خبردار، ہوشیار، اس بار جو بات آپ کے گوش گذار کرنے جارہاہوں اس پر میں نے پہلے بار بار، لگاتار اور شام وسحار سوچ بچار کیا کہ کروں یا نہ کروں۔ بھی مجھے ایک پرانی فلم کا ایک یادگار گانا یاد آیا۔ ارے یہ کیا ہوا،کیوں ہوا اور کیسے ہوا کہ میں وہ گانا ہی بھول گیا، حالانکہ یہ جھوٹ ہے۔خیر جانے دیجیے میں جانتا ہوں وہ گانا آپکو پسند نہیں آئیگا کیونکہ آج کل ہر شہر ہر گاؤں میں ڈجٹل دور چل رہا ہے۔
چلئے جانے دیجیے۔ در اصل جس موضوع پر میں تیز رفتار و تیزطرار انداز میں آپ سے گفتار کے لئے بیقرار ہوں پلیز، مہربانی کرکے اس بات پر مجھ سے کوئی تکرار مت کرنا ورنہ میں خوامخواہ زندگی کے ایک خصوصی، بلکہ یوں کہیے کہ ہر دوار سے ،نرم و نازک صنف کی بیجا تلوار کی تیز دھار کا شکار ہوجاونگا۔
حالانکہ اس بڑے سنسار کاعظیم سپہ سالار یعنی پروردگار میرے دل کی حالت زار بخوبی جانتا ہے کہ خاکسار زندگی کے کسی بھی طبقے یا کسی صنف کی تذلیل کا خواستگار نہ کبھی تھا اور ہے۔ کیونکہ اس نرم ونازک صنف کے بارے میں خود علامہ اقبال نے ارشاد فرمایا ہے کہ
وجود زن سے ہے تصویر کائینات میں رنگ۔
بہرحال، میرے بے یار و مدد گار، دلدار اور دل قرار مرد یار دوستو آپ سب کو اتنا تو یاد ہوگا کہ کچھ ہی برس پہلے ہماپنی اہلیہ کو بیوی، پتنی، اردھانگنی، شریک حیات کے خوبصورت ناموں سے پکار تے تھے۔ بلکہ سرمایہ دار،جاگیردار، بڑے بڑے زمیندار و ساہوکار اپنی بیوی کو بیگم صاحبہ یا بھاگوان کے نام سے پکارتے تھے۔ اگر آپکی یادداشت کووڈ 19کاشکار نہ ہوئی ہو تو یہ بھی یاد ہوگا کہ ہم کشمیری میں اپنی بیوی کو خانہ دارینی (خانہ داری)یعنی گھر والی کہتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ بیچارہ عیال دار مرد شام و سحر کولہو کے بیل کی طرح روزگار کمانے اور اپنے عیال کا پیٹ بھرنے کےلئے لگاتار محنت ومشقت کرکے اپنا گھر بھی بناتا آیا ہے مگر اسکے باوجود بھی اسے خود مرد طبقے نے بھی گھر والا یا مالک مکان نہیں مانا بلکہ یہ دستار بھی عورت کے سر ہی حصے میں آگیا اور پھر بھی مرد کو یہ طعنہ دیا جاتاہے کہ وفادار نہیں۔ ارے ہم وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں۔مرد اگر زار زار یا زارو قطار بھی اشکبار ہوجائیگا تو لوگ اسے مکار، عیار کہہ کر دھتکار دیتے ہیں۔ اگر مرد گٹھنا پہ گھٹنا کابھی شکار جائے تو بھی اُس پر کوئی اعتبار نہیں کرے گااسکے برعکس عورت کا کیول ایک آنسو قہر برپا کریگا، اور تو اور مرد ہی مرد پر طعنوں یا گھونسوں سے وار پر وار کرینگے، چنانچہ یہ بات طے ہے کہ وار کرنیوالا مرد اپنے موباییل پر خود مس کالز کا اُمیدوار ہوتا ہوگا۔
ھاے افسوس مجھے کہنا کیا تھا اور میں کیا کہرہاہوں۔
میرے مرد یار! مجھے ایسا لگتاہے کہ جب سے عورت کے کانوں میں شاندار، جاندار اور دل کو قرار بخشے والے اچھے دن آنے کے سماچار بذریعہ اشتہار اسکے کانوں سے ٹکرا گئے کہ سارا بھارت ڈیجیٹل ہوجائیگا، اسی روز سے عورت نے نہ آؤ دیکھا نہ تاو، اس نے ترنت اپنا پرانا ویوہار اور طریقہ کار ایکدم بدل دیا اور اس نے بیوی کے
تیور بدل کر وایف ہونیکا تاج سر پر رکھا یعنی اب وہ گھر والی کے لباس کو تار تار کرکے وائف بن گئی۔ واہ! یعنی ونڈر پہ تھنڈر۔ اس نے ترنت اپنالائف سٹائیل بدل ڈالا۔ وہ گھر کے درو دیوار کو بائی بائی ، ٹاٹا ٹاٹا، کرکے بیوٹی پارلر کی دلدار بنی۔ بہ الفاظ دیگر کل تک جو گھر کی زینت ہوا کرتی تھی اب وہ شمع محفل بن گئی۔میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات کے بیچ ایک دیوار کی مانند بن گئی۔ اُسے لگا کہ وہ اب برسر اقتدار آگئی یا یوں کئے کہ وائف ابکار نجار بدست گلکار بنی۔ چھوٹا منہ بڑی بات نہ ہو تو وہ لالہ زار گھر کی زعفران زار اور سبزہ زار کو الوداع کہکر اب صرف ایک ماڈل جیسی وائف بن گئی ۔ بس پھر کیا تھا۔نہ اسکی آنکھوں میں وہ خمار رہا نہ نکاح نامے کا وہ قول و قرار رہا۔ یوں کہیے کہ وہ اب اپنے آپکو زیادہ سمجھدار اور پر وقار سمجھنے لگی۔
میں نے قومکے ایک نامور اور قدآور معمار سے پوچھا کہ وائف کامطلب کیا ہے۔ اسکی آنکھوں سے آنسوں کی دھار بہنے لگی یعنی خشک دریا سے آبشار بہنے لگا اور بولا کہ وائف کا مطلب ہے وریز انوایٹڈ فار ایور (Worries invited for you)۔مجھے اسکی یہ بات ایک زور دار جھٹکا دے گئی کیونکہ عورت ماں بھی ہے، بیوی بھی،بہن اور بیٹی بھی،یہاں تک کہ ایک بہو اور پُر وقار ساس بھی ہے۔ پھر میں نے اپنے ایک لالچی اور بیکار رشتےدار سے وائف کامطلب پوچھا تو اس نے کہا وایف کامطلب ہے ویلتھ انوایٹڈ فار ایور(Wealth invited for you)۔ آف کیا بکواس ہے۔ میں نے ایک تھانیدار سے جب استفسار کیا تو وہ وہ بولا وارنٹ انوایٹڈ فار ایور(Warrant Invited for you)۔ دھت تیری کی۔ اسکی اس بات سے مجھے ایسا جھٹکا لگا کہ میں پاس ہی ایک بغیر ڈھکن کے مین ہول میں گر گیا۔ میں نے بچاؤ بچاؤ کی چیخ و پکار کی بٹ، لیکن کنتو پرنتو
کوئی میرا مددگار نہیں بنابلکہ اُلٹا ڈیوٹی کے دوران گپ شپ میں مصروف بغیر کسی ٹریننگ والا ٹریفک اہلکار مجھے ہی ٹریفک جام کا زمےدار ٹھہرانے لگا۔ شکر پروردگار کا کہ میں کسی طرح سے جانبچاکر ٹیڑھی میڑھی اور اوبڑ کھابڑ سڑک پر واپس آگیا۔۔اسی دوران ایک ملنگ کادیدار ہوا تو اس سے جب وائف کامطلب پوچھا تو وہ بولا وائف کا مطلب ہے وزڈم انواییٹڈ فار ایور۔ (Wisdome invited for you)یہ بات کچھ ہضم ہوئی مگر وائف کابھوت اب بھی میرے ذہن پر سوار ہے۔
انجامکارمجھے بس یہی کہنا ہے کہ نہ جانے میرے سب یار اپنی وایف سے ڈرتے کیوں ہیں۔جو شخص گھر کے باہر رعب دار، جمادار، موسیقار، ہدایتکار، کلاکار بلکہ تھانیدار جیسے لگتے ہیں وہی لوگ اپنی بیوی کے آگے شرمدار، بیمار، لاچار، برسوں سے بیمار، خدمتگار اور نادار جیسے کیوں لگتے ہیں۔ مگر شکر ہے کہ میں اتنا زوردار ہوں کہ مجال ہے کہ وہ میرے سامنے تیز طرار بُنے اُلٹا وہ میرے پاؤں دھوتی ہے اور کبھی کبھار تو میرے پاؤں دھوکر وہ پانی پی بھی لیتی ہے۔اور تو اور وہ میری تلوار جیسی مونچھوں سے ایسے ڈرتی ہے، ایسے ڈرتی ہے۔۔۔۔ ارے میاں! آپ لوگوں کو اور کوئی کاروبارنہیں ہے کیا۔ سو جھوٹ مجھ سے بلواتے ہو۔ ا۔ا۔ا۔آیا میڈم جی۔ ارے پہلے اپنی مونچھوں کو نیچے تو کرلو۔ جانو میری جان، آرہا ہوں۔ جل تو جلال تو اسکے غصے کو مار تو۔
���
آزادی بستی غوثیہ سیکٹر نٹی پورہ،موبائل نمبر؛9140484453