٹ کو منظور ی دینے کی بجائے اختلاف رائے کے بہ سبب کٹھائی میں ڈال دیا گیا تھا جس سے مختلف محکموں اور زیلی شعبوں میں کام کرنے والے اجیروں کی اُمیدوں پر اُوس پڑ گئی تھی۔ اگر چہ ملازم انجمنوں نے اس حوالے سے حکومت پر دبائو بنانے کی کوشش کی تھی اور یہ اُمید پیدا ہو چلی تھی کہ مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکل آئیگا لیکن اکتوبر2014کے سیلاب کی وجہ سے حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی اور اسکے فوراً بعد انتخابات کے اعلان اورضابطہ اخلاق کے نفاذ کی بنا پر یہ مسئلہ حل ہوئے بغیر ہی لٹکتا رہا ۔ مسئلے کے حل کےلئے پالیسی خطوط وضع کرنے کےلئے ریاستی چیف سکریٹری کی قیادت میں سال 2015میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے اگر چہ اس پر کام کیا تھا تاہم سابق وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید کے انتقال کے بعد گورنر راج کے نفاز اور پھر نئی حکومت کی تشکیل کے مراحل سے یہ معاملہ لمبا کھنچتا گیا، جس سے ملازمین کے اس طبقہ کی مایوسیوں میں دن بدن اضافہ ہو تا جا رہا تھا، کیونکہ ان میں سے ایک بڑا طبقہ کسی مستقل ملازمت کےلئے درخواست دینے کے لئے عمر کی حدود سے گزر چکا تھا اور ان کےلئے کسی نئے روز گار کے امکانات محدود ہی نہیں بلکہ مسدود ہو کر رہ گئے ہیں ۔ ایسے حالات میں ریاستی حکومت نے اس حوالے سےپالیسی ترتیب دیکر اسکو منظور ی دینے کا قدم اُٹھا کر ایک عوام پرورانہ اقدام کیا ہے، جسکا ریاست کے ہر خطے میں ہر طبقے کی طرف سے دلی خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ اب اس حوالے سے ضروری لوازم کی تکمیل کےلئے ایک اہم مرحلہ ا یس آر او کی اجرائی ہے۔ حکومت پر یہ لازم آتا ہے کہ وہ ایس آر او کی اجرائی کے وقت ان ملازمین کے اُجرت یافتہ مدت کار اور انکی تعلیمی اور تربیتی اسناد کو مدنظر رکھے تاکہ مستحقین کے ساتھ کوئی نا انصافی نہ ہو کیونکہ اس طبقہ میں ایسے ہنر مند وں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور باہنر ہونے کے باوجود مستقل ملازمتوں کے حصول میں ناکام ہوگئے ہیں اور اب عمر کی حدود سے بھی آگے نکل گئے ہیں ۔ بہر حال حکومت کو معاملے کے تمام پہلوئوں پر غور و خوض کرکے پالیسی کو روبہ عمل لانے میں مزید پس و پیش کرنے سے احتراز کرنا چاہئے، کیونکہ ماضی میں حل کے نکتے پر پہنچتے پہنچتے اس میں بے سبب روکاوٹیں پیداہوتی رہی ہیں۔اور یہ قبیح مثال دہرائی نہیں جانی چاہئے۔ چونکہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے اس مسئلے میں کافی دلچسپی ظاہر کی ہے لہٰذا یہ اُمید کی جارہی ہے کہ فوراً سے پیش تر سرکار کی طرف سے کئے گئے اس اعلان کو زمینی سطح پر روبہ عمل لاکر مختلف محکموں کے اندر اُجرت یافتہ گان کی ملازمتوں کو باقاعدہ بنانے اور انہیں تمام مالی اور سروس فوائید سے فیضیاب کرنے میں اب کسی مزید تاخیر سے کام نہیں لیا جائے گا۔