! ڈیجیٹل غلامی۔۔۔ | موبائل ہم چلا رہے ہیں یا موبائل ہمیں چلا رہا ہے؟

Towseef
8 Min Read

صدائے کمراز

اِکز اقبال

کبھی صبح کا آغاز اذان سے ہوتا تھا یا کسی پرندے کی صدا سے۔ آج نیند کھلتی ہے تو سب سے پہلے ہاتھ موبائل کی طرف لپکتا ہے۔ آنکھ پوری کھلنے سے پہلے واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام اور ای میل سب کو جھاڑ پونچھ دی جاتی ہے جیسے یہ کوئی مذہبی فریضہ ہو۔

اب ہم صبح کا ناشتہ نہیں کرتے، بلکہ ’’اسٹوری‘‘ پوسٹ کرتے ہیں۔ ہم کسی تقریب میں شریک نہیں ہوتے، بلکہ سیلفی کا کینوس بن کر رہ جاتے ہیں۔ ہم سفر میں دل بہلاتے نہیں، بلکہ نیٹ ورک سگنل تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ ہم نے زندگی کو نہیں بدلا، بلکہ زندگی کو اسکرین پر قید کر دیا ہےاور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں!

سوشل میڈیا کے ان بظاہر بے ضرر آئینوں میں ہم خود کو دیکھتے نہیں، کھو دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے ہمیں آپس میں جوڑنے کا وعدہ کیا تھا، مگر اصل میں ہمیں ’الگ‘ کر دیا۔ ہماری پسند و ناپسند، ہنسی، آنسو، اشتعال اور خوف اب ہمارے ہاتھ میں پکڑے اس فون کی مرضی سے مشروط ہیں۔

الگورتھم وہ ماہر نفسیات بن چکا ہے، جو آپ کی خاموشی میں بھی آوازیں تلاش لیتا ہے۔ الگورتھم (Algorithm) نامی یہ شیطان اب جان چکا ہے کہ ہمیں کس بات سے غصہ آتا ہے، کون سی ویڈیو ہمیں روک لیتی ہے، کون سا جملہ ہمیں دن بھر اداس رکھتا ہے اور پھر وہی آوازیں، وہی ویڈیوز، وہی موادبار باراس لیے پیش کرتا ہے تاکہ آپ اس جال سے نہ نکل سکیں۔اور پھر ایک دن۔۔۔آپ کو احساس ہوتا ہے کہ آپ موبائل نہیں چلا رہے، موبائل آپ کو چلا رہا ہے۔

ہم اب ہزاروں فالوورز رکھتے ہیں مگر تنہا بستروں میں سوتے ہیں۔ ہم محبت کا اظہار ایموجیز سے کرتے ہیں، اور ناراضگی ’’انفالو‘‘ کے ذریعے دکھاتے ہیں۔ ماں کی بات بیچ میں کاٹ کر فون چیک کرتے ہیں، دوستوں کے بیچ بیٹھ کر اسٹیٹس اپ ڈیٹ کرتے ہیں اور زندگی کے حسین لمحات کو محسوس کرنے کے بجائے ریکارڈ کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

گفتگو اب صرف الفاظ کا لین دین ہے، احساس کا نہیں۔

خاموشی کا وقت اب ویڈیوز سے پُر کیا جاتا ہے، اور دل کے درد کو ’’میوزک پلے لسٹ‘‘ سے دبایا جاتا ہے۔ ہم اب لمحوں میں نہیں جیتے، ہم اب بس دِکھاتے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( WHO ) کے مطابق مسلسل اسکرین ٹائم ذہنی دبائو، پریشانی ، بے خوابی، نیند کی کمی، چڑچڑاپن، خود اعتمادی میں کمی اور اضطراب جیسے مسائل کا سبب بن رہا ہے،خاص کر نوجوانوں میں ۔بغور جائزہ لیا جائےتو’’پہلے ہم نے مشینیں بنائیں کہ وہ ہماری خدمت کریں،مگرآج وہی مشینیں ہماری سوچ، سانس اور شناخت پر قابض ہو چکی ہیں۔‘‘ذرا کچھ دیر کے لئے ماضی میں جانے کی زحمت گوارا کریں کہ موبائل فون کی آمد سے پہلے زندگی بہت سہل نہیںہوا کرتی ، جب لینڈ لائین فون صرف کال سُننے کے کام آتا تھا۔اب جبکہ موبائل فون صرف کال سننے کے کام نہیں آتا،کیونکہ اِس نے چھوٹی چھوٹی بہت سی مشینوں کو نگل لیا ہے،جس کے نتیجے میں اب ہم خط لکھنے کی خوبصورت روایت کھو چکے ہیں، فوٹوگرافر اور ویڈیو والے سے نجات ملی ہے، ہاتھ پر گھڑی باندھنے کی ضرورت ختم ہوچکی ہے، اخبارات و رسالوں کا مطالعہ کی حاجت بھی نہیں رہی ہے، آن لائن شاپنگ نے بازار جانے کی زحمت سے چھٹکارا دلادیا ہے۔ غرض یہ کہ صرف ایک موبائل فون نےآپ کی دنیا سمٹ کر آپ کو لاغر بناکر رکھ دیا ہے۔ لیکن کیا کبھی غور کیا کہ اس موبائل فون نے نہ صرف ہماری زندگی سے سکون و چین چھین لیا ہے بلکہ ہماری جسمانی و ذہنی قوت کو بھی غارت کردیا ہے۔2023 کی ایک عالمی تحقیق کے مطابق نوجوانوں میں ’’ڈیجیٹل ڈپریشن‘‘ موجودہ دور کی خاموش وبا بن چکی ہے۔مگر کیا ہم رکنے کو تیار ہیں؟نہیں! ہم اس اسکرین کے اسیر ہو چکے ہیں اور ہمیں اپنی زنجیریں سونے کی لگتی ہیں۔ ہم پھر بھی فون چارج کرتے ہیں اور اپنے دل کو ڈسچارج ہونے دیتے ہیں۔

حل؟ بھاگنا نہیں، سدھارنا ہے۔حل یہ نہیں کہ ہم موبائل چھوڑ دیں، حل یہ ہے کہ ہم اسے قابو میں رکھیں۔ ہمیں پہاڑوں میں جا کر موبائل توڑنے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں بس یہ یاد رکھنا ہے کہ ہم انسان ہیں، ایپ نہیں۔
کچھ چھوٹے مگر گہرے قدم:

غیر ضروری نوٹیفکیشن بند کریں، کچھ نوٹیفکشنز کو نظرانداز کرنا ہی بہتر ہیں۔دن میں کچھ لمحے ’’موبائل فری‘‘ بنائیں۔ کھانے، نماز، یا گفتگو کے وقت موبائل فون کو اپنے سے الگ رکھیں۔سونے سے ایک گھنٹہ پہلے فون بند کریں، نیند سے پہلے اسکرین کی بجائے کتاب یا دعا کو اپنائیں۔

بچوں کے ہاتھ میں کھلونے دیں، موبائل نہیں۔ بات موبائل فون کے اچھا یا بُرا ہونے کی نہیں ہے۔ اگر آپ کا موبائل فون آپکے بچے کے ہاتھ میں آگیا ہے ‘ ،جان لو اپنے سو فیصد اپنا لخت جگر کھو دیا ہے ۔
اور کبھی کبھی خود سے پوچھیں:کیا میں فون چلا رہا ہوں، یا فون مجھے؟اگر آپ کا موبائل بند ہو جائے تو کیا آپ کا وجود بھی مفلوج ہو جاتا ہے؟اگر ہاں، تو لمحہ فکریہ ہے۔فون آپ کی سہولت ہے، مقصد نہیں!ہم نے ہر جذبہ ڈیجیٹل کر دیا ہے۔ آپ کسی فون کے فیچر نہیں، خالق کی تخلیق ہیں۔ آپ میں خواب ہیں، جذبے ہیں، درد ہیں، دعا ہیں۔زندگی کو فلٹر کی نہیں، احساس کی ضرورت ہے۔ اپنی اسکرین کو دیکھتے دیکھتے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ اپنے آپ کو ہی نہ پہچان پائیں۔کبھی آنکھیں اٹھا کر آسمان دیکھیے،کبھی کسی کی بات بغور سنیے،کبھی کسی کو گلے لگا کر خاموشی سے رو لیجئے،یہی وہ لمحات ہیں جو سچ میں زندگی کہلاتے ہیں۔زندگی اگر اسکرین پر ہی گزارنی تھی، تو آنکھیں، دل اور رشتہ دار ہمیں کیوں عطا کیے گئے؟کیا ہم واقعی اتنے مصروف ہو گئے ہیں؟ یا ہم نے مصروف دکھائی دینے کا ہنر سیکھ لیا ہے؟
یاد رکھیں۔ایک دن یہ موبائل بند ہو جائے گا، بیٹری ختم ہو جائے گی، انٹرنیٹ رُک جائے گا۔۔۔اور تب آپ کو صرف وہی لوگ یاد آئیں گے، جنہیں آپ نے نظرانداز کر کے ایک پوسٹ اپلوڈ کی تھی۔
( مضمون نگار، ایک قلم کار اور تجزیہ نگار ہیں اور مریم میموریل انسٹیٹیوٹ پنڈت پورا قاضی آباد میں پرنسپل ہیں، ان کا ماننا ہے کہ انسان کو جدید بننا چاہیے، مگر خود کو کھوئے بغیر)
رابطہ۔ 7006857283
[email protected]

Share This Article